دریائے سندھ پر موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کا جائزہ
پاکستان میں مختلف دریا بالخصوص دریائے سندھ کو آلودہ پانی، فیکٹریوں کے کیمیکل ، تعمیرات اور کچرے سے لاحق خطرات کا جائزہ لینے کیلئے ایکسپیڈیشن انڈس کی ٹیم دریائے کابل اور دریائے سندھ اٹک پہنچ گئی ، ملکی تاریخ میں پہلی بار دریائے سندھ کی رافٹنگ ایکسپلوریشن کی جا رہی ہے۔ فرزند اٹک ، فخر چھچھ ، وزیر اعظم کے سابق معاون خصوصی برائے ماحولیات ملک امین اسلم نے ضلع اٹک میںاپنے ساتھیوں ملک اعجاز ، رانا لیاقت علی، اشفاق خان او ر نوائے وقت کے ہمراہ ایکسپیڈیشن انڈس ٹیم کو دریائے کابل ( جہانگیرہ) میں ویلکم کیا انہوں نے افتتاح کے موقع پر بطور معاون خصوصی برائے موسمیاتی تبدیلی اپنے خطاب میں وعدہ کیا تھا، ملک امین اسلم پاکستان کی وہ اہم شخصیت ہیں جو ماحولیات کے حوالہ سے ہمیشہ اہم پوزیشن میں ہوتے ہیں، اس وقت اقوام متحدہ کے ادارے UNEP میں گلوبل وائس پریذیڈنٹ کے فرائض انجام دے رہے ہیں اس طرح ان کی صلاحتیوں اور تجربے سے پاکستان کو خاطر خواہ فائدہ ہو رہا ہے ۔ "انڈس ایگزیبیشن" نا صرف قدرتی ماحول کے تحفظ کے حوالے سے بلکہ دریائی راستے میں پائیدار سیاحتی مقامات کی نشاندہی کے حوالے سے بھی ایک تاریخی مہم ثابت ہوگی۔ اس سے کشتی رانی کو بھی فروغ ملے گا، ایکسپیڈیشن انڈس کی ٹیم کو پاکستان نیوی اور فائیو سٹار ہوٹل بھر پور مدد فراہم کررہا ہے، فوج کے جوان کسی بھی حالات سے نمٹنے کیلئے چوکس رہتے ہیں ، دریائوں کا جائزہ لینے والی سات رکنی ٹیم 45 دن کا ٹارگٹ لئے سڑکوں اور دریائوں پر ہے ، اس ٹیم کا تجربہ ناصرف زندگی بھر کی مہم جوئی ثابت کرے گا، بلکہ یہ پورے دریا کی تازہ ترین فوٹیج بھی فراہم کرے گا۔ رافٹنگ ایکسپلوریشن سے بڑے پیمانے پر تعمیرات سے دریا کو لاحق خطرات جیسے مسائل بھی اجاگر ہوں گے۔ پاکستان میں مختلف دریا بے تحاشا آبادی اور تعمیرات وغیرہ سے آلودہ ہو ر ہے ہیں جس سے دریا ئوں اور پانی کی زندگی کو خطرات لاحق ہیں، اس تناظر میں ملک امین اسلم نے سخت تحفظات کا اظہار کیا ہے ،انہوں نے نوائے وقت سے خصوصی انٹرویو میں کہا کہا کہ رافٹنگ ایکسپوریشن کے ذریعے گلیشئر سے مینگروو تک بہنے والے دریائے سندھ پر موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کا جائزہ لینا بھی شامل ہے ۔دریائے سندھ پاکستان کی لائف لائن یا شہہ رگ کی حیثیت رکھتا ہے ، ملک امین اسلم نے ٹیم کے ہمراہ خود بھی رافٹنگ کیلئے کشتی
میں موجود رہے۔ دریا ئی جائزہ کے بعد بروٹھہ کے مقام پر ملک امین اسلم نے بتایا کہ جہانگیرہ سے لیکربروٹھہ تک دریائے کابل میں ماربل فیکٹریوں کا کیمیکل ،گند اور کچرے کی وجہ سے آلودگی دیکھی گئی ، یہی دریا اٹک خورد کے مقام پر دریائے سندھ میں جا ملتا ہے اور انڈس میں بھی پہلے سے آلودگی موجود ہے ، انہوں نے بتایا کہ دریا کی زندگی ختم ہوئی تو ہماری زندگی نہیں بچ سکے گی۔ انہوں نے کہا کہ غازی بروٹھا نہر کی وجہ سے دریائے سندھ کا پانی بہت کم ہو گیا ہے جو کہ ایک بڑا مسئلہ ہے ، ایک سوال پر ان کا کہنا تھا کہ ایکسپڈیشن انڈس کی بنیاد پر ایک بہت بڑا منصوبہ Living River Indus کے نام سے بنایا جا رہا ہے جس کیلئے ایک بڑا بجٹ بنایا جا رہا ہے جس میں دریا کی اکالوجی کو کیسے زندہ رکھنا ہے۔ اگر دریا زندہ نہیں رہے گا تو سولائزیشن نہیں رہے گی ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ دریا کے آس پاس آباد باسیوں کو شعور دیا جائے کہ اپنے دریائوں خاص طور پر دریائے سندھ کی حفاظت کریں ۔ٹیم لیڈر وجاہت ملک نے اٹک میں ساتھ دینے پر سابق وفاقی وزیر کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ ان کا شروع دن سے ہماری معاونت کرنا باعث تقویت ہے۔ انڈس ایکسپیڈیشن کا آغاز لائن آف کنٹرول سے تقریباً دس کلومیٹر دور واقع حمزی گون سے کیا گیا جو دریا کو رافٹ کرتے ہوئے کراچی پہنچے گی۔ لداخ کی طرف سے پاکستان میں داخل ہونے والادریا پرانے وقتوں سے بہتا ہوا کراچی تک جاتا ہے۔ انڈس ایکسپیڈیشن ٹیم دریا کے آس پاس کے لوگوں کی ثقافت اور تاریخی پہلوئوں کو بھی فلمبند کرے گی کیونکہ بڑی بڑی تہذیبیں یہاں پر پنپی ہیں اور پھر یہیں دریا کے کنارے ختم بھی ہوئی ہیں۔پاکستان میں پہلی دفعہ انڈس کو پورا رافٹ کیا جائے گا جس کی عکسبندی قومی اور بین الاقوامی سطح پر اجاگر کی جائے گی تو پاکستان کو بہت زیادہ اہمیت دی جائے گی یوں ایک نئی زندگی کا آغاز ہوگااور اس سارے عمل میں پاکستان کے قابل فخر بیٹے ملک امین اسلم کا کردار صدیوں یاد رکھا جائے گا۔