اشرافیہ کو دی جانے والی تمام مراعات بند کی جائیں

ملک بھر میں بجلی مہنگی ہونے کے خلاف مظاہرے جاری ہیں۔ اس بار ان مظاہروں میں صرف بجلی کے مہنگا ہونے کو ہی موضوع نہیں بنایا گیا بلکہ یہ بھی مطالبہ کیا جارہا ہے کہ کسی بھی عہدے پر تعینات شخص کو مفت بجلی فراہم نہ کی جائے۔ یہ ایک جائز مطالبہ ہے جسے بہت پہلے سامنے آنا چاہیے تھا۔ حکومت اور اشرافیہ کی ملی بھگت سے اس ملک کے عوام پر جو ظلم کیا جارہا ہے اس کی تاریخ بہت پرانی ہے اور یہ سلسلہ تھمنے میں ہی نہیں آرہا۔ اقوامِ متحدہ کے ذیلی ادارے یو این ڈی پی نے اپنی ایک رپورٹ میں یہ بتایا ہے کہ پاکستانی حکومت ہر سال اشرافیہ کو ساڑھے سترہ ارب ڈالر کی مراعات و سہولیات مہیا کرتی ہے۔ یہ نہایت حیرت انگیز اور افسوس ناک بات ہے کہ جو ملک ایک ایک دو دو ارب ڈالر کے لیے کشکول لے کر دنیا بھر کے ملکوں اور اداروں کے آگے ہاتھ پھیلا رہا ہے وہاں ایک طبقے کو ساڑھے سترہ ارب ڈالر کی مراعات و سہولیات دی جاتی ہیں۔
 اس وقت تک حکومت پر عوامی مظاہروں کی وجہ سے جو دباؤ بنا ہوا ہے اس کی وجہ سے ہفتے کے روز کو اینکرز اور بیورو چیفس کو دی جانے والی بریفنگ میں نگران وفاقی وزیر اطلاعات مرتضیٰ سولنگی اور سیکرٹری پاور راشد لنگڑیال نے بتایا کہ حکومت نے بجلی کی تقسیم کرنے والی کمپنیوں یا ڈسکوزکے گریڈ 17 اور اوپر کے ملازمین کے لیے مفت بجلی ختم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ ان ملازمین کو مفت بجلی کی جگہ پیسے دیے جائیں گے اور اس حوالے سے سمری جلد کابینہ کو بھجوا دی جائے گی۔ انھوں نے کہا کہ ٹیرف کا تعین نیپرا کرتا ہے حکومت نہیں، نیپرا نے قیمت کے تعین کے لیے تین معیارات مقرر کر رکھے ہیں۔ ایندھن کی قیمت، زرمبادلہ کی شرح اور قرضوں پر شرح سود شامل ہیں اور ان تینوں چیزوں میں اضافہ ٹیرف بڑھنے کا لازمی سبب بنتا ہے۔ اگر کھپت زیادہ ہو تو کیپسٹی چارجز میں کمی سے ٹیرف کم ہوتا ہے۔ سیکرٹری پاور نے مزید کہا کہ ڈالر کی آئندہ سال کے لیے بیس لائن 286 روپے رکھی لیکن اس وقت بھی ریٹ زیادہ ہے، اگلے سال بھی دو کھرب روپے بجلی خریداری کے لیے خرچ کرنا پڑیں گے۔
حکومت نے اہم عہدوں پر جتنے بھی افراد تعینات کررکھے ہیں وہ عوام کو گمراہ کرنا اپنا بنیادی فرض سمجھتے ہیں۔ سیکرٹری پاور بھی جو کچھ کہہ رہے ہیں اس کا صاف سیدھا مقصد عوام کو طفل تسلی دینا ہے تاکہ وہ بہل جائیں اور احتجاج کا راستہ ترک کردیں۔ اس سب کی وجہ سے ملک اس حال کو پہنچ چکا ہے کہ آج خانہ جنگی کے حالات پیدا ہوچکے ہیں۔ اس صورتحال کے یکے بعد دیگرے حکومتیں بنانے والی سیاسی جماعتیں پوری طرح ذمہ دار ہیں۔ یہ جماعتیں حکومت حاصل کرنے کے لیے کسی بھی حد تک جانے کو تیار رہتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی طرف سے سرکاری افسران اور اشرافیہ کو ایسی ایسی مراعات اور سہولیات دی جاتی ہیں جن کا دنیا کے کسی بھی اور ملک میں کوئی تصور نہیں پایا جاتا۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ جب تک یہ مراعات و سہولیات کلی طور پر ختم نہیں کی جاتیں تب تک ملک کو مستحکم نہیں بنایا جاسکتا۔
