قومی اسمبلی: نازیبا الفاظ، مستی خیل کی رکنیت معطل، حکومتی ارکان کا احتجاج: پی پی کا بائیکاٹ ختم

اسلام آباد (نمائندہ خصوصی+ نوائے وقت رپورٹ)   قومی اسمبلی کے سپیکر ایاز صادق نے اپوزیشن رکن ثنا اللہ مستی خیل کو وزیر دفاع خواجہ آصف کے متعلق نازیبا الفاظ بولنے پرموجودہ سیشن کیلئے معطل کردیا۔ قومی اسمبلی کے اجلاس میں ثنا اللہ مستی خیل نے خواجہ آصف کو مخاطب کرکے نازیبا الفاظ ادا کیے۔ اس پر ایوان میں ہنگامہ آرائی ہوئی اور حکومتی ارکان نے احتجاج کیا۔ ڈپٹی اسپیکر نے ثنا اللہ مستی خیل کے غیر پارلیمانی الفاظ حذف کر دیے اور رولنگ دی کہ ایسی بات نہ کریں کہ مجھے آپ کا سپیکر بند کرنا پڑے۔ اس کے علاوہ مستی خیل نے کہا کہ خواجہ آصف بات کرتے ہیں تو ہمیں رونا آتا ہے، آپ تو ایجنسیوں سے پیسے لے کر ایوان میں آتے رہے ہو۔ بعدازاں اسپیکر چیمبر میں مسلم لیگ (ن) کی خواتین نے ثنا اللہ مستی خیل کے خلاف احتجاج کیا اور مطالبہ کیا کہ ثنا اللہ مستی خیل کو مکمل سیشن کیلئے معطل کیا جائے۔ سپیکر قومی اسمبلی نے ثنا اللہ مستی کی معطلی کی تحریک پیش کی۔  سپیکر نے رولنگ دی کہ 2002 سے اس ایوان کا رکن ہوں کبھی اس طرح کے الفاظ مائیک پر ادا نہیں کیے گئے۔ سپیکر نے ثنا اللہ مستی خیل کو موجودہ سیشن کیلئے معطل کردیا۔قائد حزب اختلاف عمر ایوب خان کے کہنے پر اسمبلی میں ضلع کرم میں شہید پانچ سپاہیوں کے ایصال ثواب کے لئے  دعائے مغفرت کرائی گئی۔  قائد حزب اختلاف عمر ایوب نے کہا ہے کہ چین کی اعلی ترین قیادت نے پاکستان میں کہا کہ چینی ماہرین کی زندگیوں کو خطرات دراصل سی پیک کی سرمایہ کاری کے لئے خطرہ ہیں ، چینی قیادت کی طرف سے اس حدتک سیکیورٹی خطرہ  بتانا خطرناک ہے، آرمی چیف فوری کورکمانڈرز کانفرنس بلائیں جو صرف چینی شہریوں اور ماہرین کی سیکیورٹی پر ہونی چاہیے، نکتہ اعتراض پر انہوں نے کہا کہ چینی عہدیدار کی جانب سے پاکستان میں آکر یہ پیغام دینا، اس سے بات سمجھ آتی ہے کہ یہ سب سے اہم بات ہے، اپنا گھر درست کریں، ورنہ سی پیک اور مستقبل کی سرمایہ کاری خطرے میں ہے۔ میں مطالبہ کروں گا کہ  فوری طور پر کور کمانڈر، فارمیشن کمانڈرز کانفرنس بلائی جائے اور اس انٹیلی جنس ناکامی کی وجوہات کا پتا لگایا جائے کہ یہ کیوں ہوا۔ انہوں نے کہا کہ  پی ٹی آئی کے احتجاج پر پنجاب سے سو سے زائد کارکنان گرفتار، مقدمات درج کئے گئے ہیں، آئی جی پنجاب کے خلاف ایکشن لیا جائے۔
