کہیں دیر نہ ہو جائے؟

کچھ عرصہ قبل میرے ایک شاعر و ادیب دوست پاکستان آئے تو میں اْنھیں ملنے اْن کے گائوں گیا تو بہت افسردہ اور غمگین دکھائی دیے۔ ملاقات کے بعد جب میں روانہ ہونے لگا تو باہر تک الوداع کرنے آئے۔میں نے پوچھا کہ کچھ دْکھی دکھائی دے رہے ہیں تو سامنے ایک پرانے بوسیدہ دیوار والے گھر کی طرف اشارہ کرکے ایک ٹھنڈی آہ بھر ی اور کہنے لگے۔ وہ جواْجڑا ہو اگھر دکھائی دے رہا ہے وہ ہمیشہ سے اْجاڑ اور ویران نہیں تھا۔ کبھییہ ٹوٹا پھوٹا مکان خوشیوں کا گہوارہ ہوا کرتا تھا اور اِس کے مکین خود کو خوشحال تصور کیا کرتے تھے مگر اب چند سالوں سے غم و الم کی تصویر پیش کر رہا ہے۔ کبھی وہاں زندگی اپنی آن بان کے ساتھ جھلکتی تھی لیکن اب موت کا گہرا سکوت ہے۔ کبھی وہاں قہقہے گونجتے تھے اور خوشیاں دندناتی پھرتی تھیں مگر اب وہاں ویرانی ہے اور خاموشی کا راج ہے۔ چند دن پہلے تک وہاں ایک بیوہ کسمپرسی کے عالم میں زندگی کے دِن پورے کر رہی تھی۔ سات سال پہلے اْس کا اِکلوتا جوان بیٹا اْس کی آنکھوں کے سامنے گولیوں سے چھلنی کر دیا گیا اور وہ خون سے لت پت جوان بیٹے کو تڑپ تڑپ کر جان دیتے دیکھتی رہی۔ اوراب سات سال تک انصاف کے لئے در در کی ٹھوکریں کھاتیرہی اور اپنے گھر کی بوسیدہ دیواروں کو تکتے تکتے اپنے ساتھ ہونے والی بر بریت پر انصاف کی خواہش دِل میں لئے زندگی کے جھنجھٹ سے آزاد ہوچکی ہے۔اور اب جس گھر میں غربت اور لا چارگی کے باوجود قہقہے گونجا کرتے تھے وہاں اب مکمل خاموشی ہے۔
میرے دوست کے لئے یہ امر اِس لئے اِتنے دْکھ اور رنج کا باعث ہے کہ یہ واقعہ اْن کے سامنے بیت گیا ہے اور اْس گھر میں لگی آگ کی حدت وہ اِس لئے محسوس کر رہے ہیں کہ وہ آگ اْن سے ملحقہ گھر میں لگی ہے ورنہ وطن ِعزیز میں ایسے واقعات اب عام ہوتے جا رہے ہیں۔ شب و روز ظلم و بر بریت کی کہانیاں جنم لیتی ہیں۔ کچھ کہانیاں تو جنم لیتے ہی دفن ہو جاتی ہیں اور کچھ اخبار کی دو یا تین کالمی سْرخیاں بنتی ہیں اور چند ایک جن میں بکنے کی گنجائش زیادہ ہوتی ہے وہ ٹی وی چینلز پر بریکنگ نیوز کی صورت دھار لیتی ہیں۔ اور جس طرح اخبا ر کی طبعی عمر ایک دِن ہوتی ہے ایسے ہی اِس طرح ٹی وی چینلز پر چلنے والی خبر کی عمر بھی چند لمحے ہوتی ہے۔ اور چینلز چونکہ ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی سعی میں ہوتے ہیں اِس لئے وہ ایک بریکنگ نیوز کے بعد دوسری کے تعاقب میں نکل کھڑے ہوتے ہیں اوریوں مظلوم کے گھر میں چند گھڑیوں کی میڈیا کوریج کے بعد طویل خاموشی چھا جاتی ہے۔ اِس لئے قدم قدم سماجی نا انصافیوں کی کہانیاں! ظلم و بربریت کے قصے بریکنگ نیوز بنتے ہیں اور چند لمحوں میں پسِ منظر میں چلے جاتے ہیں۔ اوراب یہ عالم ہے کہ کسی بھی خبر سے جلد اْکتا جانے والا معاشرہ بریکنگ نیوز کا تماش بین بن چکا ہے۔ ریاست اور منصف بھی معاشرے سے زیادہ مختلف دِکھائی نہیں دیتے۔
انصاف کی فراہمی اور ایسے ا نسانیت دشمن لوگوں کو نشانِ عبرت بنانے کے لئے دو اقدامات اہم ہیں۔ سب سے پہلے فیصلہ خواہ کتنا ہی مشکل کیوں نہ ہو صیح اور بر وقت ہونا چاہیے کہ جو مْکا باکسر کو باکسنگ رِ نگ کے باہر یاد آئے وہ پچھتاوے کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ ملک کے حالات اِس بات کے غماز ہیں کہ ماضی میں اختیار رکھنے والے اداروں اور افراد نے فیصلے کرنے کی ذمہ داری صیح طور ادا نہیں کی۔ اور اگر حالات تیزی سے تباہی کی نہج پر جا رہے ہیں تو صاحبان اختیا ر ہی اِسکے ذمہ دار ہوں گے۔ ریاست کے اداروں کو ادراک ہونا چاہیے کہ صاحب اختیار ہی ذمہ دار ہو تا ہے۔ اختیار ذمہ داری میں ڈھلتا ہے۔ اور ذمہ داری تقاضا کرتی ہے کہ آپ مسائل اور معاملات کو سلجھانے کے لئے بڑے ،مشکل اور بر وقت فیصلے کریں۔ دوسرا اہم قدم یہ ہے کہ آئین میں نئی ترامیم اور نئی فورسز کے قیام سے بہتر یہ ہے کہ پہلے سے موجود انفراسٹرکچر کو فعال بنایا جائے۔ سب سے ضروری ہے کہ انصاف کے لئے موجود قوانین پر عمل داری کو یقینی بنایا جائے۔ اگر عمل داری ترجیح ہو تو ایک ادارہ بھی ضرورت پوری کر سکتا ہے۔ اور عمل داری مصلحت کی نظر ہو جائے تو درجنوں ادارے بھی ناکافی ہیں۔
سوات کا واقعہ بلاشبہ ایک اندو ہ ناک واقعہ ہے جس کی وجہ سے ملک کے طول و ارض میں ہیجان اور رنج پایا جاتا ہے۔ سوات جو اپنی میزبانی اور خوش اخلاقی کی وجہ سے سیاحوں میں خاص شہرت رکھتا تھا میں توہین قرآن کے الزام میں سیالکوٹ سے تعلق رکھنے والا ایک سیاح کا بے رحمانہ انداز میں قتل کر دیا جاتا ہے۔ اِس واقعے نے کشیدگی کا ایک نیا راستہ کھول دیا۔کسی کی دانست میں ہوٹل میں مقیم ایک سیاح توہینِ مذہب کا مرتکب ہوا اور لمحوں میںیہ خبر بڑی تعداد میں لوگوں تک پہنچ گئی اور لوگ مبینہ ملزم کا تعاقب کرتے ہوئے تھانے پہنچ گئے ، 
تھانے پر دھاوا بول دیا اور سیاح کو تشدد کرتے ہوئے تھانے سے باہر لے آئے اور قتل کر دیا۔ زیادہ بھیانک حقیقت یہ ہے کہ سیاح اپنی بیوی اور بچوں کے ساتھ تھا۔اب کسی کو کچھ معلوم نہیں کہ بیوی کس حال میں ہے اور معصوم بچے کس حال میں ہیں۔
اِسی سے متعلقہ اہم پیش رفت یہ ہے کہ وفاقی کابینہ کے اہم ارکان نے اِنسداد دہشت گردی کی جاری مہم اور داخلی سلامتی کی صورتحال کاجائزہ لیا اور نیشنل ایکشن پلان کے تحت اْن شعبوں کی کارکردگی کا جائزہ لیا جہاں عمل درآمد کا فقدان تھا اور وزیر اعظم شہباز شریف نے تمام اسٹیک ہولڈرز کے اتفاق رائے سے اپریشن عزم ِاستحکام کے ذریعے انسداد دہشت گردی کی قومی مہم کو دوبارہ فعال کرنے کی منظوری دی۔یہ اپریشن تمام قانون نافذ کرنے والے اداروں کے مکمل تعاون کے ساتھ کیا جائے گا۔ اور دہشت گردی سے متعلق مقدمات کی کارروائی میں رکاوٹ بننے والی قانونی خامیوں کو ختم کرنے کے لیے موثر قانون سازی کرکے مجرموں کو مثالی سزائیں دی جائیں گی۔ اوراِس اپریشن کا مقصد عوام کے حقیقی خدشات کو دور کرنا اور ایک ایسا ماحول پیدا کرنا ہے جس سے انتہا پسندانہ رجحانات کی حوصلہ شکنی ہو۔ ریاست کی طرف سے یہ ایک احسن قدم ہے۔ 
معاشرے میں تیزی سے پھیلتی گھٹن اور بے بسی کی بڑی وجہ ناانصافی ہے۔ حکومت نے مظلوموں کی حالتِ زاربریکنگ نیوز کے طور پر دِکھانے کی اجازت دے رکھی ہے لیکن ظالموں کو کیفرِ کردار تک پہنچانے کا کلپ دکھائے جانے کا کوئی انتظام نہیں ہے۔فیصلہ سازوں کے لئے انتہائی مناسب وقت ہے اور ضرورت اِس امر کی ہے کہ جنگی بنیادوں پر انصاف کی فراہمی اور ریاستی عملداری جیسے اقدامات پر توجہ دے۔ انصاف کی فراہمی معاشرے میں امن و آشتی کا سبب ہوتی ہے۔ ظلم و ناانصافی سے معاشرہ توڑ پھوڑ کا شکا ر ہوتا ہے۔ اگر ہنگامی بنیادوں پر انصاف کیفراہمی ممکن نہ ہوئی توعدل کی زنجیر تھامے کھڑے لاکھوں لوگ مایوسی کا شکار ہوں گے۔ اْجاڑمکانوں اور خاموش مکینوں کی تعداد میں اضافہ روکنا از حد ضروری ہے۔ہمیں اِ س بات کا خیال رکھنا ہے کہ کہیں دیر نہ ہوجائے۔

ای پیپر دی نیشن