اسلام آباد کے ایک مہنگے فارم ہاﺅس میں ہائی پروفائل قتل ہوا۔ ایک دولتمند امیرزادے نے اپنی کینیڈین شہریت والی بیوی کو جو اقوام متحدہ کے کسی ادارے میں آفیسر بھی تھیں‘ شدید تشدد کرنے کے بعد سر کچل کر ہلاک کردیا۔ملزم ایک دولت مند‘ ایلیٹ کلاس سے تعلق رکھنے والے ٹی وی ٹاکر کا بیٹا ہے اور خود بھی ایک سیاسی جماعت کا بااثر رکن بھی ہے۔ عصررواں کے قائد انقلاب کے ساتھ قاتل کی ایک تصویر بھی سامنے آئی ہے۔ حقیقی آزادی کے سلسلے میں ہونے والے جلسہ¿ عام میں امام انقلاب کے ساتھ والی کرسی پر‘ ہاروں سے لدا تن کے بیٹھا ہے۔
قتل ہائی پروفائل ہے۔ اس لئے میڈیا پر اس کا چرچا ہے۔ قابل ذکر بات قتل سے زیادہ یہ ہے کہ ملزم نے پہلے بتایا اسے اپنی بیوی کے کردار پر شک تھا۔ اس لئے مار ڈالا۔ یعنی عورت پر شک ہو تو اسے مار ڈالو۔ اور اگر عورت کو شک ہو تو وہ کیا کرے‘ اور معاملہ کچھ یوں ہے کہ ریاست اور سماج کی ہمدردی ایسے کیس میں مقتولہ نہیں‘ قاتل کے ساتھ ہوا کرتی ہے۔ بعدازاں ملزم نے وجہ قتل بدل ڈالی اور کہا کہ مجھے شک تھا کہ میری بیوی غیرملکی ایجنٹ ہے اور اس کے ایما پر مجھے قتل کرنا چاہتی ہے۔ ایسا ہے تو یقینا ملزم کے پاس اس ”سائفر“ کی کاپی ہوگی جو غیرملکی طاقت نے بھیجا ہوگا اور جس میں مقتولہ کو اپنے خاوند کے خلاف غداری کی ہدایت کی گئی ہوگی۔
ملزم اور اس کا خاندان بااثر ہے۔ بے حد و حساب دولت کا مالک ہے۔ انقلاب مآب پارٹی کا پرجوش حصہ بھی ہے۔ غالب امکان ہے سزا نہیں ہوگی۔ میڈیا پر کچھ دن رونق البتہ اس ہائی پروفائل قتل سے لگی رہے گی۔ ظاہر ہے یہ قتل ان بے شمار وارداتوں جیسا نہیں جو ہر روز ملک میں ہوتی ہیں اور جن میں عورتیں شک کی بنا پر یا شک کے بغیر ہی قتل کر دی جاتی ہیں۔ ان کی چند سطر کی خبر اخبار کے کم از کم حصے میں ایک بار چھپتی ہے۔ پھر اس کا کوئی فالواپ بھی نہیں آتا۔ نہ کوئی تعزیت کیلئے جاتا ہے‘ نہ کوئی انصاف کے تقاضے پورے کرنے کا جھوٹا یقین دلانے کیلئے۔ ایسی ہی بہت سی خبروں میں سے ایک یہ ہے جو 15 ستمبر کے اخبار میں شائع ہوئی۔ وجہ قتل ملاحظہ فرمایئے۔
سکھر کے محلے قریشی گوٹھ میں ایک شخص نسیم شیخ نے اپنی بیوی کو محض اس لئے مار ڈالا کہ وہ گھر کے خرچے کیلئے اس سے 50 روپے (پچاس روپے) چاہتی تھی۔ 50 روپے میں تو محض سادہ پانی کی ایک بوتل آتی ہے۔ کسی ”انویسٹی گیٹو جرنلسٹ“ کو ضرور یہ معلوم کرنا چاہئے کہ ایسی کئی عورتیں ہیں جو 50 روپے کے نوٹ کو ترستی ہیں۔ بہت ساری ایسی عورتوں کا نام‘ پتہ اور کوائف مل جائیں تو اکٹھے ہوکر یہ بھی ایک ہائی پروفائل خبر بن سکتی ہے۔
................
پختونخوا کی ایک سرکاری رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پشاور میں قتل کی وارداتوں میں بہت اضافہ ہو گیا ہے۔ سال گزشتہ اس شہر میں 379 افراد کو قتل کیا گیا۔ 571 افراد کو قتل کرنے کی کوشش کی گئی۔ وہ زخمی تو ہوئے‘ لیکن جان کے جانے سے بچ نکلے۔ یہ رپورٹ سی سی پی او پشاور نے پریس کانفرنس میں جاری کی۔
قتل کے واقعات کی گنتی لاہور میں سالانہ ہونے والے قتل کے واقعات سے زیادہ ہے جبکہ لاہور پشاور کے مقابلے میں سات گنا زیادہ بڑا شہر ہے۔ 2022ءمیں پشاور کی آبادی 23 لاکھ اورلاہور کی ایک کروڑ 35 لاکھ تھی۔ لاہور میں سالانہ ساڑھے تین سو سے چار سو افراد تک قتل ہوتے ہیں۔ پشاور سے نسبت تناسب برابر کرنا ہو تو لاہور میں21 سو قتل ہوتے۔ دوسرے لفظوں میں پشاور کی آبادی لاہور جتنی ہوتی تو لاہور کے چار سو قتل کے مقابلے میں یہاں دو ہزار سے زیادہ افراد مار دیئے جاتے۔
پشاور ہی نہیں‘ پورا صوبہ پختونخوا ملک بھر کے جرائم میں آدھے سے زیادہ کا ”دعویدار“ ہے۔ پہلے ایسا نہیں تھا۔ تبدیلی کے نو برسوں نے صوبے کی کایا ہی کلپ کر دی ہے۔ اغوا برائے تاوان کے واقعات میں کراچی اب اس صوبے کے مقابلے میں ایک حقیر بونا بن کر رہ گیا ہے۔
میڈیا میں بہت سی باتوں کی داد قابل داد حضرات کو دی جاتی ہے۔ پختونخوا میں اس عظیم الشان تبدیلی کی داد کسے دی جائے گی۔ اور کب؟
................
