گزشتہ ایک دہائی سے زیادہ عرصہ سے دہشت گردی اور بربریت کے اس کھیل میں پشاور شہر سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے جہاں پر اس قسم کے دو سو سے زیادہ واقعات ہو چکے ہیں جن میں سینکڑوں بے گناہ شہری اور سیکیورٹی فورسز کے اہلکار جان کی بازی ہار چکے ہیں۔ گزشتہ اتوار 22 ستمبر کو پشاور میں گرجا گھر پر ہونے والا دہشت گردی کا حملہ اس شہر میں دہشت گردی کی کوئی پہلی کاروائی نہیںاُسی کی ایک کڑی ہے۔ دہشت گردی کا حالیہ واقعہ مسیح برادری کے خلاف ہونے والا سب سے بڑا حملہ ہے۔ یہ ایک خاص طبقے یا مذہب کے خلاف نہیں بلکہ محب وطن پاکستانیوں کے خلاف ایک بزدلانہ کاروائی ہے۔ اس کشت و خون کے کھیل سے کوئی بھی محفوظ نہیں چاہے اُس کا تعلق کسی بھی مذہب،طبقے،گروہ یا علاقے سے ہو ۔ جب کبھی بھی ایسا کوئی واقعہ ہوا تو پوری قوم نے نہ صرف اس کی مذمت کی بلکہ متاثرہ مذہب کے ساتھ بھرپور یکجہتی کا اظہار بھی کیا۔پاکستان میں تمام مذاہب کو ترقی کے یکساں مواقع میسر ہیں جس کا ثبوت زندگی کے مختلف شعبوں میں تمام مذاہب کے لوگوںکی بھرپور شرکت سے ملتا ہے۔ پاکستان میں بسنے والے تمام مذاہب کے لوگ اتنے ہی مُحِب وطن ہیں جتنے کہ مسلمان۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ دہشت گردی کی ان کارروائیوں کا نشانہ صرف مسیحی برادری ہی نہیں بلکہ سکھ،ہندو اور قادیانی بھی بنے ہیں۔ دہشت گردوں کا نشانہ صرف گرجا گھر نہیںبلکہ مندر، گردوارے، مساجد، امام بارگاہیں، مزارات اور خانقاہیں بھی تواتر کے ساتھ بن رہی ہیں جوکہ اس بات کا ثبوت ہیں کہ ان دہشت گردوں کا کوئی مذہب ،کوئی عقیدہ نہیں یہ ایک سوچ ،ایک سازش اور سوچی سمجھی سکیم کے تحت کیا گیا ہے جس کا واحد مقصد ملک میں انارکی،عدم تحفظ کی فضا اور تباہی پھیلانا ہے۔ یہی وہ وقت ہے کہ ہم سب ایک ہو کر ایک دوسرے کے دُکھ میں شریک ہو کے دہشت گردوں کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ ایک طرف دہشت گردوں نے جو ملکی اثاثے اور انسانی جانوں کو شدید نقصان پہنچایا تو دوسری طرف صرف اپنی ہی عوام نے اپنی ہی مسیحی برادری نے املاک، کاریں،سڑکیں جلائیں توڑیں اور جلوس نکالے تو نقصان پر نقصان ہوتا چلا گیا اگر ہم ذرا بھی سوچ بچار سے کام لیں تو اس عمل کو یہیں روکا جا سکتا ہے۔ ہم اس طرح کے ردِ عمل سے تو دہشت گردوں کی مدد کر رہے ہیں اور اپنا نقصان ۔ اس حادثے کے بعد اگر ہمارے دشمن یا مختلف دہشت گردوں کے گروہ یہ سمجھتے ہیں کہ مذاکرات روک دیئے جائیں گے اور انسانی لہو کا بازار گرم رکھنے کی اجازت دے دی جائے گی تو یہ اُن کی ناسمجھی ہے۔ نہ ہماری عوام اتنی نا سمجھ ہے ،نہ ہمارے حکمران اتنے کم ہمت اور ناقص العقل کہ اُن کی اس سازش اور ارادے کو سمجھ نہ سکیں۔ حکومت کی جانب سے حال ہی میں منعقد کی جانے والی آل پارٹیز کانفرنس میں اتفاق رائے سے امن کو ایک موقعہ دینے کے لیے بات چیت کے ذریعے مسئلے کے حل کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ جس کے بعد اس طرح کی کارروائیاں یقینا اس سارے عمل کو مشکوک بنا دیتی ہیں۔
آپریشن یا طاقت کا استعمال بحرحال ایک آخری آپشن کی صورت میں موجود ہے جس کے لیے کسی بصیرت یا ذہانت کی ضرورت نہیں لیکن اگر یہ آپشن مذاکرات کی مخلصانہ اور بھرپور کوشش کے بعد استعمال کی جائے تو نہ صرف اسے ایک قومی اتفاق رائے کی حمایت حاصل ہو گی بلکہ کامیابی بھی یقینی ہو گی۔ ہمارے معاشرے میں اب بھی بہت سارے لوگ طاقت کے استعمال پر یقین نہیں رکھتے مگر مذاکرات کی منطقی کوشش کی ناکامی کی صورت میں وہ بھی حکومت کی حمایت پر مجبور ہوں گے۔ اس صورت حال میں ضرورت اس امر کی ہے متضاد آرا سے صورت حال کو مزید گھمبیر کرنے کی بجائے حکومت کی بھرپور حمایت کی جائے تا کہ اسے فیصلہ سازی میں مدد مل سکے۔ان سفاک دہشت گردوں کا کوئی مذہب نہیں ہے۔ وزیرِ اعظم کے دورہ امریکہ کے موقع پر مسیحی برادری کے خلاف ہونے والا یہ حملہ بین الاقوامی برادری کے سامنے پاکستان کی ہزیمت کے علاوہ کچھ نہیں جیسا کہ اُن کے چین کے دورے کو موقعہ پر نانگا پربت میں چینی سیاحوں کا قتلِ عام کر کے کیا گیا۔ یہ واقعات اس بات کا واضح ثبوت ہیں کہ ہم ایک گھناﺅنی بین الاقوامی سازش کا شکار ہیں۔ پاکستانی قوم اور فوج اس بات کی بھر پور صلاحیت رکھتی ہے کہ اپنے وطن کو ہر قسم کی اندرونی اور بیرونی جارحیت سے محفوظ رکھیں۔ اس موقع پر میڈیا کو بھی اپنا بھرپور کردار ادا کرنا چاہیے تا کہ قومی اتفاقِ رائے کو مزید آگے بڑھایا جا سکے۔ ریاست سے مضبوط بحرحال کوئی نہیں ہو سکتا اور اس چیز سے دہشت گرد بھی بخوبی آگاہ ہیں۔
عاشقانِ عمران خاں کی مایوسی کے عکاس ضمنی انتخابات کے نتائج
Apr 23, 2024