سردار نامہ .... وزیر احمد جو گیزئی
wazeerjogazi@gmail.com
سابق ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی
سابق وزیر اعظم نواز شریف وطن واپس پہنچ چکے ہیں ، واپسی کا مطلب یہ ہے کہ آئندہ عام انتخابات میں ان کی شرکت ہو گی۔ ہم انہیں خوش آمدید کہتے ہیں۔گو کہ میاں نواز شریف کو ابھی قانونی معاملات کا سامنا ہے لیکن امید کی جاسکتی ہے کہ ان کو ریلیف مل سکتا ہے۔نواز شریف تین مرتبہ وزیر اعظم رہے ہیں اور بظاہر یہ لگتا ہے کہ وہ 4ویں بار بھی وزیر اعظم بننے کی تیاری کر رہے ہیں۔جمہوریت کا حسن اسی بات میں مضممرہے کہ اکثریتی جماعت چھوٹی جماعتوں کو لے کر ساتھ چلے اور مل کر ایک سیاسی استحکام لایا جائے۔اگر ملک کی اپوزیشن کو اس طرح سے دبا کر رکھا جائے جس طرح سے عمران خان نے رکھا تھا ،نہ ہی اپوزیشن سے کوئی مشورہ لیا جاتا تھا اور نہ ہی اپوزیشن کی رائے سنی جاتی تھی اور تو اور اپوزیشن سے سلام دعا بھی نہیں رکھی جاتی ہے۔یہ بھی نہیں سوچا جاتا کہ موجودہ وقت کی اپوزیشن مستقبل کی حکمران ہو تی ہے اور ان کو صلاح مشورے میں شامل رکھنا کلیدی اہمیت کا حامل امر ہے لیکن ہمارے ہاں ایسا کیا نہیں جاتا ہے ،ہمیں اپنے رویوں میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے اس کے بغیر ہم آگے نہیں بڑھ سکتے ہیں جمہوریت صرف ایک نظام کا نام ہی نہیں ہے ،بلکہ رویوں کا نام ہے رویوں میں تبدیلی کا نام ہے ،ہمیں اس طرف بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔اپوزیشن کو ہمیشہ عزت کا مقام دینا حکومت کا فرض ہو تا ہے او ر وسیع تر قومی مفاد کے معاملات کو اپوزیشن کے صلاح مشورے اور ان کو اعتماد میں لے کر چلایا جائے۔اسی سے بہتری ممکن ہو سکتی ہے۔عمران خان کے دور میں پارلیمان اسی لیے ناکام ہو گئی اور بہتر کام نہیں کر سکی کیونکہ عمران خان نے پارلیمان کو وہ عزت نہیں دی جس کے وہ حق دار ہیں۔آخر کار جمہوریت میں اکثریتی جماعت ہی سب کچھ نہیں ہو تی ہے اور نہ ہی پوری قوم کی نمائندہ ہو تی ہے۔اقلیتی جماعتیں بھی عوام کی نمائندہ ہو تی ہیں اور ان کے ذمہ بھی قومی فرائض ہو تے ہیں اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔جمہوری نظام میں یا پھر کسی بھی حکومت کی کمزوریاں ہوا کرتی ہیں اور ان کمزوریوں کو جمہوریت کے اندر حکومت اور پوزیشن مل کر ہی دور کرسکتے ہیں اور خندہ پیشانی سے معاملات کو طے کیا جانا چاہیے۔جیسے کہ پہلے بھی کہا کہ جمہوریت ایک نظام کا نام نہیں ہے بلکہ ایک ما ئنڈ سیٹ کا نام ہے ہمیں اس مائنڈ سیٹ کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔جمہوریت میں اپوزیشن کو ازلی دشمن نہیں سمجھا جاتا ہے اور ساتھ لے کر چلا جاتا ہے۔اپوزیشن کا کام ہو تا ہے کہ وہ حکومت کے پروگراموں اور نقا ئص کے حوالے سے خرابیوں کی نشان دہی کرے اور حکومت کی اصلاح کے لیے بہتر مشورے دے۔یہ اپوزیشن کا بنیادی کام ہو تا ہے اور اگر اپوزیشن یہ کام نہیں کرتی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ وہ اپنا کام درست انداز میں سر انجام نہیں دے رہی ہے۔