غوث الاعظم۔سیدعبدالقادر جیلانی
گذشتہ سے پیوستہ
‘‘ خلیفہ نے کہا: ’’آپ کس کے حکم سے محتسب مقررکئے گئے ہیں؟‘‘ حضرت سیدموسیٰ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے رعب دارلہجہ میںجواب دیا:’’جس کے حکم سے تم حکومت کررہے ہو۔‘‘ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے اس ارشادپرخلیفہ پرایسی رقت طاری ہوئی کہ سربزانو ہو گیا (یعنی گھٹنوںپرسررکھ کر بیٹھ گیا) اور تھوڑی دیرکے بعد سر کو اٹھا کر عرض کیا: ’’حضوروالا! امربالمعروفاورنہی عن المنکرکے علاوہ مٹکوں کو توڑنے میںکیا حکمت ہے؟‘‘ حضرت سیدموسیٰ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے ارشادفرمایا: ’’تمہارے حال پرشفقت کرتے ہوئے نیز تجھ کو دنیا اور آخرت کی رسوائی اورذلت سے بچانے کی خاطر۔‘‘ خلیفہ پرآپ کی اس حکمت بھری گفتگو کا بہت اثرہوا اور متاثر ہو کر آپ کی خدمت اقدس میں عرض گزار ہوا: ’’عالیجاہ! آپ میری طرف سے بھی محتسب کے عہدہ پر مامور ہیں ۔ ‘‘حضرت سیدموسیٰ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اپنے متوکلانہ اندازمیں فرمایا: ’’جب میں حق تعالیٰ کی طرف سے مامورہوں توپھرمجھے خلق کی طرف سے مامورہونے کی کیا حاجت ہے۔‘‘ اُسی دن سے آپ’’جنگی دوست‘‘کے لقب سے مشہورہوگئے۔ محبوبِ سبحانی شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے والد ماجد حضرت ابو صالح سید موسیٰ جنگی دوست رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے حضور غوث اعظم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی ولادت کی رات مشاہدہ فرمایا کہ سرور کائنات، فخر موجودات، منبع کمالات، باعث تخلیق کائنات، احمد مجتبیٰ، محمد مصطفیٰ صلی للہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم بمع صحابہ کرام آئمۃالہدیٰ اور اولیاء عظام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعینان کے گھر جلوہ افروز ہیں اوران الفاظ مبارکہ سے ان کو خطاب فرماکر بشارت سے نوازا: ’’اے ابو صالح! اللہ عزوجل نے تم کو ایسا فرزند عطا فرمایا ہے جو ولی ہے اوروہ میرا اور اللہ عزوجل کا محبوب ہے اور اسکی اولیاء اور اَقطاب میں ویسی شان ہو گی جیسی انبیاء اور مرسلین علیہم السلام میں میری شان ہے۔‘
آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی والدہ ماجدہ حضرت سیدتنا ام الخیر فاطمہ بنت عبداللہ صومعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہما فرمایا کرتی تھیں: ’’جب میں نے اپنے صاحبزادے عبدالقادر کو جنا تو وہ رمضان المبارک میںدن کے وقت میرا دودھ نہیں پیتا تھا، اگلے سال رمضان کا چاند غبار کی وجہ سے نظر نہ آیا تو لوگ میرے پاس دریافت کرنے کیلئے آئے تو میں نے کہا کہ ’’میرے بچے نے دودھ نہیں پیا۔‘‘ پھر معلوم ہوا کہ آج رمضان کا دن ہے اور ہمارے شہر میں یہ بات مشہور ہوگئی کہ سیّدوں میں ایک بچہ پیدا ہوا ہے جو رمضان المبارک میں دن کے وقت دودھ نہیں پیتا۔‘‘
حضرت شیخ ابومحمدعبداللہ بن احمد بن قدامہ مقدسی فرماتے ہیں کہ ہمارے امام شیخ الاسلام محی الدین سید عبدالقادر جیلانی، قطب ربانی، غوث صمدانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ضعیف البدن، میانہ قد، فراخ سینہ، چوڑی داڑھی اور دراز گردن، رنگ گندمی، ملے ہوئے اَبرو، سیاہ آنکھیں، بلند آواز،اوروافر علم و فضل تھے۔ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ بچپن ہی میںراہِ خدا کے مسافربن گئے:۔ شیخ محمدبن قائدا لأوانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ بیان کرتے ہیں کہ’ ’حضرت محبوب سبحانی غوث اعظم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے ہم سے فرمایا کہ ’’حج کے دن بچپن میں مجھے ایک مرتبہ جنگل کی طرف جانے کا اتفاق ہوا اور میںایک بیل کے پیچھے پیچھے چل رہا تھا کہ اس بیل نے میری طرف دیکھ کر کہا: ’’اے عبدالقادررحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ! تم کو اس قسم کے کاموں کیلئے تو پیدا نہیں کیا گیا۔‘‘ میں گھبرا کر گھر لوٹا اور اپنے گھر کی چھت پر چڑھ گیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ میدان عرفات میں لوگ کھڑے ہیں، اسکے بعد میں نے اپنی والدہ ماجدہ کی خدمت اقدس میں حاضر ہو کر عرض کیا: ’’آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ مجھے راہ ِخداعزوجل میں وقف فرما دیں اور مجھے بغداد جانے کی اجازت مرحمت فرمائیںتا کہ میں وہاں جاکر علم دین حاصل کروں۔‘‘ والدہ ماجدہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہانے مجھ سے اس کا سبب دریافت کیا میں نے بیل والا واقعہ عرض کردیا تو آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہاکی آنکھوں میں آنسو آگئے اور وہ ۸۰ دینار جو میرے والد ماجد کی وراثت تھے، میرے پاس لے آئیں تو میں نے ان میں سے۴۰دینار لے لئے اور ۴۰ دینار اپنے بھائی سید ابو احمدرحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کیلئے چھوڑ دیئے، والدہ ماجدہ نے میرے چالیس دینار میری گدڑی میں سی دیئے اور مجھے بغداد جانے کی اجازت عنایت فرما دی۔ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہانے مجھے ہر حال میں راست گوئی اور سچائی کو اپنانے کی تاکید فرمائی اور جیلان کے باہر تک مجھے الوداع کہنے کیلئے تشریف لائیں اور فرمایا: ’’اے میرے پیارے بیٹے! میں تجھے اللہ عزوجل کی رضا اور خوشنودی کی خاطر اپنے پاس سے جدا کرتی ہوں اور اب مجھے تمہارا منہ قیامت کو ہی دیکھنا نصیب ہوگا۔‘‘آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو بچپن میںہی اپنی وِلایت کاعلم ہوگیاتھا:۔ حضور پرنور ، محبوب سبحانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے کسی نے پوچھا:’’ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اپنے آپ کو ولی کب سے جانا؟‘‘ ارشاد فرمایا کہ ’’میری عمر دس برس کی تھی، میں مکتب میں پڑھنے جاتا تو فرشتے مجھ کو پہنچانے کیلئے میرے ساتھ جاتے اور جب میں مکتب میں پہنچتا تو وہ فرشتے لڑکوں سے فرماتے کہ ’’اللہ عزوجل کے ولی کے بیٹھنے کیلئے جگہ فراخ کر دو‘‘۔