مملکتِ توحید سعودی عرب

ڈاکٹر حافظ مسعود اظہر 
 تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ جب تک مسلمان توحید کی دعوت پر کاربند رہے ، صرف ایک اللہ کے اطاعت گزار اور اس کی توحید کی چوکھٹ کے چوکیدار رہے۔ ساری دنیا ان کی اطاعت گزار رہی۔ یہ نیلگوں آسمان ، یہ دھکتا ہوا سورج ، یہ چمکتا ہوا چاند ، یہ جگمگاتے ستارے بارہادفعہ اس بات کا مشاہدہ کرچکے ہیں کہ دنیا جب بھی اپنے خالق ومالک اور رازق سے روٹھتی اور منہ موڑتی ہے تواللہ ایسے بندے پیدا کرتا ہے جو بھولے بھٹکے انسانوں کو توحید کی دعوت دیتے اور بندوں کا ناطہ وتعلق خالق ومالک سے جوڑتے ہیں۔ ایسے ہی اپنے وقت کے ایک عظیم داعی ، مصلح ، مبلغ ،موحد ، مجددِ اسلام اور امامِ وقت الشیخ محمد بن عبدالوہاب بن سلیمان بن علی تھے جو 1704ءکو عینیہ شہر کے قبیلہ بنو تمیم کے معزز خاندان میں پیدا ہوئے۔ تعلیمی مدارج طے کرنے اور سخت ترین آزمائشوں سے گزرنے کے بعد محمد بن عبدالوہاب امیر درعیہ محمد بن سعودکی دعوت پر درعیہ منتقل ہوگئے۔ امیر محمد بن سعود نے شیخ کا پر جوش استقبال کیا اور آپ کی حمایت وحفاظت کا وعدہ کیا اور کہا، ’آپ کے علاقہ سے بہتر علاقے کی خوشخبری آپ کو پیش کرتا ہوں اور عزت وتمکین کی مسرت کن خبر آپ کو سنارہا ہوں ‘۔ شیخ نے جواباً کہا، ’میں بھی آپ کو عزت وفضیلت کی بشارت دیتا ہوں او ریہ نوید سناتا ہوں کہ آپ کی حکومت مضبوطی سے قائم رہے گی کیونکہ جو بھی کلمہ لاالہ الا اللہ پر ثابت قدمی کے ساتھ عمل پیرا ہوجاتا ہے وہ زمین اور اہل زمین دونوں پر اقتدار پاتا ہے۔ محمد بن عبدلوہاب اور امیر درعیہ محمد بن سعودکی ملاقات بہت ہی بابرکت ثابت ہوئی۔ دونوں نے مل کر توحید کی دعوت کو عام کیااس طرح فتوحات ان کے قدم چومتی چلی گئیں وہ جو علاقے بھی فتح کرتے ان میں شریعت اسلامیہ کا نفاذ کرتے۔ آج دنیا کے نقشے پر مملکت توحید سعودی عرب کی شکل میں ہم جو ملک دیکھ رہے ہیں یہ انھی دو بزرگوں کی محنت اور جہد مسلسل کا ثمر ہے۔ 
 سعودی عرب رقبے کے اعتبار سے جزیرہ نمائے عرب کا سب سے بڑاملک ہے جبکہ معاشی اعتبار سے دنیا کا مالدار اور خوشحال ملک ہے۔ سعودی عرب اسلام کا مرکز ہی نہیں اسلام کا محافظ وپاسباں بھی ہے۔ دنیا کے ہر خطے اور ملک میں مملکت سعودی عرب ، عرب کی این جی اوزیا سعودی عرب کی شخصیات کے تعاون سے بنائی گئی مساجد موجود ہیں جن سے ہر وقت اللہ اکبر اللہ اکبر کی صدائیں بلند ہوتی ہیں۔ سعودی حکمرانوں کی ایک اہم ترین خوبی یہ ہے کہ مملکت کی بنیاد جن اصولوں پر رکھی گئی تھی آج بھی ان کی پاسداری کی جارہی ہے، یعنی کلمہ توحید کی چوکھٹ کی چوکیداری۔ گزشتہ دنوں دنیا نے اس کی ایک جھلک اس وقت دیکھی جب جی ٹونٹی کا اجلاس بتکدہ ہند کی راجدہانی دہلی میں منعقد ہوا۔ جی ٹونٹی میں دو مسلم ملک سعودی عرب اور ترکیہ بھی شامل ہیں۔ اجلاس کے بعد تمام ممالک کے سربراہان ترکیہ کے صدر رجب طیب اردوان سمیت سب نے مہاتما گاندھی کی سمادھی راج گھاٹ پرحاضری دی، جھک کر گلہائے عقیدت پیش کیے اور ایک منٹ کی خاموشی بھی اختیار کی لیکن خادم الحرمین الشریفین ملک سلمان بن عبدالعزیز کے فرزند اور توحید کے علمبردار سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان اس غیر اسلامی عمل میں شرکت نہیں ہوئے۔
سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے اس جرا¿تمندانہ عمل کو بی بی سی سمیت بھارتی میڈیا نے نمایاں کوریج دی۔ نئی دہلی سے بی بی سی کے نمائندے نے اپنی رپورٹ میں بتایا، ’جی ٹونٹی اجلاس میں شرکت کے لیے آنے والے ممالک کے سربراہان اتوار کی صبح مہاتما گاندھی کی سمادھی پر حاضری کے لیے پہنچے۔ اس دن رک رک کر بارش ہورہی تھی۔ گاندھی کی سمادھی پر حاضری دینے والوں میں امریکا کے صدر جوبائیڈن ،برطانوی وزیر اعظم رشی سونک ، آسٹریلیا کے وزیر اعظم انتھونی البانیاس، جرمن چانسلر شلٹز، فرانسیسی وزیر اعظم ایمانوئل میکرون، بنگلہ دیش کی شیخ حسینہ واجد ، ترکیہ کے صدر رجب طیب اردوان اور دیگر شامل تھے جبکہ مہاتما گاندھی کی سمادھی پر حاضری دینے والوں میں سعودی عرب کے کراو¿ن پرنس محمد بن سلمان شامل نہیں تھے۔ ایسے میں کئی لوگ جاننا چاہتے ہیں کہ سعودی عرب کے کراو¿ن پرنس راج گھاٹ کیوں نہیں پہنچے اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے بی بی سی کے نمائندے کا کہنا تھا محمد بن سلمان کے راج گھاٹ نہ پہنچنے کی وجہ یہ ہے کہ وہ سلفی ہیں۔ بی بی سی کے نمائندے نے جامعہ ملیہ اسلامیہ کے پروفیسر اختر الواسع کے حوالے سے مزید بتایا سلفی جنھیں اہلحدیث کہتے ہیں وہ کسی بھی طرح کی سمادھی یا مزار پر نہیں جاتے۔بی بی سی کے نمائندے نے اسلامی سکالر ظفر الاسلام خان کے حوالے سے مزید بتایا سلفی العقیدہ لوگوں کے ہاں قبر کو پکا بنانا بھی درست نہیں۔ حنفی ، مالکی شافعی اور حنبلی بعد میں وجود میں آئے ہیں جو ائمہ کو مانتے ہیں جبکہ اہلحدیث صرف قرآن اور حدیث کو مانتے اور اس پر عمل کرتے ہیں۔ انیسویں صدی میں جب بھارت میں وہابیت یعنی سلفی یا اہلحدیث کا احیا ہونے لگا برطانیہ سرکار نے انھیں غیر مقلد کانام دیا۔ اہلحدیث صرف تین جگہوں پر جاتے ہیں مسجد الحرام ، مسجد نبوی اور مسجد اقصیٰ۔ ‘
 شہزادہ محمد بن سلمان نے گاندھی کی سمادھی پر حاضری نہ دے کر دنیا کو یہ بتادیا ہے کہ وہ ہواو¿ں کے ساتھ نہیں بلکہ حق کے ساتھ چلتے ہیں ، وہ پکے اور سچے موحد ہیں ، موحد باپ کے بیٹے ہیں۔ ان کی متاع سیاست نہیں، اللہ کی واحدنیت ہے اور وہ اس راستے پر کاربند ہیں جو محمد عربی ﷺ کا راستہ ہے جو دائمی عزت اور کامیابی کا راستہ ہے۔ دعا ہے کہ اللہ ہمیں بھی اس راستے پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین

ای پیپر دی نیشن