مسائل کا حل اور انتخابات 

حکومت سازی کے معاملے پر مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی میں اتفاق رائے پیدا ہو گیا ہے اور دونوں جماعتوں کے درمیان شراکت اقتدار کے فارمولے کے تحت مسلم لیگ ن کے شہباز شریف وزیراعظم اور صدر آصف علی زرداری صدر ہوں گے اور اسی طرح دیگر آئینی عہدوں پر بھی کچھ لو کچھ دو کی پالیسی کے تحت ذمہ داریاں تفویض کی جائیں گی۔یہ پاکستان کے مستقبل کیلئے خوش آئند ہے کیوں کہ عام انتخابات کے بعد ایک آئینی بحران پیدا ہو چکا تھا اور کوئی بھی جماعت ایوان میں واضح اکثریت لینے میں کامیاب نہیں ہو سکی اور اتحادی حکومت کی تشکیل سے ہی یہ آئینی بحران سلجھ سکتا تھا۔
دوسری جانب کچھ عناصر اس عام انتخابات کے انعقاد کو ابھی بھی مشکوک بنانے کیلئے ایڑی چوڑی کا زور لگا رہے ہیں اور کچھ لوگ تو گھر کے کپڑے چوک چوراہے پر دھونے کی باتیں کر رہے ہیں اور کچھ لوگ اپنے ایک نوالے کیلئے پورے ملک کو انتشار میں دھکیلنے کی باتیں کر رہے ہیں۔ہمیں دیکھنا ہو گا کہ کیا ہمارے ملک میں عام انتخابات پہلی بار ایسے ہوئے ہیں یا ماضی میں بھی انتخابات پر کوئی شکوک و شبہات کا اظہار کیا جاتا رہا ہے۔
1971 کے عام انتخابات کو پاکستان میں عمومی طور پر صاف و شفاف انتخابات مانا جاتا ہے لیکن ہمیں یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ ان عام انتخابات کے بعد ملک دو لخت ہوا۔پھر 1977 کے عام انتخابات پر اپوزیشن جماعتوں نے ایک تحریک شروع کی جس کا انجام مارشل لا کی صورت میں نکلا۔پھر 1988 کے عام انتخابات ہوئے تو آئی جے آئی اور پیپلز پارٹی کے درمیان محاذ آرائی دیکھنے کو ملی اور اگلے ایک عشرے میں چار انتخابات ہوئے اور کوئی بھی ایک جماعت جو ان انتخابات میں حکومت بنانے میں کامیاب ہوئی تو اپوزیشن نے اس پر دھاندلی کا ہی الزام لگایا۔2002،2008،2013 اور 2018 کے عام انتخابات پر بھی ایسے ہی الزامات لگائے گئے اور کسی بھی اپوزیشن جماعت نے اپنے مینڈیٹ کو ماننے سے انکار کیا اور کامیاب جماعت پر ہمیشہ دھاندلی کا الزام ہی لگایا گیا۔اب انتخابات کا انعقاد شفاف کس نے بنانا ہے تو بنیادی طور پر اس میں ہمارے سیاست دانوں کا ہی کردار سب سے اہم ہے کہ کسی ایک بھی سیاسی جماعت نے اقتدار میں آ کر ایسا میکانزم نہیں بنایا کہ الیکشن کے انعقاد پر ان سیاست دانوں کو کسی تیسری قوت کی جانب نہ دیکھنا پڑے۔
بدقسمتی سے اقتدار میں آ کر ہمارے سیاست دانوں نے چاہے ان کا تعلق کسی بھی جماعت سے رہا ہو انہوں نے اداروں کو مضبوط بنانے کیلئے کوئی ٹھوس اقدامات نہیں کئے۔ماضی کو بھلا کر اب آگے بڑھنا ہو گا اور ملک کو مشکل معاشی حالات سے نکالنے کیلئے ہمیں پاکستان کو پاکستان کی سیاست کو پاکستان کے اداروں کو مستحکم کرنا ہو گا کیوں کہ جب یہ سب مضبوط ہونگے تو ہمیں نہ آئی ایم ایف کی ضرورت رہے گی اور نہ ہی ہمیں کسی دوست ملک کی منت کرنی پڑے گی۔یہ سب کیسے مضبوط ہوں گے اس کیلئے ہمارے سیاست دانوں کو ایک سنجیدہ نقطہ نظر کو اپنا ہو گا۔