ملکی ترقی،نیشنل ایکشن پلان پر عمل سے ہے

ہماری بدقسمتی کہ قیام پاکستان سے لے کے ابتک ہمیں مشرق و مغرب سے کبھی ٹھنڈی ہوا کے جھونکے نہیں آئے ۔ایک طرف بھارت پاکستان میں دشت گرد ی کی کاروائیوں میں کردار ادا کرتا چلا آرہا ہے تو دوسری طرف افغان بارڈر سے مختلف شکلوں میں متشدد سوچ کے لوگوں کی کاروائیاں ہوتی رہتی ہیں ۔نیشنل ایکشن پلان (NAP) 16 دسمبر 2014 کے پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر حملے کے بعد دشت گردوں کی کاروائیوں کو روکنے اور ملک میں امن و امان کی مکمل بحالی کے پیش نظر نیشنل ایکشن پلان تشکیل دیا گیا تھا۔اس پلان کے تحت پاک فوج نے دہشت گردوں کے خلاف متعدد آپریشنز کیے، جن میں آپریشن ضربِ عضب اور آپریشن رد الفساد شامل ہیں۔ اور ہم نے دیکھا کہ ملک کی عسکری قوتوں نے اس حوالے سے بہت حکمت عملی سے کام لیتے ہوئے ملک کے بڑے حصے کو دشت گردوں کے حملوں سے محفوظ کردیا۔جب سے چین کے تعاون سے ملک میں سی پیک پر کام ہورہا ہے تب سے عالمی طاقتوں کے ایما پر پاکستان میں چینی کارکنوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔چینی کارکنوں پر جان لیوا حملوں کے بعد چینی حکومت پچھلے کچھ عرصے سے پاکستانی عہدیداروں سے ہر فورم پر اپنے شدید تحفظات کا اظہار کررہی ہے ۔دوست ملک کے محنت کشوں کی زندگیوں کو محفوظ بنانے کے لیے وزیراعظم نے ایک اہم تقریر کے دوران نیشنل ایکشن پلان کی اہمیت اور اس کی کارکردگی پر بڑی مدلل گفتگو کی ہے ۔سب سے اہم نقطہ یہ تھا کہ جس طرح ماضی میں نیشنل ایکشن پلان سے دشمن طاقتوں کی کمرتوڑی گئی ہے وقت آگیا ہے کہ قوم متحد ہو اور ایک بار پھر ملک کی فضاوں کو بارود کی بو سے پاک کیا جائے۔وزیراعظم پاکستان شہباز شریف نے اس بات کا بھی ذکر کیا ہے کہ نیشنل ایکشن پلان کے تحت اب مزید سخت فیصلے کرنے ہوں گے۔ حکومت نے انتہاپسند مواد کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے سائبر سپیس کی نگرانی بھی بڑھا دی ہے اور مختلف پلیٹ فارمز پر نفرت انگیز مواد کے خلاف سخت کاروائیاں کی جارہی ہیں۔وزیراعظم نے اپنی تقریر میں اس بات پر بھی زور دیا کہ نیشنل ایکشن پلان کے تحت تعلیمی نصاب میں تبدیلیاں کی جا رہی ہیں تاکہ نوجوانوں کو انتہاپسندی سے محفوظ رکھا جا سکے۔ ملک بھر میں مدارس کی رجسٹریشن اور ان میں اصلاحات کے لیے بھی اقدامات کیے جارہے ہیں تاکہ ان اداروں میں پڑھنے والے طلباء جدید تعلیم کے مواقع فراہم کیے جا سکیں۔
وزیر اعظم نے اس سلسلے میں فوج کے فنڈز میں اضافے کا فیصلہ کیا ہے ۔ نیشنل ایکشن پلان کی کامیابی عوام کے تعاون کے بغیر ممکن نہیں ہے اور ہر پاکستانی کا فرض ہے کہ وہ ملک میں امن و امان کے قیام کے لیے حکومت کا ساتھ دے۔نیشنل ایکشن پلان پر وزیراعظم کی تقریر نے اس بات کی وضاحت کی ہے کہ حکومت دہشت گردی کے خلاف سنجیدہ نظر آتی ہے اور اس کے خاتمے کے لیے مختلف محاذوں پر کاروائیاں کرنے کا فیصلہ کر چکی ہے ۔
