مارچ 2001 سے 20 نومبر 2012ءتک پتہ ہی نہیں چلا 12 سال گزر گئے۔ مارچ 2001ءمیں جب میں نے مسلم لیگ جوائن کی تھی تو بہت سے خواب میری آنکھوں کا طواف کیا کرتے تھے۔ یہ وہی خواب ہیں جو ایک سیاسی ورکر دیکھ سکتا ہے۔ معاشرے میں کچھ بہتر کر دکھانے کے خواب‘ سسٹم میں اپنا کردار ادا کرنے کے خواب آج جب میں 2012ءمیں مڑ کر دیکھتا ہوں تو میں حیران رہ جاتا ہوں کہ مسلم لیگ ق میں کتنے مدوجزر آئے لیکن میں نے استقامت کا دامن ہاتھ سے جانے نہ دیا۔ پارٹی لیڈر شپ سے میری وفاداری میں کبھی بال برابر فرق نہیں آیا ہاں یہ ضرور ہے کہ میں نے سچائی کا دامن، حق بات کہنے کی عادت نہیں بدلی۔ وہ لال مسجد کا واقعہ ہو، ایمرجنسی لگانے کا واقعہ ہو، پیپلز پارٹی سے اتحاد کا واقعہ ہو میں نے اپنے ضمیر کے مطابق جو صحیح سمجھا کہہ دیا اور اسکے حوالے سے میں نے کبھی کسی خوف کو خود پہ طاری نہیں ہونے دیا۔ مسلم لیگ ق سے 12 سالہ رفاقت ختم ہونے پر مجھے کوئی پشیمانی نہیں اور نہ ہی میں مڑ کر دیکھنا چاہتا ہوں‘ جو ہوا وہ ہو چکا‘ وہ بیت چکا میں نے مسلم لیگ ق کے عہدے اور بنیادی رکنیت سے استعفیٰ دے دیا ہے۔ میں اسکی لیڈر شپ کےلئے نیک خواہشات رکھتا ہوں۔ میرے دوست کہتے تھے کہ جمہوریت آزادی اظہار، تحریر و تقریر اور بنیادی انسانی حقوق کی بات کرنا کچھ اور ہوتا ہے اس پر عمل کرنا کچھ اور۔ پاکستان میں سیاسی کارکنوں کی تعداد روز بروز ختم ہوتی جا رہی ہے اور ان کی جگہ وفاداروں کو ملتی جا رہی ہے۔ میں نے اپنی پوری زندگی کوشش کی ہے کہ سچ بولوں اپنے ضمیر کی آواز پر لبیک کہوں....ع
میں زہرِ ہلاہل کو کبھی کہہ نہ سکا قند
اگر پاکستانی سیاسی نظام کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات حیرت انگیز ہے کہ سیاسی اداروں سے لے کر سیاسی جماعتوںتک میں جیسا نظر آتا ہے ویسا ہوتا نہیں ہے۔ کارکن اپنی جماعت کی کامیابی‘ اسکے منشور سے محبت اور لیڈر شپ سے عشق کی اس سطح تک پہنچ جاتے ہیں جہاں سے بعض اوقات انکی واپسی ممکن نہیں رہتی۔ وہ جیلیں بھگتتے ہیں، مار کھاتے ہیں، صعوبتیں برداشت کرتے ہیں، میں اپنی بات نہیں کر رہا میں پاکستان بھر کے سیاسی کارکنوں کی بات کر رہا ہوں۔ یہ کارکن پیپلز پارٹی کا ہو جماعت اسلامی کا ہو، مسلم لیگ ق کا ہو، تحریک انصاف کا ہو یا مسلم لیگ ن کا آپ کسی جماعت کو بھی اٹھا کر دیکھ لیں اس میں ورکرز کی جانب سے قربانیوں کی انمول داستانیں ملیں گی۔ ان ورکروں نے اپنے نظرئیے سے committed ہونے کی انمول داستانیں رقم کی ہیں۔ آج بھی ان کارکنوں کے گھر جائیں تو آپ دیکھیں گے کہ انکے چولہے ٹھنڈے ہیں۔ انکی اولادیں آج بھی لاوارث ہیں۔ دو روٹی کا حصول آج بھی ان کا سب سے اہم مسئلہ ہے۔