اگست کے شروع میں ایک ملاقات ایوان صدر میں ہوئی۔ صدر ایک چیف صاحب اور ایک عمران خان صاحب۔ یہ تین تھے۔ اس کا ذکر جا بجا اور اس کالم میں بھی ہو چکا ہے۔ یہ وہی ملاقات تھی جس کا انجام چیف کی طرف سے معذرت یا انکار کی صورت میں ہوا تھا۔
بعدازاں ایک منظم منصوبے کے تحت دو باتیں پھیلائی گئیں۔ ایک یہ کہ ملاقات کیلئے ادارہ بے چین تھا اور ادارے کی سر توڑ منت و زاری کے بعد خان صاحب ملاقات کیلئے آمادہ ہوئے اور شرف ملاقات بخشنے کے لیے ایوان صدر جا پہنچے۔ دوسری بات یہ کہ ملاقات میں معافی تلافی کی باتیں ہوئیں جس کے بعد ڈیل طے پا گئی۔ یہ کہ نئے الیکشن کراکے خاں صاحب کو دوتہائی اکثریت دیدی جائے گی۔
کچھ حقیت دونوں باتوں کی تو پہلے ہی کھل گئی تھی۔ اب ایک سینئر اینکر پرسن اور کالم نویس نے پوری حقیقت کھول دی ہے۔ سر توڑ کوششیں ادارے نہیں‘عمران خان کی طرف سے ہوئی تھیں۔ کئی ہفتے تک منت و زاری سے کام لیا جاتا رہا۔ بات نہ بنی تو امریکی سفارتکار زلمے خلیل زاد کو جو ”نیوکون“ ہونے کی وجہ سے خان کے زبردست حامی ہیں۔ بیچ میں لایا گیا۔ انہوں نے بھی پورا زور لگایا‘ عارف علوی کہ مملکت کے صدر ہیں‘ بھی منت زلمے میں شریک ہو گئے۔ آخر بہت تامل کے بعد چیف صاحب مان گئے ہیں۔ ملاقات سے حاصل وصول کچھ نہ ہوا۔ انہوں نے بتا دیا کہ الیکشن کرانا حکومت کا کام ہے۔ ہم کچھ نہیں کر سکتے۔
پردہ رکھنے کا حکم ہے‘ لیکن معزز صحافی نے پردہ نہیں رکھا۔ اس طرح سے پگڑ ی اتار کے رکھ دینا ذرا بھی اچھا نہیں صاحب‘ بادی النظر میں آپ ”شرک“ کے مرتکب ہوئے ہیں۔
................
پی ٹی آئی کے رہنما حامد خان نے اپنی ہی جماعت کے فواد چودھری کو نشانے پر رکھ لیا اور فرمایا کہ فواد چودھری ایجنسیوں کے ٹاﺅٹ ہیں اور عمران خان کو نااہل کرانا چاہتے ہیں۔
تنہا فواد پر یہ اعتراض کیوں؟ باوثوق ذرائع کے مطابق پارٹی میں فواد کے ہمزاد بہت ہیں۔ کبھی ان کا بھی ذکر فرما دیجئے۔
................
بھارت کی مسلم دشمن جماعت آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت نے دہلی کی ایک مشہور مسجد اور مدرسے کا دورہ کیا اور پانچ بڑے مسلم رہنماﺅں سے سوا گھنٹے ملاقات کی۔ آر ایس ایس کے صدر نے مسلمانوں کے خدشات اور تحفظات پر بات کی۔
ایسا کیسے ہو گیا؟ آر ایس ایس کا وجود مسلم دشمنی پر استوار ہے۔ وزیراعظم نریندر مودی اور یوپی کا وزیر یوگی دونوں دراصل اسی جماعت کے کارندے ہیں۔
مختصر قصہ یہ ہے کہ مسلمانوں پر ہر روز ہونے والے ظلم اور جور نے جہاں دنیا میں بھارت کی بدنامی کی ہے‘ وہاں خود بھارت کے اکثریتی ہندو طبقے میں بھی بی جے پی سے بیزاری کی لہر چلی ہے۔ کانگریس کے رہنما راہول گاندھی ان دنوں بھارت جوڑو یاترا پر ہیں۔ وہ پیدل چل رہے ہیں۔ کسی بھی ہٹوبچو پروٹوکول کے بغیر اور ہر شہر‘ ہر قریئے میں ہزار ہا افراد ان کا استقبال کرتے اور ساتھ چلتے ہیں۔ یہ یاترا ہندو مسلم خلیج کو دور کرنے اور بی جے پی کی مسلم دشمنی سے بے زاری ظاہر کرنے کیلئے تھی۔ اب بی جے پی کچھ نام نہاد اقدامات کرکے اپنی پریشانی دور کرنا چاہتی ہے ورنہ بھاگوت اور مسجد کی ”یاترا“ ؟
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024