ہفتے کے روز ہونے والی مذکورہ بریفنگ میں نگران وفاقی وزیر اطلاعات مرتضیٰ سولنگی بھی موجود تھے۔ اس موقع پر انھوں نے کہا کہ بجلی کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے عوام مشکل صورتحال سے دوچار ہیں، نگران وزیراعظم نے آج بجلی کی قیمتوں کے حوالے سے اعلیٰ سطحی اجلاس طلب کیا ہے۔ نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے بجلی کے بلوں کے معاملے پر جو ہنگامی جلاس طلب کیا تھا اس کے بارے میں تادمِ تحریر کوئی اطلاع موصول نہیں ہوئی کہ اس میں کیا فیصلہ کیا گیا ہے لیکن ایک بات طے شدہ ہے کہ نگران حکومت معاملات کو جس طرح چلا رہی ہے اس سے عوام کے مسائل میں اضافہ ہورہا ہے۔ یہ صورتحال ملک کے لیے مزید مسائل کا باعث بنے گی کیونکہ عوام تنگ آچکے ہیں اور اب تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق وہ ریاستی اداروں کے سامنے کھڑے ہورہے ہیں۔ اس معاملے کو اگر فوری طور پر قابو میں نہ لیا گیا تو یہ کسی بڑے مسئلے کو جنم دے گا۔
دوسری جانب، بجلی کے بلوں میں غیرمعمولی اضافے کے خلاف ملک بھر میں احتجاجی مظاہرے کیے جا رہے ہیں۔ مختلف شہروں میں بجلی فراہم کرنے والی کمپنیوں کے عملے پر تشدد کے واقعات بھی سامنے آئے ہیں۔ تاجروں سمیت عوام حکومت سے بجلی کے نرخوں میںکمی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ تاجروں نے بجلی کے بھاری بلز اور ٹیکسوں کی بھرمار کے خلاف شٹر ڈائون کا اعلان بھی کیا ہے۔ اس سلسلے میں راولپنڈی، ملتان، گوجرانوالا اور پشاور سمیت ملک کے مختلف شہروں میں مظاہرے کیے گئے جن میں شہریوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ شہریوں نے احتجاجاً بل جلائے اور دھرنا دیا، راولپنڈی میں مظاہرین کمیٹی چوک پر جمع ہوئے اور حکومت سے بجلی پر ٹیکسز ختم کرنے کا مطالبہ کیا جبکہ گوجرانوالا میں گیپکو آفس کا گھیرا کیا گیا۔ کراچی میں بھی بجلی کے نرخوں میں اضافے پر جماعت اسلامی اور تاجروں نے کے الیکٹرک کے خلاف احتجاج کیا۔
واضح طور پر دکھائی دے رہا ہے کہ ملک اور عوام کے مسائل کی بڑی وجہ اشرافیہ کو دی جانے والی مراعات و سہولیات ہیں جو قومی خزانے پر ایک بھاری بوجھ ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ فی الفور ان مراعات و سہولیات میں کمی کرے اور اس کمی سے جو رقم حاصل ہو اسے عوام کو ریلیف دینے کے لیے خرچ کیا جائے۔ اگر حکومت نے اس موقع پر بھی ہوش کے ناخن نہ لیے تو وہ وقت دور نہیں جب ملک میں حالات بہت زیادہ بگڑ جائیں گے اور عوام کا غم و غصہ پھر اس نہج پر پہنچ جائے گا جہاں کوئی بھی اسے قابو نہیں کرسکے گا۔

ای پیپر دی نیشن