خط لکھنے کے بجائے ملکی حالات پڑھنے کی کوشش کریں!!!!!

عالمی مالیاتی فنڈ نے پاکستان کی نئی حکومت کے ساتھ کام کرنے پر آمادگی کا اظہار کیا ہے۔ ڈائریکٹر کمیونیکیشن آئی ایم ایف جولی کوزیک کے مطابق پاکستان میں میکرو اکنامک استحکام کو یقینی بنانے کے لیے نئی حکومت کے ساتھ پالیسیوں پر کام کرنے کے منتظر ہیں۔ جولی کوزیک کے مطابق پاکستان تحریک انصاف کے بانی عمران خان کی جانب سے مبینہ انتخابی دھاندلیوں کو جواز بنا کر آئی ایم ایف کو خط لکھنے اور عالمی مالیاتی فنڈ کی جانب سے ملنے والی امداد کو مبینہ دھاندلیوں کی عدلیہ سے تحقیقات کے ساتھ مشروط کیے جانے کا بھی صاف جواب دیتے ہوئے کہا کہ وہ جاری سیاسی امور پر تبصرہ نہیں کریں گی، جو کہنا تھا اس میں مزید اضافہ نہیں کرنا چاہتیں۔
یہ پاکستان کی سیاست کا ایک نیا اور شاید تکلیف دہ رخ ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کی طرف سے ایسی کوشش ہوئی ہے۔ بانی پی ٹی آئی بارے تو یہ رپورٹ بھی ہوا ہے کہ وہ اس حق میں نہیں کہ آئی ایم ایف پاکستان کو قرض دے چونکہ بانی پی ٹی آئی کو انتخابی نتائج قبول نہیں ہیں اور وہ اسی لیے اب عالمی اداروں کو بھی پاکستان کی اندرونی سیاست میں مداخلت یا اپنا کردار ادا کرنے کے لیے اکسا رہے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انتخابی نتائج کے حوالے سے اگر کسی کو بھی اعتراضات ہیں تو اس کے لیے مناسب فورم موجود ہیں۔ کیا پاکستان تحریک انصاف نے وہ قانونی راستہ اختیار کیا ہے جو کسی بھی بے ضابطگی بارے فیصلہ کر سکے، کیا پی ٹی آئی نے ایسے تمام شواہد و ثبوت جمع کیے ہیں جس کی بنیاد پر وہ کسی بھی ایسے فورم پر رجوع کرنے اور موقف کو درست ثابت کر سکیں، اگر ایسا کوئی عمل نہیں کیا، قانونی راستہ اختیار نہیں کیا اور خود ہی ایک بیانیہ قائم کرنے اور پھر اس پر ڈٹ جانے کے بعد بیرونی دنیا کو بھی مداخلت کی دعوت دینا افسوسناک ہے۔ اگر کہیں کوئی اعتراض ہے تو اس کے لیے مناسب راستہ اختیار کرنا چاہیے نہ کہ سیاسی مخالفت میں اس حد تک آگے نکل جائیں کہ ملکی مفاد کو ہی بھول جائیں۔ آج آئی ایم ایف کو پاکستان کی مالی مدد سے روکنے والے کیا خود بتا سکتے ہیں کہ اپنے دور میں کتنے قرض لیے، کیا وہ قرض اس وقت کے حکمران خود اتاریں گے۔ بہرحال یہ ایسا وقت نہیں کہ کسی کو طعنے دئیے جائیں یا پھر ایسے معاملات میں بحث کے ذریعے وقت ضائع کیا جائے، ہمارے مسائل سنجیدگی کا تقاضا کرتے ہیں۔ ہمیں اپنے مسائل حل کرنے کے لیے سیاسی مخالفت کو ایک طرف کرنا ہو گا۔ انتخابات میں وہ آزاد امیدوار جو پی ٹی آئی کی حمایت سے کامیاب ہوئے ان کی بنیادی ذمہ داری ہے کہ وہ ملک و قوم سے وفا کریں۔ پاکستان کے معاشی حالات ایسے نہیں ہیں کہ ہر وقت سیاسی تماشا لگا رہے، کام رکے رہیں اور معیشت کمزور ہوتی رہے۔ اس لیے عالمی مالیاتی ادارے یا ایسی کسی بھی حرکت کی حمایت نہیں کی جا سکتی۔ بانی پی ٹی آئی جیل میں بیٹھ کر اگر ایسی حکمت عملی اختیار کرتے ہیں تو باہر بیٹھے افراد کو یہ ضرور دیکھنا چاہیے کہ کیا ایسی چیزیں ملکی مفاد میں ہیں۔ بیرسٹر علی ظفر نے اس حوالے سے بہت حوصلہ افزا بات کی ہے۔ انہوں نے ملک کے معاشی مسائل حل کرنے کے لیے آئی ایم ایف سمیت تمام اقدامات کی حمایت کا بیان دیا ہے۔ اسی طرح سلمان اکرم راجہ نے بھی ملک کے معاشی مسائل حل کرنے کے لیے سنجیدہ بات کی ہے۔ پاکستان میں سیاست کرنے والے اور بالخصوص پارلیمنٹ کا حصہ بننے والے ہر رکن کو ملکی مفاد کو سامنے رکھتے ہوئے اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔ سب کو یہ ضرور یاد رکھنا چاہیے کہ اگر زہریلی سیاست کا سلسلہ جاری رہا تو سب کچھ لپیٹا بھی جا سکتا ہے۔ باہر بیٹھے دشمن پاکستان میں استحکام نہیں دیکھنا چاہتے، بیرونی دشمنوں کی سازشوں کو ناکام بنانے کے لیے پارلیمنٹ کو اپنا کردار ادا کرنا ہے۔ پارلیمنٹ کو سیاسی جھگڑوں، سیاسی نعروں، سیاسی تقریروں تک محدود نہیں ہونا چاہیے بلکہ وہاں ملکی مسائل حل کرنے کی بات ہونی چاہیے۔ بیرسٹر گوہر آئی ایم ایف کو خط لکھنے کی حمایت کرتے ہوئے کہہ رہے ہیں یہ عمل ملکی مفاد میں ہو گا۔ قوم کو یہ بتا دیں کہ اس وقت ملک کا مفاد کیا ہے، کیا یہ ملکی مفاد میں ہے کہ عالمی اداروں کو اندرونی معاملات میں مداخلت کی دعوت دی جائے۔ ایسی بیان بازی سے بھی گریز کی ضرورت ہے۔ 
پنجاب میں حکومت سازی اگلے مرحلے میں داخل ہو چکی ہے۔مریم نواز شریف پنجاب کی وزیر اعلیٰ بن رہی ہیں ان کے سامنے بڑے اہداف ہیں، پنجاب ملک کا سب سے بڑا صوبہ ہے۔ مریم نواز کو اپنا وقت مخالف سیاسی جماعتوں کے بیانات کا جواب دینے کے بجائے کام کرتے ہوئے گزارنا چاہیے۔ بلکہ انہیں خاموش رہتے ہوئے سارا وقت کام کرنے کی ضرورت ہے، سیاسی مخالفین کو جواب دینے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ کارکردگی دکھائیں، عام آدمی کے مسائل حل کریں۔
ملک کے مختلف صوبوں میں مختلف سیاسی جماعتیں حکومت بنائیں گی۔ ان صوبائی حکومتوں میں بہتر کارکردگی کا مقابلہ ہونا چاہیے۔ سندھ میں پاکستان پیپلز پارٹی نے وزارت اعلیٰ کے لیے نامزدگی کر دی ہے۔ سندھ اور پنجاب کی حکومتوں کو ملکی مسائل حل کرنے کے لیے خیبر پی کے اور بلوچستان کے لیے مثال قائم کرنی چاہیے۔ اگر دو صوبائی حکومتیں بھی اپنی ذمہ داری نبھائیں تو وفاقی حکومت کا کام نسبتا آسان ہو جائے گا۔
آخر میں ڈاکٹر اجمل نیازی کا کلام
ڈاکٹر محمد اجمل نیازی
ہم  اکیلے  ہی  سہی شہر میں کیا رکھتے تھے 
دل میں جھانکو تو کئی شہر بسا رکھتے تھے 
اب  کسے دیکھنے  بیٹھے ہو لئے درد کی ضو 
اٹھ گئے لوگ جو آنکھوں میں حیا رکھتے تھے 
اس  طرح تازہ خداؤں سے پڑا ہے  پالا 
یہ بھی  اب یاد نہیں ہے کہ خدا رکھتے تھے
 چھین کر کس نے بکھیرا ہے شعاعوں کی طرح 
رات کا   درد زمانے سے بچا  رکھتے  تھے 
لے گئیں جانے کہاں گرم  ہوائیں ان کو 
پھول سے لوگ جو دامن میں صبا رکھتے تھے 
کل جو دیکھا تو وہ آنکھوں میں لئے پھرتا تھا 
ہائے وہ چیز کہ ہم سب سے چھپا رکھتے تھے 
تازہ زخموں سے  چھلک  اٹھیں  پرانی  ٹیسیں 
ورنہ ہم درد کا احساس  نیا  رکھتے  تھے 
یہ جو روتے ہیں لئے آنکھ میں ٹوٹے تارے 
اپنے چہرے پہ کبھی چاند سجا رکھتے تھے
 آج وہ شہر خموشاں کی طرح ہیں اجمل 
کل تلک شہر میں جو دھوم مچا رکھتے تھے

ای پیپر دی نیشن

 سکول میں پہلا دن ۔ دیدہ و دل

 ڈاکٹر ندا ایلی آج میری بیٹی کا سکول میں پہلا دن تھا ۔وہ ابھی بہت چھوٹی تھی ۔ مجھے سارا دن بہت پریشانی رہی ۔ پتہ نہیں اس نے ...