اس وقت ملک میں ایک افرا تفری کی صورتحال ہے اور حالات کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ ملک میں کتنی افرا تفری ہے۔ ملک کے اقتصادی حالات نہایت ہی خراب ہیں اور عوام مہنگائی سے تباہ حال ہیں ،اس شرح کی مہنگائی پاکستان میں پہلے کبھی نہیں دیکھی گئی ہے جو کہ اس عرصے میں دیکھنے میں آئی ہے۔یہ حالات اس بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ میثاق جمہوریت کے تحت چلا جائے اور ایک کثیر الجماعتی حکومت قائم کی جائے اور سب کے مشورے سے آگے بڑھا جائے۔ملک کے مسائل کو حل کرنے کے لیے کردار ادا کیا جائے۔عوام کو اس وقت اس بات کی ضرورت ہے کہ اس ملک کے مسائل کو حل کیا جائے۔معیشت کو توانا کیا جائے اور گورننس کے معاملات میں بھی بہتری لائی جائے۔پاکستان کے پاس قدرت کی دی ہوئی ہر چیز ہے۔افرادی قوت بھی ہے اور زر خیز زمینیں بھی ہیں اور آئیڈیاز کی بھی کمی نہیں ہے۔اگر کوئی مسئلہ ہے تو وہ یہ ہے کہ ہم صیح جگہ پر صیح بندے سے کام نہیں لے رہے ہیں۔رائٹ مین فار دا رائٹ جاب نہیں ہے جس کی وجہ سے مسائل ہیں۔ہمیں نیک نیتی سے اپنے مفادات کو پس پشت ڈالتے ہوئے ملکی مفاد میں سوچنا ہو گا اور اسی سے بہتری ممکن ہے۔ہمارا بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہم نے اپنی انا?ں کو ملک سے بڑا کر لیا ہے اور اس کی وجہ سے ملک کو کمزور کرتے چلے گئے ہیں۔پاکستان کو آگے بڑھانے کے لیے اپنے اپنے دائروں سے نکالنے کی ضرورت ہے۔سیاسی جماعتیں بھی صیح آدمی صیح جگہ پر نہیں لگاتی ہیں جس سے اپنا بھی نقصان کرواتی ہیں اور ملک کا بھی نقصان ہو تا ہے۔ہمیں اس چکر سے نکلنے کی ضرورت ہے۔سیاسی جماعتوں میں ویسے تو بہت سی خامیاں ہیں لیکن اگر کوئی خامی بڑی خامی ہے تو وہ یہ ہے کہ سیاسی جماعتیں عوام سے رابطے میں نہیں رہتی ہیں۔ہر سیاسی جماعت کو عوام سے روابط مضبوط رکھنے کی ضرورت ہے۔سیاسی جماعتوں کی تحصیل سے لے کر ضلع تک اور ضلع سے صوبائی لیول تک ایک بہترین تنظیم ہونی چاہیے۔اور اس حوالے سے قائد اعظم محمد علی جناح کی مثال ہمارے سامنے موجود ہے قائد اعظم مسلم لیگ کے یونٹ کے صدر سے بھی ممبئی میں بغیر پیشگی وقت لیے ملا قات کر لیتے تھے اور انھوں نے صیح معنوں میں مسلم لیگ کو ایک عوامی اور سیاسی قوت بنایا۔اس وقت صورتحال یہ ہے کہ سیاسی جماعتوں کے یونٹس کے سربراہ تو با اختیار اور طاقت ور ہیں لیکن ورکرز کی بات بالکل سنی نہیں جاتی ہے اور نہ ہی اس بات کو کوئی بھی اہمیت دی جاتی ہے۔اس رویے کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔جب تک سیاسی اختلاف نہیں ہو گا پارٹی ورکرز کو کھل کر بولنے کا موقع نہیں دیا جائے گا تب تک پارٹی منظم نہیں ہو گی اور پارٹی کو بہتر طریقے سے نہیں چلا یا جاسکتا ہے۔پاکستان کا مرض یہی ہے کہ لیڈر جان دار ہے اور پارٹی بے جان ہے اس رویے کو تبدیل کریں گے تو ہی ملک میں بہتری ممکن ہے۔