نوائے وقت کے سنہری اوراق گواہ ہیں کہ ایک عشرے سے زیادہ سے لکھ رہا ہوں کہ مطالعہ پاکستان کے نصاب میں ہمارے سامنے ایک ایسی تاریخ پیش کی گئی ہے جس کا ہم سے بہت کم تعلق ہے۔ قارئین! جب میں نے پہلا کالم اس موضوع پر لکھا تو میرے استاد محترم میر صحافت مجید نظامی (مرحوم) نے مجھ سے مخاطب ہو کر کہا کہ مطلوب وڑائچ آپ نے جو لکھا وہ پاکستان کا مزاج نہیں رہا مگر آپ لکھتے رہو کیونکہ نوائے وقت سبھی مکاتب فکر کا اخبار ہے۔ پھر ایک بار میر صحافت بیگم صاحبہ مرحومہ کے ساتھ عمرے کی ادائیگی کے لیے لاہور ایئرپورٹ سے جا رہے تھے۔ مجھے ایئرپورٹ پر دیکھ کر کہنے لگے بھئی آپ نے تو عربوں کے متعلق جتنا لکھا ہے آپ تو مکہ جانے کا رسک نہ لو پھر قہقہہ لگا ۔ میں نے سب سے پہلے پاکستان کے سلوگن کا استعمال کیا تھا میں نے ہمیشہ نوائے وقت پڑھنے والے قارئین کو بتایا کہ ہمارے ہیرو ملنگی، سلطان، نظام لوہار، دُلابھٹی ہیں اور ان لوگوں نے انگریز سرکارکے سامنے مزاحمت کی اور آزادی ہند کے لیے قربانیاں دیں جس سے گورے سامراج نے ان عوامی ہیروز کے متعلق اپنی مرضی سے تاریخ لکھوائی۔ تقسیم پنجاب ایک سازش کے تحت پنجاب کے لوگوں کا قتل عام اور انہیں نقل مکانی کے لیے مجبور کیا گیا۔ بات عربوں کے رویئے کی ہو رہی تھی میں شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کے خصوصی ایلچی کے طور پر ان کے ساتھ تھا اس لیے مہینے میں کم از کم ایک بار دوبئی کا چکر لگ ہی جاتا۔ ایک دفعہ میرے بچے اور فیملی بھی میرے ساتھ دوبئی پہنچ گئے اور بعدازاں میرے بچوں نے مجھے پوچھا بابا ایک بات آپ نے نوٹ کی ہے؟ میں نے پوچھا کیا تو بچوں نے مجھے بتایا کہ امیگریشن کائونٹر یا چیک پوائنٹ پر جتنے بھی عرب بوڑھے اور نوجوان آفیسر ہیں وہ بہت ہی سپاٹ ہیں تکلفاً بھی نہیں مسکراتے مگر میں بڑا حیران ہوا کہ اس حقیقت کو بچوں نے بھانپ لیا کہ انکے چہرے پر ناگواری بتاتی ہے کہ ہم رفیقوںکو تو یہ بس عجمی ہی سمجھتے ہیں جبکہ قرآن کریم میں واضح ارشاد ہے کہ کسی عربی کو عجمی پر اور عجمی کو عربی کوئی فوقیت نہیں ہے اللہ پاک کے دربار میں سبھی برابر ہیں وہاں ایک چیز فرق کی جا سکتی ہے وہ ہیں آپ کے اپنے اعمال اور تقویٰ۔ قارئین! بچپن اور سکول ٹائم سے ہی ہم جلوس نکالا کرتے تھے القدس کا یوم مناتے تھے اور یہی نعرہ مستانہ لگاتے تھے کہ ’’القدس پھر منتظر ہے پھر ایک صلاح الدین ایوبی کا‘‘ ۔گذشتہ روز متحدہ عرب امارات کے صاحب اقتدار خانوادے نے ہٹلر ثانی نریندرمودی کو زید ایوارڈ سے نوازا ہے جو کہ عرب دنیا کا سب سے بڑا سول ایوارڈ ہے یعنی انڈین گجراتی مسلمانوں کو ہزاروں کی تعداد میں قتل کرنے والے قاتل اور ہزاروں کشمیری مسلمانوں کے قاتل نریندر مودی کو یہ اعلیٰ ترین ایوارڈ دیا گیااور وہ بھی کس موقع پر جب مودی کشمیریوں کو ذبح کررہا اور اس سفاکیت میں تیزی لارہا ہے۔ شاید ایسے ہی کسی موقع کے لیے کسی شاعر نے کہا تھا:
عشق قاتل سے، مقتول سے ہمدردی بھی
بتا کس سے محبت کی جزا مانگے گا
سجدہ خالق کو، ابلیس سے یارانہ بھی
بتا حشر میں کس سے عقیدت کا صلہ مانگے گا
متحدہ عرب کے وزیراعظم شیخ محمد بن المکتوم کی صاحبزادی جو 2018ء میں سات سال کی جدوجہد کے بعد بھارت کے شہر گوا فرار ہونے میں کامیاب ہو گئی۔ ایک فرانسیسی جاسوس(ریٹائرڈ نیوی آفیسر) نے چار لاکھ ڈالر کے عوض بھاگنے میں مدد کی۔ شیخ لطیفہ بنت محمد المکتوم کو بھارت نے گرفتار کرکے یو اے ای کے حوالے کر دیا تھا۔مودی کو ملنے والا یہ اعزاز کیا اسی صلے میں تو نہیں دیا گیا ہے۔ ایسے عرب حکمرانوں کو اس سے کوئی غرض نہیں کہ ان کے اس اقدام کے بعد امہ بالخصوص کشمیر ی بیٹیوں پر کیا بیتے گی؟کچھ بھی ہے موودی کو جس بات کے صلے میں اس تمغہ سے نوازا گیا ہے اس کی کریڈیبلٹی کا آپ خود اندازہ لگا لیں کہ ان کے لیے کشمیر کی بیٹیاں کیا اہمیت رکھتی ہیں۔ تقریباً تمام عربوں نے اس اسرائیل کو تسلیم کر لیا ہے جس کے متعلق ہمارے پاسپورٹ پر کندہ ہے کہ ہم اس ملک کا سفر نہیں کر سکتے۔ کیا اب پاکستان کو اپنی ترجیحات بدلنا ہوں گی۔آج دولت ہی مذہب اور نظریہ بن گئی ہے۔ جب نظر اس نقطے پر ہو کہ دوسرے کی مارکیٹ کتنی بڑی ہے تو مذہب بہت پیچھے رہ جاتا ہے۔ پھر جدید سیاست کی ایک اور اصطلاح ’’دوطرفہ تعلقات‘‘ بھی انصاف کی راہ اختیار کرنے میں بہت بڑی رکاوٹ ہے۔ اگر ہمیں کچھ کرنا ہے تو قوم میں اتحاد پیدا کریں اور اپنے زور بازو پر بھروسہ۔ اگر کسی کو شک ہو تو گزشتہ روز فرانس کے شہر پیرس میں ہونیوالی ٹرمپ مودی ملاقات کی تصویر دیکھ لے۔ دونوں ایک دوسرے کے ہاتھ پر ہاتھ مار کر کہہ رہے ہیں ’’ کہو یار کیسی رہی!‘‘
ایرانی صدر کا دورہ، واشنگٹن کے لیے دو ٹوک پیغام؟
Apr 24, 2024