داستان ِ محبوب

محبوب کی حقیقی تعریف کیا ہے؟ جس جس سے پوچھیں گے وہ آپ کو مختلف ہی بتائے گا۔”داستانِ عشق“ کے اوراق پلٹیں تو لیلی مجنوں، ہیر رانجھا، مرزا جٹ، سسی پنوں غرضیکہ رومیو جیولیٹ تک کسی ایک کی شخصیت، خوبصورتی، نین نقش، حسن و جمال دوسرے سے نہیںملتی، یہی نہیں دنیا بھر کے عاشق مزاج، دل پھینک شعراءکی بھی تلاشی لے لیں وہاں بھی کچھ ایسا ہی دکھائی دے گا۔ کسی کا محبوب ہرگز دوسرے جیسا نہیں ملے گا، تاہم پڑھے لکھے، صاحب رائے اسے بھی اپنے اپنے انداز میں مختلف حدود، قیود میں پابند کرتے بھی دکھائی دیتے ہیں لیکن حتمی رائے اور فارمولا ایک ہی ہے کہ ”دل گدھی پر آ جائے تو ”پری“ کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔ اس تناظر میں اگر دیکھا جائے، پرکھا جائے تو یہ سارا گورکھ دھندادل کا معاملہ ہے لیکن پھر بھی کچھ شخصیات ایسی ہوتی ہیں جن کا دل ہر روز دوسرے کے لیے مچلتا ہے۔ ان منچلوں کے لیے دل پھینک اور بھونڈ عاشق کے الفاظ استعمال کئے جاتے ہیں جنہیں معاشرہ بھی کوئی اہمیت نہیں دیتا۔ پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ محبوب قدرت کی عطا ہوتی ہے کہ آدم زادے خود بناتے ہیں اس پر بھی حتمی رائے موجود ہے کہ جو کسی کو محبوب ہوتے ہیں یا ہو جاتے ہیں ان کی نہ صرف قدرومنزلت بہت زیادہ ہوتی ہے بلکہ انہیں قربانیاں بھی زیادہ دینی پڑتی ہیں جبکہ دوسرے یعنی بنائے جانے والے ”محبوب“ دنیاوی مفادات یا پھر حالات کے تابع ہوتے ہیں۔ اور اسی بہاﺅ میں اکثر اوقات حالات کے سونامی میں دور نہیں کہیں دور نکل جاتے ہیں اور یاد بھی نہیں رہتے کہ کدھر سے آیا کدھر گیا؟ یہ عشق مجازی کی کہانیاں ہیں اگر عشق حقیقی کا جائزہ لیں تو حضرت انسان کی عقل دنگ رہ جائے گی کیونکہ” آدمی کو میسر نہیں انساں ہونا“ آدم زادے تو صرف اس گھمنڈ میں اتراتے پھررہے ہیں کہ وہ ”اشرف المخلوقات“ ٹھہرائے گئے ہیں ان جیسا کوئی نہیں، وہ بھول بیٹھے ہیں کہ اگر انہیں افضلیت قدرت نے بخشی ہے تو کچھ نیا بھی تو کر کے دکھائیں اپنی خداداد صلاحیتوں کی ایسی زکوة نکالیں کہ وہ دوسروں کے لیے مشعل راہ بن سکے۔ ہر کلمہ گو اس راز سے واقف ہے کہ زکوة کا مقصد ہی فلاحی معاشرہ کی بنیاد ہے۔ پھر بھی ہم نہ مال کی زکوة خیرات نکالنے میں پہل کرتے ہیںنہ ہی مالک کائنات کی دی ہوئی صلاحیتوں کی، حالانکہ حقیقی طور پر کامیابی وکامرانی اور چراغ سے چراغ جلانے کا بہترین راستہ ہے۔ لیکن ایسا صرف اسی صورت ہو سکتا ہے جب کسی میں جذبہ ایثار و قربانی ہی نہیں، دھرتی ماں اور اس میں بسنے والوں سے اس قدر محبت ہو کہ ٹوٹ کر چاہتے ہوں۔ یہ عشق یکطرفہ ہی ہوتا ہے اور ایسے عاشق کسی مفاد ، مال و زر کے تمنائی بھی نہیں ہوتے ، صرف پیار اور پذیرائی کے طالب ہوتے ہیں۔ ایسے ایک محبوب کے شکار ہم بھی ہیں حالانکہ ہم جانتے ہیں کہ یہ صرف ہمارا نہیں، بلکہ پاکستان اور برصغیر کا ایک منفرد محبوب ہے اور اس مرتبہ حکومت پاکستان نے بھی اسے ”تمغہ¿ حسن کارکردگی“ دے کر اپنا بنانے کا اعلان کر دیا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ کیسا محبوب ہے کہ اس کے چاہنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا ہے،ہمیں خوشی ہوتی ہے کہ اس کی صلاحیتوں کی زکوة دربار خداوندی میں مقبول ہو گئی۔ یہ شخصیت برسوں سے مجھے محبوب ہے اور یہی دعویٰ اس کا بھی ہے بلکہ زندگی بھر بلا امتیاز ہم دونوں اس کا اظہار بھی کرتے رہے ہیں۔