 چین نے CPEC منصوبے کی حفاظت کے لیے پاکستان سے مزید مؤثر اقدامات کا مطالبہ کیا ہے۔ خاص طور پر بلوچستان اور خیبر پختونخواہ میں چینی مزدوروں اور انجینئرز کی حفاظت کے لیے اضافی سکیورٹی فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔ چین نے اس بات پر زور دیا ہے کہ پاکستان اپنے علاقے میں موجود دہشت گرد گروہوں کا خاتمہ کرے جو نہ صرف پاکستان بلکہ چین کی سکیورٹی کے لیے بھی خطرہ ہیں۔چین نے پاکستان کے ساتھ انٹیلی جنس تعاون کو مزید بڑھانے کی ضرورت پر زور دیا ہے تاکہ دہشت گردی کے خلاف مؤثر اقدامات کیے جا سکیں۔ پاکستان اور چین کے درمیان سرحدی علاقوں کی سکیورٹی کو مضبوط بنانے کے لیے مشترکہ اقدامات کی ضرورت ہے تاکہ دہشت گرد عناصر ان علاقوں کا استعمال نہ کر سکیں۔نیشنل ایکشن پلان نے پاکستان میں دہشت گردی کے خاتمے کے لیے اہم اقدامات کیے ہیں، لیکن چینی تحفظات کو دور کرنے کے لیے مزید مؤثر اور مسلسل کوششوں کی ضرورت ہے۔
 CPEC کی کامیابی اور دونوں ممالک کے درمیان اقتصادی تعاون کا مستقبل دہشت گردی کے خاتمے اور سکیورٹی کی صورتحال پر منحصر ہے۔ پاکستان اور چین کو مل کر دہشت گردی کے خلاف لڑنا ہوگا تاکہ دونوں ممالک کی سکیورٹی اور اقتصادی ترقی کو یقینی بنایا جا سکے۔نیشنل ایکشن پلان کے نفاذ میں وزارت داخلہ کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ وزارت داخلہ کا بنیادی کام ملک کی اندرونی سلامتی کو یقینی بنانا ہے اور نیشنل ایکشن پلان میں اس کا کردار متعدد طریقوں سے سامنے آتا ہے۔لیکن اہل وطن کو حیرت ہے کہ ایک ایسے وقت میں جب ملک اندرونی طور پر دشت گردو ں کے خلاف جنگ کی حالت میں ہے ہمارے وزیر داخلہ کرکٹ بورڈ کے سنجیدہ و پیچیدہ معاملات کو حل کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔مسلم لیگ کے سینئر راہنما اور وزیر بین الصوبائی رابطہ رانا ثنا اللہ ٹی وی پر فرمارہے تھے کہ وزیر داخلہ محسن نقوی کرکٹ بورڈ کی چیئرمین شپ کے لیے کچھ زیادہ ہی پرجوش ہیں۔وزیر پاکستان کو اس حوالے سے جلد فیصلہ کرنا ہوگا کہ وزیر داخلہ کی اہم ذمہ داری کوئی ایک شخص ہی ادا کرے۔نیشنل ایکشن پلان کے تحت وزارت داخلہ قانون نافذ کرنے والے اداروں جیسے پولیس، ایف آئی اے، اور سی ٹی ڈی کے ساتھ مل کر کام کرتی ہے۔ 
وزارت داخلہ کو نیشنل ایکشن پلان کے نفاذ میں کئی چیلنجز کا سامنا رہا ہے۔ ان میں سب سے بڑا چیلنج دہشت گردوں کے نیٹ ورک کو توڑنا اور ان کے سہولت کاروں کو گرفتار کرنا تھا۔ تاہم، وزارت داخلہ نے پولیس،سی ٹی ڈی اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی مدد سے ان چیلنجز کا سامنا کیا اور کئی دہشت گرد گروہوں کو ناکام بنایا۔
نیشنل ایکشن پلان کے تحت سکیورٹی اداروں کی مزید مضبوطی، جدید تکنیکی آلات کی فراہمی، اور دہشت گردی کے خلاف عوامی شعور بیدار کرنے میں وزرات داخلہ کا بہت اہم کردارہوگا ۔ مختلف اداروں کو مضبوط بنانے اور ان کی استعداد کار میں اضافہ کرنے کے لیے وزیرداخلہ کا کل وقتی اپنے دفتر میں موجود ہونا بہت ضروری ہے۔اس لیے کہ نیشنل ایکشن پلان کے تحت دہشت گردی کے خلاف جو سخت قوانین بنائے گئے۔ وزارت داخلہ نے ان کے نفاذ میں اہم کردار اد اکرنا ہے ۔
٭…٭…٭

ای پیپر دی نیشن