میں نے بارہ سال مسلم لیگ ق میں رہ کر ایک سیاسی کارکن کے طور پر اپنا کردار نبھانے کی کوشش کی اور میں نے ہر اسائنمنٹ پورے خلوص سے مکمل کی۔ میں نے کوشش کی کہ مسلم لیگ فرقوں اور گروپوں میں تقسیم ہونے کے بجائے ایک پلیٹ فارم پر اکٹھی ہو جائے۔ اسکی قیادت اپنی ذات کے خول سے نکل کر باہمی اتحاد کا سوچے ملک کا سوچے لیکن جیسا کہ میں نے پہلے کہا ہے کہ میں زہرِہلال کو قند نہ کہہ سکا قند۔ جب چار سو اندھیرا ہو، غربت ہو، بھوک ہو، ننگ ہو، لاشیں بکھری ہوں، بین کی آوازیں آ رہی ہوں تو چاہے کچھ بھی ہوجائے میں تو یہی کہوں گا جو سچ ہو گا۔ مسلم لیگ ق کا پیپلز پارٹی سے اتحاد غیر فطری اتحاد ہے۔ پیپلز پارٹی کی حکومت تاریخ کی کرپٹ ترین حکومت ہے جس نے ملک کو تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے۔ یہ پیپلز پارٹی کی نااہلی ہے کہ ہم آج تباہی کے موڑ پر کھڑے ہیں۔ ہم اقتصادی طور پر تباہ ہو چکے ہیں۔ بے روزگاری اپنے عروج پر ہے، کرپشن اپنی تمام حدیں عبور کر چکی ہے۔ بین الاقوامی طور پر ہم تنہائی کا شکار ہوتے جا رہے ہیں۔ یہاں تک کہ ہمارا بڑا بھائی سعودی عرب ہم سے دور ہو چکا ہے۔ پیپلز پارٹی کی حکومت کو اگر کوئی چیز نظر آتی ہے تو وہ بھارت سے محبت ہے۔ بھارت چاہے اجمل قصاب کو پھانسی دے دے لیکن ہم بھارتی جاسوسوں، دہشت گردوں کو چھوڑنے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ بدعملی اور بدامنی اس معاشرے میں سرایت کر چکی ہے۔ پیپلز پارٹی کی موجودہ حکومت تاریخ کی کرپٹ ترین حکومت اور نااہل ترین حکومت ہے۔ میں ان ناکامیوں سے کیسے صرف نظر کر سکتا ہوں۔ ایک پاکستانی ہونے کی حیثیت سے میں اس بات کو گناہ سمجھتا ہوں کہ صرف ایسے بدترین حکمرانوں کو اس لئے برداشت کر لیا جائے کہ یہ پارٹی لائن ہے۔ میں نے اپنے ٹی وی تجزیوں اور کالموں میں جو بھی لکھا اپنے ضمیر کی آواز سے لکھا۔ مجھے فخر ہے کہ پیپلز پارٹی کی اتحادی جماعت کا اہم عہدیدار ہونے کے باوجود میں کرپشن کی دلدل سے قطعاً صاف اور پاک نکلا ہوں۔ میرے دامن پر کرپشن کی کوئی چھینٹ نہیں ہے۔ مجھے فخر ہے کہ میں نے ایک کرپٹ ترین حکومت کا اتحادی ہونے کے باوجود اپنے دامن کو ان غلاظتوں سے محفوظ رکھا۔ میں نے جو کہا جو لکھا مجھے اس پر فخر ہے اور میں ہمیشہ یہی کروں گا۔ سچ کا اپنا ایک مزہ ہوتا ہے اور سچ کہنے کی پاداش میں آنے والی رکاوٹوں کا سامنا کرنے کی اپنی ایک لذت ہوتی ہے۔
یہ نومبر 2012ءہے۔ میں اب مسلم لیگ ق کی ذمہ داریوں سے آزاد ہو چکا ہوں۔ میرے سامنے ایک کھلا آسماں ہے، ایک روشن سورج ہے جس کی کرنیں بلاامتیاز سب پر یکساں پڑتی ہیں۔مجھے پارٹی چھوڑتے ہوئے کسی سے گلہ ہے نہ شکایت جو ہوا اچھا ہوا۔ اچھے کے لئے ہوا اب میں پیچھے مڑ کر نہیں دیکھنا چاہتا۔ میں آگے بڑھنا چاہتا ہوں میں جمہوریت کی بات کرنا چاہتا ہوں۔ کارکن کی بات کرنا چاہتا ہوں، معاشرے کے استحصالی طبقوں کی بات کرنا چاہتا ہوں۔ ایسے نظام کی بات کرنا چاہتا ہوں جہاں لوگوں کو حسب و نسب کی بجائے انکے کردار کی وجہ سے باعزت قرار دیا جائے جہاں کارکنوں کو ٹشو پیپر سمجھنے کی بجائے حقیقی معنوں میں اثاثہ سمجھا جائے۔ میں سچ بولنے کی لذت سے آشنا ہو چکا ہوں اور جس کی اس لذت سے شناسائی ہو جائے وہ مڑ کر نہیں دیکھا کرتا۔
ایرانی صدر کا دورہ، واشنگٹن کے لیے دو ٹوک پیغام؟
Apr 24, 2024