میری پارٹی نہیں جیتی تو یہ ملک نہیں چل سکے گا، یا میری پارٹی کا لیڈر وزیراعظم نہیں بنا تو ملک تباہ ہوجائے گا، میری پارٹی کو اکثریت نہیں ملی تو جمہوریت نہیں چل سکے گی،مخلوط حکومت بنی تو جمہوریت تباہ ہو جائے گی اس طرح کے رویوں سے اب جان چھڑانے کا وقت آ چکا ہے کچھ ناعاقبت اندیش لوگ جو یہ کہہ رہے ہیں کہ ہم پاکستان کے عام انتخابات پر دھاندلی کے الزامات کی وجہ سے آئی ایم ایف کو خط لکھیں گے تو وہ اس سے اپنی سیاست تو چمکا لیں گے لیکن ملک کا جو نقصان ہو گا کیا انہوں نے اس بارے میں سوچا ہے۔کیا لوگوں نے ان جماعتوں کو اس لئے ووٹ دیئے۔
 اب یہ وقت ملک میں منافرت پھیلانے کا یا ملک میں انتشار کو ہوا دینے کا نہیں ہے اور کبھی بھی شخصیات ملک سے یا اداروں سے یا پارٹیوں سے بڑی نہیں ہوتی اور ملک ہمیشہ اپنی پالیسیوں پر اپنے طور طریقوں سے جانے جاتے ہیں اور اپنے ارادوں سے آگے بڑھتے ہیں اور ان ارادوں کو سیاست دان ہی پایہ تکمیل تک پہنچاتے ہیں۔اس لئے اداروں پر الزام تراشی کا سلسلہ اب بند ہو جانا چاہیے اور ملک کی خاطر اب ایک دوسرے کا ہاتھ تھامنا چاہیئے۔میں اس کالم کے ذریعے یہ ضرور کہنا چاہوں گا کہ پی پی اور ن لیگ نے شراکت اقتدار کیلئے جو فارمولہ بنایا ہے اور پی پی نے وفاقی کابینہ کا حصہ نہ بننے کے باوجود جو وزیراعظم کے امیدوار کو ووٹ دینے کا فیصلہ کیا ہے اس کا احترام کیا جانا چاہیے اور سیاست میں ویسے بھی ہمیشہ مذاکرات کا دروازہ کھلا رکھنا چاہیے اور سیاسی رویوں میں اور فیصلہ سازی میں لچک ضرور ہونی چاہئے اور سیاست کو کبھی بھی بند دروازوں میں نہیں دھکیلنا چاہئے کہ جس سے نکلنے کا راستہ ہی نہ ملے۔اداروں کو ان کے حصے کا کام کرنے دینا چاہیے اور سیاست دانوں کو جو ہمارا آئین ذمہ داری دیتا ہے انہیں وہ نباہنی چاہئے۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمارے ملک میں وسائل بھی موجود ہیں، عددی قوت بھی میسر ہے اب بس ایک اچھی گورنس اور اچھی منصوبہ سازی کی ضرورت ہے جو آنے والی حکومت کا پہلا بڑا امتحان ہو گا کہ وہ ان مشکل حالات میں جب پاکستان کے نوجوان مایوسی کی جانب جا رہے ہیں ور ملک سے برین ڈرین کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے اس کو روکنا ہے کیوں اقوام عالم میں ہماری بات تب سنی جائے گی،ہماری پہچان ہماری عزت تب ہو گی جب ہم معاشی طور پر خوش حال ہونگے اور وہ اسی صورت ممکن ہے جب ہم میں ہر فرد اپنی ذمہ داری کو پورا کرے گا اور ملک کا سوچ کر آگے بڑھے گا اور وہ اسی صورت ممکن ہے جب ہماری اشرافیہ، سیاست دان ہمارے حکمران ایک دوسرے پر الزام تراشیاں کرنے کی بجائے مسائل کا حل ڈھونڈ کر ان مسائل کو ختم کر ے کی کوشش کریں گے۔

ای پیپر دی نیشن

 سکول میں پہلا دن ۔ دیدہ و دل

 ڈاکٹر ندا ایلی آج میری بیٹی کا سکول میں پہلا دن تھا ۔وہ ابھی بہت چھوٹی تھی ۔ مجھے سارا دن بہت پریشانی رہی ۔ پتہ نہیں اس نے ...