بالآخر پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی ’’ دعوت افطار‘‘ پر اپوزیشن کی جماعتوں کی اعلیٰ قیادت کا ’’اکٹھ ‘‘ ہو گیا بظاہر اس ’’اکٹھ ‘‘ کو مل بیٹھنے کا ایک بہانہ کہا گیا لیکن بلاول بھٹو زرداری نے ایک ’’خوبصورت موو‘‘ کی اور حکومت کو پریشان کر دیا ۔ وفاقی دار الحکومت اسلام آباد میں ہونے والے ’’سیاسی جماعتوں کے قائدین کے اجتماع‘‘ پر جس طرح حکومت نے شدید رد عمل کا اظہار کیا اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اقتدار کے ایوانوں میں کس قدر کھلبلی مچی ہوئی تھی پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی دعوت افطار پر منعقد ہونے والا اپوزیشن جماعتوں کے قائدین کا اجتماع ملکی سیاست کا ’’نیا رخ‘‘ متعین کر دے گا بظاہر زرداری ہائوس میں منعقد ہونے والا اجتماع غیر سیاسی نوعیت کا تھا لیکن سیاسی جماعتوں کے قائدین کی ’’بیٹھک ‘‘ نے باہم فاصلے کم کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے بلاول بھٹو زرداری کی دعوت افطار میں پاکستان کی اپوزیشن کی تمام قابل ذکر جماعتوں نے شرکت کی مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز کی شرکت سے افطار ڈنر کو غیر معمولی اہمیت حاصل ہو گئی وہ افطار ڈنرمیں تمام سیاسی رہنماؤں کی توجہ کا مرکز بنی رہیں اور پریس کانفرنس میں بھی ان سے سوال کر کے بات کرنے پر مجبور کیا گیا ۔ اگرچہ جماعت اسلامی کے نائب امراء لیاقت بلوچ اور میاں محمد اسلم پر مشتمل وفد نے افطار ڈنر میں شرکت کی تاہم پریس کانفرنس سے قبل جماعت اسلامی کا وفد اٹھ کرچلا گیا ۔
ایسا دکھائی دیتا ہے جماعت اسلامی ’’سولو فلائٹ ‘‘ ہی کرے گی اسے حکومت گرانے سے کوئی دلچسپی نہیں لیاقت بلوچ نے افطار ڈنر میں اپنے خطاب میں واضح کر دیا ہے کہ اپوزیشن جماعتوں میں شامل ہر جماعت کا اپنا اپنا طریقہ کارہے جماعت اسلامی بھی عید الفطر کے بعد اپنے پلیٹ فارم پر مہنگائی ‘ بے روزگاری اور آئی ایم ایف کی غلامی کے خلاف ’’عوامی مارچ‘‘ کا آغاز کریگی۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹوزرداری کی جانب سے دئیے گئے افطار ڈنر میں اسفندیارولی،محمودخان اچکزئی ، سرداراخترمینگل اور سینیٹر سراج الحق نے شرکت نہیں کی جبکہ مسلم لیگ ن ‘ جمعیت علماء اسلام‘ اے این پی،جماعت اسلامی اورپشتون خوا ملی عوامی پارٹی‘ قومی وطن پارٹی اورنیشنل پارٹی کے وفود نے افطار ڈنر میں شرکت کی پشتون خوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی نے بلاول بھٹو زرداری کے افطار ڈنر میں شریک ہونا تھا تاہم ان کی کوئٹہ سے اسلام آباد کی پرواز چھوٹ گئی جس کے بعد محمود خان اچکزئی کی جگہ سینیٹر عثمان کاکڑ نے افطار میں نمائندگی کی عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ اسفندیارولی علالت کے باعث شریک نہ ہوئے،اے این پی کا وفد میاں افتخار علی،ایمل اسفند یار اور زاہد خان پر مشتمل تھا ،اسی طرح امیر جماعت اسلامی سینیٹر سراج الحق نے بھی افطار ڈنر میں شرکت سے معذرت کر لی، بی این پی مینگل کے سربراہ سردار اختر مینگل نے بھی مصروفیات کے باعث شرکت سے معذرت کر لی تاہم انہوں نے اپوزیشن جماعتوں کے آئندہ اجتماع میں شرکت کی یقین دہانی کرائی ہے ۔جمعیت علماء اسلام (ف)کے سربراہ مولانا فضل الرحمنٰ جو اس وقت ’’ فرنٹ فٹ‘‘ کھیل رہے ہیں اپنے جارحانہ طرز عمل میں اپوزیشن کی دیگر جماعتوں کو بہت پیچھے چھوڑ آئے ہیں وہ تو ہر وقت حکومت پر ادھار کھائے رہتے ہیں وہ حکومت کو مزید ایک دن بھی برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں۔ انہوں نے افطار ڈنر میں دھواں دھار تقریر کی اور حکومت مخالف تحریک چلانے پر زور دیا اور کہا کہ ’’حکومت پر دباؤ ڈالنے کیلئے سڑکوں پر آنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں،اب بھی سڑکوں پر نہ آئے تو ہم سب کو پچھتانا پڑے گا، پارلیمنٹ میں حلف نہ اٹھانے کے حوالے سے میرا موقف درست ثابت ہوا ہے ۔عوام کی نظریں ہم پر لگی ہیں ۔انہوں نے سوال کیا کہ’’ کیا آپ لوگ تحریک کے لئے آصف زرداری کی گرفتاری کا انتظار کر رہے ہیں؟ زرداری ہائوس میں ہونے والے افطار ڈنر کے اختتام پر ہونے والی پریس کانفرنس میں جماعت اسلامی کی قیادت کے اٹھ جانے سے اندازہ لگایا جا سکتا کہ جماعت اسلامی ’’سولو فلائٹ ‘‘ کریگی ‘‘ اپوزیشن کی سیاسی جماعتوں کی اعلیٰ قیادت نے عیدالفطر کے بعد آل پارٹیز کانفرنس بلانے کا فیصلہ کیا ہے جس کی میزبانی کے فرائض جمعیت علماء اسلام کے (ف) کے امیر مولانافضل الرحمن کی دعوت پر بلائی گی آل پارٹیز کانفرنس میں اپوزیشن کی جماعتیں حکومت کے خلاف تحریک چلانے کے لیے لائحہ عمل طے کریں گے۔
اپوزیشن کی سیاسی جماعتوں نے عید الفطر کے بعد مہنگائی‘ بیروزگاری‘ روپے کی گرتی ہوئی قدر سے پیدا ہونے والی صورتحال پر اپنا احتجاج کرنے کا فیصلہ بھی کیا۔ اپوزیشن جماعتیں نے باہم مل بیٹھنے پر اتفاق رائے کیا۔ اس بات کا اعلان کرنے کا اعزاز پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کو حاصل ہوا ہے افطار ڈنر میں مسلم لیگ ن کے وفد نے شاہد خاقان عباسی کی قیادت میں شرکت کی۔ جبکہ وفد میں مریم نواز‘ حمزہ شہباز‘ایاز صادق‘ خواجہ آصف‘ پرویز رشید بھی شامل تھے یہ بات قابل ذکر ہے مسلم لیگ (ن) کے چیئرمین راجا محمد ظفر الحق ، بلاول بھٹو زرداری کے ڈنر میں شرکت نہیں اس کی وجہ یہ ہے وہ پیپلز پارٹی کے بہت قریب ہونے کے حق میں نہیں ۔جمعیت علماء اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ کچھ نااہل لوگ برسر اقتدار آگئے ہیں پچھلے چھ سات ماہ کے اندر ملک کی کشتی گہرے سمندر میں ہچکولے کھا رہی ہے۔ اس وقت کشتی کو بچانا قومی فریضہ ہے مشترکہ حکمت عملی بنانے کے لیے آل پارٹیز کانفرنس منعقد کی جائے گی تاریخ کا تعین باہم مشاورتی سے ہوگا۔ ہم میدان میں آئیں گے اور کشتی کو گہرے سمندر سے بچا کر ساحل تک پہنچائیں گے ۔ مسلم لیگ ن کے سینئر نائب صدر شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ اس بات پر تمام سیاسی جماعتیں متفق ہیں کہ موجودہ حکومت ملک کو چلانے میں ناکام ہو چکی ہے ۔ جولائی 2018ء میں ہونے والے متنازعہ الیکشن کا خمیازہ عوام بھگت رہے ہیں نیشنل پارٹی کے سربراہ میر حاصل بزنجو پر عزم دکھائی دئیے انہوں نے کہا کہ عید الفطر کے بعد ہونے والی آل پارٹیز کانفرنس ’’ نشستند گفتند اور برخاستند‘‘ نہیں ہوگی اپوزیشن کا بڑا آلائنس بنے گا ہم حکومت گرانا چاہیں ایک ہفتے میں گر سکتی ہے لیکن یہ حکومت گری ہوئی ہے اسے گرانے کی کوئی ضرورت نہیں ہم آج اسبملیوں سے استعفیٰ دے دیں تو یہ حکومت ختم ہوجائے گی۔
آل پارٹیز کانفرنس میں ایک بیانیہ جاری کیا جائے گا ۔ اس موقع اخبار نویسوں نے مریم نواز سے چبھتا ہوا سوال کر دیا تو انہوں نے بڑے پر اعتماد لہجے میں کہا کہ ’’ میری بلاول بھٹو سے یہ پہلی ملاقات نہیں بلاول بھٹو میری والدہ کلثوم نواز کی تعزیت کے لئے رائے ونڈ آئے تھے۔ ان کا رائے ونڈ آنا اور میرے والد میاں نوازشریف کی جیل میں عیادت کرنا اچھا لگا چارٹر آف ڈیموکریسی کا فائدہ یہ ہے کہ دو جمہوری حکومتوں نے اپنی آئینی مدت پوری کی میاں نوازشریف نے پیپلز پارٹی کی حکومت کو گرانے کی کوشش نہیں کی اور ووٹ کی عزت کو سپورٹ کیا۔ آصف علی زرداری کی صدارت میں میاں نوازشریف اور ان کی کابینہ نے حلف اٹھایا مریم نواز کی اسلام آباد آمد کا مقصد جہاں بلاول بھٹو زرداری کے افطار ڈنر میں شرکت تھا وہاں اگلے روز پارٹی کا اعلیٰ سطح کا اجلاس تھا جس میں اہم فیصلے کئے گئے مسلم لیگ(ن) نے بھی عید الفطر کے بعد مہنگائی اور بے روزگاری کے خلاف رابطہ عوام مہم شروع کر نے کا اعلان کر دیا ہے تاہم حکومت کے خلاف احتجاجی تحریک کا فیصلہ آل پارٹیز کانفرنس پر چھوڑ دیا گیا آل پارٹیز کانفرنس کیلئے ایک کمیٹی بھی بنا دی گئی ہے ،اکنامک ایڈوائزری کونسل کا اجلاس بھی بلایا گیا ہے جو عوام کو ریلیف دینے کے لئے متبادل بجٹ تیار کرے گی شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ شہباز شریف بجٹ سیشن میں موجود ہوں گے قومی اسمبلی کا بجٹ 11جون 2019ء کو پیش کیا جا رہا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ میاں شہبازشریف11جون2019ء کو ہی پاکستان واپس آئیں گے مریم نواز نے وفاقی دارل الحکومت اسلام آباد میں قیام کے دوران حکومت پر سخت الفاظ میں تنقید کی اور کہا ہے کہ’’میں جعلی اور کٹھ پتلی وزیراعظم کو نہیں مانتی کیونکہ یہ اس کرسی کی بھی توہین ہے۔بانگ دہل کہتی ہوں کہ بیانیہ ایک ہی ہے کہ ووٹ کو عزت دو، نواز شریف کا بیانیہ بھی وہی ہے، پوری جماعت کا یہی بیانیہ ہے مسلم لیگ (ن) نے میاں نواز شریف کی رہائی کے ’’یک نکاتی ‘‘ ایجنڈا ‘‘ کواپنی تحریک کا ’’ محور‘‘ قرار دے دیا ہے تحریک کے دوران میاں نواز شریف کی رہائی کے حکومت پر دبائو ڈالا جائے گا۔
مسلم لیگ (ن) آل پارٹیز کانفرنس میں نواز شریف کے بیانیہ کو ’’ اڈاپٹ‘‘ کرنے پر زور دے گی۔ مسلم لیگ (ن) نے میاں نواز شریف کی رہائی کے لئے عید الفطر کے بعد ہر ممکن اقدام اٹھانے کا فیصلہ کیا ہے مہنگائی اور بے روزگاری کے خلاف ملک بھر میں مرحلہ وار احتجاج شروع کیا جائے گا ، 28 مئی 2019ء کو یوم تکبیر پر اسلام آباد میں پہلا جلسہ کیا جائے گا جس سے مریم نواز، حمزہ شہباز اور دیگر رہنما خطاب کریں گے۔مریم نواز ملک بھر میں ہونے والے احتجاجی جلسوں سے خطاب کریں گی۔ مسلم لیگ (ن) کے اجلاس میں بعض مسلم لیگی رہنمائوں نے پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کے افطار ڈنر میں مریم نواز کی شرکت پر اعتراض کیا اور کہا کہ ’’ اس میں شاہد خاقان عباسی کی شرکت ہی کافی تھی لیکن مریم نواز نے کہا کہ بلاول بھٹو زرداری میری والدہ کی وفات پر جاتی امرا آئے بعد ازاں میاں نواز شریف کی عیادت بھی کی لہذا میں نے ان کے ڈنر میں شرکت کی دعوت قبول کرلی میری خاموشی کی ایک ہی وجہ تھی وہ میری والدہ محترمہ کی وفات ۔اس صدمے نے مجھے خاموش رہنے پر مجبور کر دیا حکومت سے کوئی ڈیل کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا میں اور حمزہ ایک ساتھ آپ کے سامنے بیٹھے ہیں ہم میں کوئی تفریق نہیں ہم ایک ہیں آپ ہمیں جہاں بلائیں گے وہاں ہم دونوں موجود ہوں گے ہمار ے درمیان اختلافات کا ٖغلط تاثر دیا جاتا ہے مسلم لیگ(ن) کے اجلاس میں مرکز اور صوبوں کے بعد اب ڈویژنل اوررضلعی سطح پر پارٹی کو منظم کرنے کا فیصلہ کیا گیا‘ مسلم لیگ(ن) کے اجلاس میں ایجی ٹیشن کو حکومت پر دبائو برقرار رکھنے کی حد جاری رکھنے کا فیصلہ کیا گیا اجلاس میں کہا گیا کہ حکومت گرانے کی تحریک اس وقت تک شروع نہ کی جائے جب تک اس کی کامیابی کا سو فیصد یقین نہ ہو حکومت گرانے کی تحریک کی ناکامی کی صورت میں حکومت مضبوط ہو سکتی ہے ۔
ایرانی صدر کا دورہ، واشنگٹن کے لیے دو ٹوک پیغام؟
Apr 24, 2024