اسلام آباد  (نمائندہ خصوصی)  قومی اسمبلی میں بجٹ پر عام بحث میں حصہ لیتے ہوئے حکومت اور اپوزیشن تعلق رکھنے والے ارکا قومی اسمبلی نے کہا ہے کہ آئی پی پیز کے ساتھ معاہدوں پر نظر ثانی کی جائے۔ ملک کا قرض اتارنے کے لیے پاکستان کے رہنما نواز شریف، عمران خان اور آصف زراری، مولانا فضل الرحمٰن صاحب سمیت تمام اراکین پارلیمنٹ اپنی جیبوں سے جمع کرائیں۔ چین، افغانستان اور ایران کے بارڈرز پر اکنامک کوریڈورز بنائے جائیں، تنخواہ دار طبقے کی بجائے صاحب ثروت طبقات پر ٹیکسوں کابوجھ ڈالا جائے، نو مئی کے ملزمان کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے اور باہر پھرنے والے ماسٹر مائنڈز کو فوری طور پر گرفتار کیا جائے تاکہ کسی کو پاکستان کو میلی آنکھ سے دیکھنے کی جرات نہ ہوں، کے پی کے  کو  پن بجلی کی قیمت کے حساب سے بجلی فراہم کی جائے، قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرنے والوں میں  مسلم لیگ ن کیحنیف عباسی ،سابق سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر ،ایم کیو ایم کے مسطٖی کمال،عبدالقادر پٹیل ،سردار یوسف،مرزا اختیار بیگ،انجئنر امیر مقام ،شرمیلا فاروقی،اور دیگر شامل تھے۔ ایم کیو ایم رکن قومی اسمبلی مصطفی کمال نے خطاب میں کہا کہ کمائی کا 51 فیصد صرف سود پر چلا جائے گا تو وہ ملک نہیں چل سکتا، پی ٹی آئی والے تو ریاست مدینہ کی بات کرتے ہیں مگر سود پر خاموش ہیں، آئی پی پیز کے ساتھ معاہدوں پر نظر ثانی کی جائے۔اکنامک ایمرجنسی نافذ کی جائے۔ پیپلز پارٹی  کے قومی اسمبلی مرزا اختیار بیگ نے کہا ہے اس بجٹ میں گروتھ نہیں ہے صرف ریونیو کی بات کی گئی ہے۔ ایکسپورٹرز نے ٹیکس رجیم میں جانے کے بجائے ڈیڑھ فیصد ٹیکس تجویز دی ہے۔ فاقی وزیر برائے امورکشمیر و گلگت بلتستان انجینئر امیر مقام نے کہا  کہ پی ٹی آئی نے چار برسوں تک خیبرپختونخوا کے حقوق کو نظر انداز کئے رکھا،  وفاقی وزیر انجینئر امیر مقام نے کہا کہ کے پی کے میں 10 سال ان کی حکومت رہی وہاں کونسی شہد کی نہریں بہہ رہی ہے۔ تنخواہ دار طبقے کی بجائے صاحب ثروت طبقات پر ٹیکسوں کابوجھ ڈالا جائے، نو مئی کے ملزمان کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے جائے۔ پاکستان کی تباہی کے دھانے کی بنیاد 2018 میں رکھی گئی، چار برسوں میں جس طرح قرضوں کا بھرمار کیا گیا اس کی ملک کی 76 سالہ تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔  سی پیک دوبارہ بحال ہو رہا ہے، سعودی عرب، قطر اور یو اے ای کی جانب سے اربوں ڈالرکی سرمایہ کاری آرہی ہے، مگر جب بھی ملک ٹیک آف کی پوزیشن پر آجاتا ہے تو ایک سازش شروع کی جاتی ہے۔ سنی اتحاد کونسل کے رکن اور سابق سپیکر اسد قیصر نے کہا ہے کہ چین، افغانستان اور ایران کے بارڈرز پر اکنامک کوریڈورز بنائے جائیں، ہم امن چاہتے ہیں اور تجارت کرنا چاہتے ہیں۔ ہمیں ہماری پن بجلی کی قیمت کے حساب سے بجلی فراہم کی جائے ۔ ہم افغانستان کے ساتھ بات کرنے کے لیے تیار ہیں۔ پاکستان پیپلزپارٹی کے رکن قومی اسمبلی عبدالقادر پٹیل نے کہاکہ پی ٹی آئی کے چار برسوں میں تو آئی ایم ایف کے منہ پر قرضہ مارنے کی بات نہیں کی۔ عمران خان خود پی ٹی وی سے چپک گئے تھے اب کہتے ہیں کہ پی ٹی وی کون دیکھتا ہے، سائیکل پر آنے والے نے ہیلی کاپٹر لے لیا۔  انہوں نے کہاکہ انکم ٹیکس کی بجائے ویلتھ ٹیکس ہوناچاہئیے۔ سردار محمد یوسف نے کہا ہے کہ سود کے خاتمے اور قرآن و سنت کا نظام لائے بغیر معیشت بہتر نہیں ہو سکتی۔   سود سے چھٹکارے کے لیے مل بیٹھ کر سوچ بچار کر کے فیصلہ کریں تو انشائاللہ اس کا حل نکل ائے گا۔  شرمیلا فاروقی نے کہا ہے کہ وزیراعظم شہباز شریف ملک کو سیاسی اور معاشی استحکام دینا چاہتے ہیں ۔ سیاسی اور معاشی بحرانوں سے نجات دلانا چاہتے ہیں۔
 علاوہ ازیں  وفاقی وزیر  منصوبہ بندی احسن اقبال نے کہا ہے کہ سوات میں مشتعل ہجوم کے ہاتھوں ایک اور شہری کے قتل کا واقعہ پیش آیا ہے، اس کے نتیجے میں آج پوری دنیا میں پاکستان کی جگ ہنسائی ہو رہی ہے، پارلیمنٹ کی ایک کمیٹی بنائی جائے جو ہجوم کے ہاتھوں قتل کے واقعات کے محرکات کا جائزہ لے کر قومی لائحہ عمل دے کہ ہم کس طرح سے معاشرے میں قانون کی بالادستی نافذ کریں۔قومی اسمبلی اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ  خاص طور پر ہمارے ہمسائے ملک بھارت میں جہاں مسلمانوں کو بھی ہجوم کی جانب سے تشدد کا نشانہ بنایا جا تا ہے، اس کا میڈیا بھی ہمارا مزاق اڑا رہا ہے۔ یہ ایک تسلسل ہے۔احسن اقبال نے کہا کہ میری اس ایوان سے یہ گزارش اور استدعا ہے کہ ہمیں اس واقعہ کا نوٹس لینا چاہیے کیونکہ ہمارا معاشرہ تباہی کے ایسے دہانے پر پہنچ چکا ہے جہاں دین کے نام کو استعمال کر کے اسٹریٹ جسٹس، موب لنچنگ کے ذریعے ائین، قانون اور ریاست کے تمام بنیادی اصولوں کو اپنے پیروں تلے روندتے ہیں۔وفاقی وزیر نے کہا کہ کتنے افسوس کی بات ہے کہ اسلام جس نے ہمیں یہ تعلیم دی کہ کافر کی لاش کی حرمت کا احترام کیا جائے، ہم نہ صرف موب لنچنگ سے لوگوں کو مارتے ہیں بلکہ ان کی لاشوں کو اگ لگا کر تماشہ دیکھتے ہیں۔ جبکہ ہم جنگ کے اندر بھی کسی کی لاش کی بحرمتی نہیں کرسکتے۔اگر ہم نے اس کا نوٹس نہیں لیا تو یہ انکارکی ہمارے ملک کے اندر ہمیں جلا دے گی۔ کیا کبھی کسی نے اس بات کا بھی سوچھا ہے کہ نبی پاک ﷺ نے کہا کہ جو ملاوٹ کرتا ہے، وہ ہم میں سے نہیں، ہم نے جو دین کو استعمال کیا ہے۔ میں معاشرے میں غندہ گردی کے لیے، میں سمجھتا ہوں کہ علما کا فرض ہے کہ وہ اس کا نوٹس لیں اور خاص طور پر اس ایوان کی ایک کمیٹی بنائی جائے جو ان تمام واقعات کے محرکات کا جائزہ لے کر ایک قومی لائحہ عمل دے کہ ہم کس طرح سے ایک مہذب معاشرے کے طور پر قانون کی بالادستی کو نافذ کریں۔

ای پیپر دی نیشن