منگل‘ 18 ذو الحج 1445ھ ‘ 25 جون 2024

سکھر بیراج کا گیٹ نمبر 47 ٹوٹ گیا۔ 
مرمت کے لیے کروڑوں روپے خرچ کرنے کے باوجود مناسب دیکھ بھال نہ ہونے پر سکھر بیراج کا ایک گیٹ ٹوٹ گیا۔ اب تو صاف بات ہے کہ مزید کروڑوں روپے اب اس کی مرمت پر لگیں گے۔ یہ بھی پہلے والے پیسوں کی طرح کھا پی کر حساب برابر کیا جائے گا۔ اب سندھ میں کئی رابطہ نہروں کو پانی کی فراہمی بند ہو گئی ہے۔ آخر یہاں کام کرنے والا عملہ کیا کرتا رہا۔ بر وقت اس کی تعمیر و مرمت کیوں نہ ہو سکی اب تو پانی کے بہاﺅ میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ کہتے ہیں گیٹ پر پانی زیادہ جمع ہونے سے یہ بہہ گیا۔ کیا یہ باقی گیٹوں سے علیحدہ تعمیر ہوا تھا ۔ سندھ میں 70 فیصد زرعی اراضی کو سکھر بیراج سے ملنے والے پانی سے سیراب کیا جاتا ہے۔ اب سیلاب کا سیزن ہے یہ بات علیحدہ پریشان کن ہے۔ موسمیات والے پہلے ہی شدید سیلاب کی پیشنگوئی کر چکے ہیں۔ عوام میں خوف و ہراس پھیل رہا ہے کیونکہ وہ ہر سال اس عذاب سے گزرتے ہیں۔ بے سروسامان ہو جاتے ہیں۔ اب اس اچانک افتاد سے حکومت کے ہاتھ پاﺅں پھول گئے ہیں۔ گزشتہ روز چینی ماہرین نے بھی بیراج کا دورہ کیا۔ اب ہنگامی بنیادوں پر اس کی تعمیر و مرمت کرنا ہو گی ورنہ سندھ کے عوام کو ایک مرتبہ پھر اس سال بھی سیلاب بلاخیز کا سامنا کرنا پڑے گا بقول منیر نیازی
 اک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو 
میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا
خدا جانے ہمارے ملک کے غریبوں کی کب ان سیلابوں سے جان چھوٹے گی اور ان کے کچے گھروندے اور ان کے کھیت محفوظ رہیں گے۔ 
جنوبی کوریا میں ہر پیدا ہونے والے بچے پر والدین کو 5 لاکھ روپے ماہانہ ملیں گے۔
واہ کیا قسمت پائی ہے۔ جنوبی کوریا والوں نے۔ جہاں شرح آبادی میں اضافہ کیلئے یہ اعلان کیا گیا ہے وہاں کے حکمران بچوں کی پیدائش میں کمی کی وجہ سے پریشان ہیں۔ اب انہوں نے ملک کی آبادی میں اضافے کے لیے عوام کو زیادہ بچے پیدا کرنے پر آمادہ کرنے کے لیے یہ پرکشش آفر کی ہے کہ ہر بچے کی پیدائش پر ماں باپ کو 5 لاکھ روپے ماہانہ دئیے جائیں گے۔ امید ہے اب وہاں جلد ہی افرادی قوت میں کمی دور ہو گی شرح پیدائش میں اضافہ ہوگا۔ اگر ایسی ہی کوئی آفر پاکستان میں کی جائے تو مزہ آ جائے گا۔ مگر شرط یہ ہے کہ جس گھر میں 2 بچے ہوں انہیں ماہانہ 5 نہ سہی ایک لاکھ روپے ہی دینے کا اعلان کر دیا جائے تو ملک میں بچوں کی پیدائش میں بہت جلد اور واضح کمی کے آثار نظر آنے لگیں گے۔ ویسے بھی کئی دہائیوں سے ”کم بچے خوشحال گھرانہ“ والی مہم چلا چلا کر دیکھ چکے ہیں کہ مفت مشورے اور ادویات سے یہ معاملہ حل ہونے والا نہیں۔ ورنہ بنگلہ دیش کو ہی دیکھ لیں وہاں کسی طرح انہوں نے آبادی کنٹرول کیا۔ جب وہ الگ ہوا تو اس کی آبادی ہم سے زیادہ تھی مغربی پاکستان کی آبادی 5 کروڑ جبکہ مشرقی پاکستان کی 7 کروڑ کے لگ بھگ تھی۔ آج دیکھ لیں ہم کہاں ہیں اور وہ کہاں ہے۔ انہوں نے نہایت دانشمدی سے بڑھتی ہوئی آبادی کو کنٹرول کیا۔ یہی وجہ ہے کہ آج وہ معاشی طور پر ہم سے کہیں زیادہ مضبوط ہے اور ہم اگر کسی چیز میں ترقی کر سکے ہیں تو وہ صرف شرح آبادی میں اضافہ ہے۔ وہ سال بہ سال بڑھتی جا رہی ہے۔ اب شاید مالی ترغیب دے کر ہم لوگوں کو آبادی کم کرنے پر راغب کرنے میں کامیاب ہو جائیں اور یہ آبادی کا بڑھتا ہوا سیلاب قابو میں آ سکے۔ 