یہ شخصیت نام اور کام دونوں اعتبار سے محبوب ہے۔ سروقد، اعلیٰ صلاحیتوں کے مالک اس بچے نے جب 9مئی 1951ءکو عبدالغنی اور حمیدہ بیگم کے گھر جنم لیا تو اسے محبوب علی کی پہچان دی گئی۔ یوں اس کے اپنے پرائے سب ”محبوب“ کے سوا کچھ کہنا بھی چاہیں تو نہیں کہہ سکتے، اس کی خداد اد صلاحیتوں کو نیشنل کالج آف آرٹس لاہور نے ایسی جلا بخشی کہ پھر اس نے آرٹ اور مصوری کو ہی اپنا ”محبوب“ بنا لیا۔ اس نے دنیا سے بے خبر ہو کر اسے ایسی محبت ثابت کیا کہ آج اسے اپنے کام کے حوالے سے منفرد مقام حاصل ہے۔ خطاطی، وڈکٹ، مصوری، آئل پینٹنگ، سیٹ ڈیزائننگ میں بے تحاشا کام کیا لیکن ”وڈکٹ“ میں ان جیسا اور معیار و تعداد میں کوئی دوسرا نہیں کر سکا تاہم جس شعبے میں بھی قدم رکھا، کامیابیوں نے قدم چوما اور انہوں نے کبھی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ جو کام کیا اس میں رچ بس گئے ۔”وڈکٹ“ میں بلیک کے ساتھ سینکڑوں انداز میں رنگوں کا استعمال محبوب علی کو دوسروں سے علیحدہ کر دیتا ہے اب تک ہزاروں شاہکار داد حاصل کر چکے، سینکڑوں ورکشاپس میں نئے لوگوں کو گُر سکھا چکے۔ درجنوں نمائشوں میں پذیرائی کے بعد صدر پاکستان نے بھی ان کی فنی خدمات کے اعتراف میں صدارتی ایوارڈ برائے حسن کارکردگی عطا کیا۔ ان کے فن اور شاہکاروں کے حوالے سے ممتاز آرٹسٹ پروفیسر ڈاکٹر شوکت محمود المعروف میکسم نے ایک انتہائی خوبصورت اور دیدہ زیب شاہکار کتاب "Five Decades of Excellence" 208صفحات پر مشتمل مرتب کی ہے اس میں محبوب علی کے شاہکاروں کے ساتھ دنیائے آرٹ کے انتہائی اہم لوگو ں کے تاثرات بھی موجود ہیں اسے جس سلیقے اور طریقے سے چغتائی پبلک لائبریری نے شائع کیا ہے اس نے شہر کے بڑے پبلشرز کو ما ت دے دی ہے۔ محبوب علی نے سیٹ ڈیزائننگ میں بھی بہت کام کیا۔ پی ٹی وی کی ڈرامہ سیریز ”الف لیلی“ ان کی محنت کا ثبوت ہے انہیں لاہور اور اپنے بال بچو ں سے والہانہ محبت ہے۔ زندہ دلوں کے شہر کا ہر تہوار ”تاریخی گلی محلہ“ان کے شاہکاروں میں نمایاں ہے جبکہ خوبصورت اور یادگار ڈاکٹر سہیل کی پبلش کتاب کو محبوب علی نے والد، والدہ، مختار بیگم، بیٹی ڈاکٹر سائرہ ،سمیرا اور بیٹے منیب محبوب کے نام منسوب کی ہے۔ بال بچوں سے محبت لافانی جذبہ ہے اس عمر میں ”بال“ بے وفائی کر گئے اور اب وہ فارغ البال ہیں تاہم جہاں ہیں جیسے ہی کی بنیاد پر ”آرٹ لورز“ ان سے بے پناہ محبت کرتے ہیں۔ دیکھا جائے تو ایوارڈز، انعامات سے زیادہ حقیقی سرمایہ پرستاروں کا پیار ہی ہوتا ہے ایسے میں اگر ”فنکار“ کی پذیرائی حکومتی سطح پر ہو جائے تو پھر خوشی ناقابل بیان ہو جاتی ہے۔ محبوب علی ایک خالص، حقیقت پسند محنتی فنکار کی حوصلہ افزائی اس جیسے بہت سے فنکاروں کی قدر و منزلت میں اضافہ کرےگی۔ ”دیر آید درست آید“ لیکن حکومتی سطح پر آرٹ اور کلچرل سے منسلک اداروں کو ہی نہیں، تمام شعبہ جات میں موجود کمٹمنٹ کے ساتھ محنتی کام کرنے والے لوگوں کی حوصلہ افزائی ضروری ہے۔ یہ لوگ خاص لوگ ہوتے ہیں ہر کسی میں اس قدر صلاحیتیں ہرگز نہیں ہوتیں، ایسے فنکاروں اور شاہکاروں کے بارے میں احمد ندیم قاسمی کہتے ہیں 
جس بھی فنکار کا شہکار ہو تم
اس نے صدیوں تمہیں سوچا ہو گا

ای پیپر دی نیشن