بگڑے ہوئے '' بے حمیت لوگ''

ٹی ٹاک 
طلعت عباس خان ایڈووکیٹ سپریم کورٹ 
takhan_column@hotmail.com 
کیا کریں ؟ یہاں لوگوں کی خوبی یہ بھی ہے کہ چوری کے مرغ کو بھی تکبیر پڑھ کر حلال کرتے ہیں۔ بزرگ کہا کرتے تھے حرام کا پیٹ بھر نے سے بہتر ہے حلال کا ایک نوالہ کھا لیا جائے''۔ جس کو حرام کھانے کی عادت پڑجائے وہ پھر ساری عمر وہی کھاتا ہے۔ مگر یہ درست ہے حرام کی کمائی گھر سے برکت اور سکون ختم کر دیتی ہے۔ بظاہر حرام کھانے والے کو اس کا احساس نہیں ہوتا کہ وہ گناہوں کی دلدل میں دھنسے جا رہا ہے اس میں سے نیکیوں کا خاتمہ اور برائیاں جنم لینے لگتیں ہیں،اس میں اچھے برے کی تمیز ختم ہو جاتی ہے۔ تعلیم یافتہ بھی ان پڑھ لوگوں کی طرح گردن میں سریا، زبان پر گالیاں آنکھوں میں بے حیائی لے آتے ہیں ۔ اس کے اندر کا انسان اور ضمیر مر جاتاہے۔ والدین کی عزت اور خونیں رشتوں کا خیال رکھنا بھول جاتا ہے۔حلال وحرام کے رشتوں میں تمیز ختم کر دیتا ہے۔ آج ہم آپ کو ایک ایسے ہی کردار کے حامل بندے کی سچی کہانی ہے ۔ سبق آموز ہے ۔ اس کہانی سے سبق لینا ضروری ہے ۔ 
یہ شخص شادی کے وقت کسٹم میں بھرتی ہوا تھا مگر خواہش پولیس سروس میں جانے کی تھی۔ شادی اچھے خاصے شریف خاندان میں ہو گئی۔ اپنی سیاسی وابستگی کی بنا کر کسٹم سے پولیس گروپ میں جانے میں کامیاب ہوا ۔اس کے بعد وہ پولیس گروپ میں سینیارٹی کا دعوے دار بن گیا۔ اب یہ چاہتا تھا کہ سسر اس معاملہ میں اپنا اثر و رسوخ استعمال کریں اور مجھے سینیارٹی دلائیں ۔ وہ اس سلسلے میں بیگم پر مختلف طریقوں سے دباو¿ ڈالتا رہا۔ زندگی کا پہیہ چلتا رہا۔اب اس کے تین بچے ہیں۔ جب دیکھا کہ بیوی کو حرام کھانا پسند نہیں اور حرام کھانے سے مجھے منع کرتی ہے تو اس نے بیوی کو ٹاچر دینا اور اس پر تشدد کرنا شروع کر دیا۔ بیوی نے پھر بھی اسے حرام کھانے لانے سے منع کرتی رہی۔اس نے بیوی کو بلیک میل کرنا شروع کر دیا۔ پھر بھی وہ نہ مانی تو اس نے بیوی جو تین بچوں کی ماں بھی ہے اسکی پراﺅیٹ تصویریں بنا کر میڈیا پر اپ لوڈ کر دیں ۔ بیوی نے اس کے خلاف ایف آئی اے میں سائبر کرائم کا پرچہ درج کرایا، اس میں یہ گرفتار ہوا پھر اس کے خلاف محکمانہ انکواری ہوئی اور مسکنڈکٹ پر ملازمت سے ڈسمس ہوگیا مگر اس کو بیوی کی تصویریں میڈیا پر اپ لوڈ کرنے پر پھر بھی شرم نہ آئی ۔یہ بھی نہ سوچا بیوی میرے بچوں کی ماں بھی ہے۔ بچوں کی جنت بھی ہے ایسا نہ کروں مگر باز نہ آیا ۔یہ بھی نہ سوچا لوگ کیا کہیں گے۔ بچے کیا سوچیں گے۔ لگتا یہی ہے حرام کی کمائی نے اس کے اندر کا انسان ختم کر دیا تھا اس میں رشتوں کی تمیز نہ رہی۔ اس کی ان حرکتوں کی وجہ سے بیوی کو مجبوراً خلع لینا پڑی اور اپنے والدین کے گھر میں بچوں کے ساتھ شفٹ ہو گئی مگر کیا مجال کے اس نے تین بچوں اور بیوی کا نان و نفقہ اس دوران کبھی دیا ہو۔ بچوں کی ماں چونکہ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہے بچوں کی تعلیم اور گھریلو اخراجات کے لئے اس نے یونیورسٹی میں پڑھانا شروع کردیا تھا کہ اس نے اسے مزید پریشان اور ہراساں کرنے کے لئے وہاں کی انتظامیہ پر دباو¿ ڈالا جس سے اس کی ملازمت جاتی رہی۔ جس پر حراسگی کے قانون کے تحت اسکو ملازمت سے برخاستگی اور جرمانہ ہوا۔ اسکی مجرمانہ زہنیت کی انتہا ہے کہ اپنی پولیس کی ملازمت کا استعمال کرتے ہوئے اس نے اپنی اہلیہ کے پورے خاندان بمعہ اپنے سسر جن کا تعلق اعلیٰ عدلیہ سے ہے ان پر جھوٹا پرچہ کروادیا۔ چونکہ یہ سب جھوٹ پر مبنی تھا لہذا وہ پرچہ خارج ہو گیا۔ کہا جاتا ہے اس نے اپنی ایک اور گھٹیا حرکت کرتے ہوئے ایک جھوٹا کیس ان کے خلاف آزاد کشمیر میں بنوایا ۔ کورٹ کے آڈر کی انکوائری پر جعلسازی ثابت ہونے پر اب اس کے خلاف ایف آئی آر وہاں بھی کٹ چکی ہے۔ اب یہ اس کیس میں مفرور یعنی پرو کلیم افنڈر ہے ۔ کہا جاتا ہے اس شخص کی کمینگی کی حد ہے کہ اپنی انا کی تسکین کی خاطر اس نے تین بچوں کو فیملی کورٹ کے حکم کے باوجود گزشتہ سات سالوں میں ایک پیسہ نہیں دیا جب کہ میڈیا پر جھوٹی خبریں چلانے پر پیسہ پانی کی طرح بہا رہا ہے اور سابقہ بیوی کے والدین بچوں کی کفالت کر رہے ہیں۔کہا جاتا ہے اور یہ اب بھی ان پر جھوٹے اور لغو الزامات لگا کر بلیک میلنگ کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہےاس کوشش میں عدلیہ کے معزز جج صا حبان کو بھی زیر اثر کرنے اور سکنڈلائیز کرنے میں شرم محسوس نہ کی ۔حال ہی میں اس نے ایک میڈیا پرسن سے ملکر ایک وی لاگ یو ٹیوب پر اپنے کیس کی سماعت سے ایک دن پہلے چلوا کر اپنا کیس مضبوط کرنے اور ملزم کو مظلوم بنانے کی کوشش کی۔ کاش یہ وی لاگر بنانے والے صحافی بھائی دوسری طرف سے بھی معلومات حاصل کر لیتے اور یک طرفہ پروگرام نہ چلاتے تو اچھا ہوتا۔ مگر پروگرام بنایا چلایا پھر ملزم کے ساتھ کورٹ میں بیٹھ کر مقدمے کی کاروائی بھی سنی ۔اس کے بعد امید تھی کہ ملزم کے غلط الزامات ثابت ہونے پر ایک اور پروگرام ملزم جنید ارشد کے ساتھ پھر سے اسے شرمندہ کرنے کےلیے کریں گے اور اس ملزم کو اپنے پروگرام میں غلط بیانی بے بنیاد الزامات لگانے پر اسے کھری کھری سنائیں گے مگر ابھی تک ایسا نہیں کیا ۔ یاد رہے پروگرام میں ملزم کے کہنے پر ملزم کے ایکس سسر اور سپریم کورٹ کے جج کے بارے میں جو الزام تراشی کی جو کچھ اس وڈیو میں کہا گیا وہ اگر باتیں درست ہوتی تو اسے ریلیف کبھی بھی نہ ملتا۔ مگر جس سپریم کورٹ کے جج اور ایکس سسر کے متعلق غلط الزامات اور باتیں کی اس کے جواب میں ایک پروگرام اپ کا ملزم جنید ارشد کے ساتھ کرنا بنتا تھا اس سے پوچھتے کہ جو تم نے اپنے الزمات خدشات میرے پروگرام میں دوسروں پر لگا? تھے وہ تو غلط ثابت ہوچکے۔اب ان سب سے معافی مانگو۔آپ دونوں نے عدالت میں بیٹھ کر کیس سنا اسے اسی جج سے ریلف بھی ملا اس کے بعد تو ان سب سے ملزم جنید ارشد کے معذرت بھرے دو بول تو بلواتے تو اچھا ہوتا اب بھی اگر آپ کو ملزم جنید ارشد اجازت دیتا ہے یا نہیں بھی دیتا تو اس پر معذرت کا پروگرام خود ہی کرلیں تاکہ لگائے گئے غلط الزامات کا مداوا تو دوسری پارٹی کو ہو سکے۔ اسے یاد دلائیں اگر تیرے ایکس سسر مقدمہ میں اپنی پوزیشن سے تیرے کیس کی مداخلت کر رہے ہوتے تو اتنی طوالت سے کیس اس روز نہ سنا جاتا۔ پھر اس کے اپنے کیس کا ریکارڈ گواہ ہے کہ ملزم نے کس طرح حیلے بہانوں سے کیس کو خود لٹکائے رکھا۔ یہ ساری کہانی گمراہی اور حرام خوری کے گرد گھومتی ہے۔ کاش ہم اس سے سبق لیں۔ فارسی حکایت میں ہے کہ یہ ضروری نہیں کہ کسی کی ناجائز بات یا عادت کو برداشت کیا جائے یہی کافی ہے کہ کسی کے بارے میں بن جانے کوئی را? قائم نہ کریں۔ یہ ضروری نہیں کہ ہم دوسروں کی اصلاح کریں۔ یہ کافی ہے کہ ہماری نگاہ اپنے عیوب پر ہو ۔ یہ بھی ضروری نہیں کہ ہم ایک دوسرے سے محبت کریں اتنا ہی کافی ہے کہ ایک دوسرے کے دشمن نہ بنے ۔فرمایا دوسروں کے ساتھ امن کے ساتھ جینا کمال ہے۔ کمال یہ بھی ہے کہ دوسروں کے درمیان رہو اور کسی کو تمہاری زبان سے تکلیف نہ ہو۔ کمال یہ ہے کہ جھوٹ نہ بولو۔ کسی کا تمسخر نہ اڑاو¿ کسی پر الزامات نہ لگاو¿۔ 
ہم بات کریں دلیلوں سےتو رد ہوتی ہے 
ظلم سہنے سے بھی ظالم کی مدد ہوتی ہے

ای پیپر دی نیشن