آصفہ بھٹو زرداری نے بھی بجٹ کو مسترد کر دیا۔
پہلی بار منتخب ہونے والی پیپلز پارٹی کی ایم این اے نے کل پارلیمنٹ میں اپنی پہلی تقریر جس دھواں دھار انداز میں کی اس نے سب کو بےنظیر بھٹو کی یاد دلادی۔
 اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ بہت جلد ایک پ±رجوش مقررہ کی حیثیت سے اپنی پہچان بنا لیں گی۔ یوں کم از کم بے نظیر بھٹو کی کمی ایوان میں اور سیاسی میدان میں محسوس نہیں ہو گی۔ وہ بھی ایک پ±رجوش مقررہ تھیں۔ ایوان میں انہوں نے غالباً پارٹی کی پالیسی لائن کے مطابق بجٹ کے خلاف تقریر کی اور اسے عوام دشمن بجٹ قرار دیا اور اس کی مخالفت کی۔ شکر ہے تقریر انگلش میں تھی اور عوام کے علاوہ پارلیمنٹ میں موجود اکثر ارکان کے بھی پلے نہیں پڑی ہو گی۔ شاید اس طرح انگریزی میں تقریر کا مقصد یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ایوان پر اور عوام پر اپنی انگریزی کی دھاک بٹھائی جائے۔ سب کو معلوم ہے کہ انگریزی زبان اور انگریزی تہذیب ہماری اشرافیہ کی بڑی کمزوری ہے اسی لیے ان کے بچے یورپ کے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں پڑھتے ہیں اور حکومت کرنے پاکستان آ جاتے ہیں۔ یہی مسئلہ ہمارا ہے کہ ہم انگریزی سے مرعوب ہوتے ہیں اور اپنی قومی زبان اردو بولنے سے پڑھنے اور لکھنے سے پرہیز کرتے ہیں تاکہ اپنی طبقاتی برتری ثابت کر سکیں۔ ایسے حالات میں اردو زبان کو بھلا اس کا صحیح مقام کب مل سکتا ہے۔ بہرحال آصفہ کو کھل کر خطاب کرنے اور سیاسی میدان میں اپنی پہلی تقریر پر مبارک ہو۔ دوسری طرف ان کے والد صدر پاکستان اور برادر بلاول نے بھی یہی پالیسی رکھی ہے کہ بجٹ کو ب±را بھی کہنا ہے اور اس کی منظوری میں بھی حصہ ڈالنا ہے۔ اسے کہتے ہیں سیاست۔ یہی ہوتی ہے کامیاب سیاست۔ 
٭٭٭٭٭
کراچی میں گدھا گاڑی ریس بجلی نے جیت لی۔
کراچی میں گدھا گاڑی کی ریس کی تاریخ پرانی ہے۔ قیام پاکستان کے بعد بھی یہ سلسلہ جاری رہا۔ پرانی پاکستانی فلموں میں بھی اس موضوع کو فلمایا گیا ہے۔ یہ ریس جیتنے والے کو انعام دیا جاتا تھا۔ اس ریس میں بھی خوب جوا ہوتا تھا مگر سرکاری سطح پر اس ریس کو اب تسلیم کیا گیا ہے۔ گزشتہ روز کراچی میں کمشنر سپورٹس فیسٹیبول میں پہلی گدھا گاڑی ریس کا انعقاد ہوا جو آئی سی آئی فلائی اوور سے کمشنر ہاﺅس تک ہوئی۔ اس ریس میں کامیاب ہو کر ٹرافی جیتنے والا خوش قسمت گدھا ”بجلی“ تھا جی ہاں جس طرح اس وقت بجلی پاکستان کی سب سے بڑی پرابلم ہے اسی طرح اس کے ہم نام اس گدھے نے بجلی کی رفتار سے دوڑ لگا کر یہ ریس جیت لی۔ امید ہے اب اس دلچسپ ریس کو بھی کھیلوں کے قومی مقابلوں میں شامل کر لیا جائے گا۔ آخر اونٹوں کی ریس اور بیلوں کی ریس بھی تو ہمارے کھیلوں میں شامل ہے۔ تو پھر ان گدھوں سے امتیازی سلوک کیوں ہو۔ میئر کراچی مہمان خصوصی تھے جنہوں نے انعامات تقسیم کئے۔ انہوں نے بھی کہا کہ یہ ریس کراچی کی ایک روایتی ریس ہے۔ کچھ عرصہ قبل تک واقعی اس میں لوگ شریک ہوتے تھے۔ اب بھی اس ریس کو اہمیت دی جائے تو ملک بھر میں گدھوں کی کمی نہیں۔ ہر جگہ یہ ریس منعقد ہو سکتی ہے اور عوام کو تفریح کا ایک نیا موقع بھی مل جائے گا۔ پتہ چلے گا کہ گدھے صرف بوجھ ڈھونے کے ہی کام نہیں آتے یہ کھیلوں میں بھی حصہ لے سکتے ہیں۔ ویسے بھی تو گدھوں کے صحت اورحسن کے مقابلے ہوتے ہیں۔

ای پیپر دی نیشن