معاشی تحریک ''کس کس کو سنائیں ہم اس درد کا افسانہ''

دانش …طاہر عباس
Tahirabbasisb@gmail.com

عید الاضحیٰ میں قربانی سنت حضرت ابراہیم علیہ السلام ہے۔ اس سنت کو دین اسلام میں ایثار و قربانی اور خلوص کی مشق میں بطور ذبیحہ ایک مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ عید قربان قریب آتے ہی ایک خاص نام نہاد دیسی لبرل طبقہ اس بات پر بڑا زور دیتا ہے کہ یہ معصوم جانوروں کا قتل عام بند ہونا چاہیے۔ کوئی یہ منطق گھڑ لاتا ہے کہ اس سے جانوروں کے حقوق صلب ہوتے ہیں۔ کوئی کہتا ہے کہ اس کی جگہ غریب کی مالی امداد کی جائے۔ کوئی واٹر کور لگوانے کی تجویز پیش کرتا ہے۔ دین اسلام مکمل ضابطہ حیات ہے۔ وہ زندگی کے عقلی شعور کی تکمیل کرتا ہے، وہ جامع ہے۔ یہ دین اصولوں کے خاص نظام کے تحت انسان کے سارے مسائل کا حل پیش کرتا ہے۔ وہ مسئلہ سیاسی ہو اخلاقی ہو، سماجی ہو یا چاہے معاشی مسئلہ ہی کیوں نہ ہو …!! حج کے موقع پر کی گئی قربانی کے اعداد و شمار پر تفصیلی سٹوری لکھی جا سکتی ہے۔ دنیا کے مختلف معاشی ادارے اپنی رپورٹس مرتب کر رہے ہیں۔ ہمارے پاس بھی کوئی مکمل درست اعداد و شمار موجود نہیں ہیں۔ تاہم منڈیوں سے حاصل کیے گئے ٹیکس، شہروں میں داخل ہونے والے جانوروں تعداد گاڑیوں کی آمد و رفت، ویکسینیشن، چرم ہائے قربانی، کے ذریعے جو ڈیٹا مرتب ہوا ہے، اس میں پاکستان ٹینرز ایسوسی ایشن کا ڈیٹا ملاحظہ فرمائیے۔ اس ڈیٹا میں ریسٹورنٹس جو روسٹ اور پکوائی کرتے ہیں، گھر کہ باہر مشین لگا کر قیمہ بنانے والے، سری پائے بنانے والے، جانوروں کے سروں کو حنوط کرنے والے اس کے ساتھ سیخ کباب کوئلہ اور دیگر کئی چیزوں کو شامل نہیں کیا گیا ہے۔پاکستان ٹینرز ایسوسی ایشن کی رپورٹس کے مطابق،رواں برس 2024عیسوی بمطابق 1445 ہجری پاکستان میں تقریباً 6.8 ملین یعنی 68 لاکھ جانوروں کی قربانی کی گئی ہے۔ان میں تقریباً 28 لاکھ گائے، 33 لاکھ بکرے، 4 لاکھ بھیڑیں، ڈیڑھ (1.5) لاکھ بھینسیں (بھینسا اور کٹا وغیرہ) اور ایک لاکھ اونٹ شامل ہیں۔صرف گائے کی قربانی کی فروخت 4کھرب بیس ارب روپے کی ہے,قصائیوں کا بل 33 ارب سے زائد چارہ تقریبا 10 ارب، گاڑیوں کا کرایہ قریب بائیس ارب روپے ہے،یعنی صرف گائے گائے کی مد میں ، شہروں سے دیہات کو منتقل ہونے والا سرمایہ قریباً پانچ 500 ارب روپے ہے اور یاد ریے کہ اس حساب میں میں نے گائے کی قیمت صرف ڈیڑھ لاکھ فی گائے شمار کی جو کمترین ہے۔ وگرنہ منڈیوں میں دو اڑھائی لاکھ کی گائے عام بکی اور بڑی صحت مند اور خاص نسل کی گائے تو لاکھوں میں فروخت ہوئی ہے۔
 بکروں کا اندازہ 33 لاکھ سے اوپر کا ہے اگر فی بکرا اوسط س60 ہزار کی لگائی جائے کہ جس میں آمد و رفت چارہ ، قصائی سب شامل ہیں تو اس کا اندازہ 231 ارب روپے کے قریب ہے۔جب کہ ایک لاکھ اونٹ الگ ہیں جن کا اندازہ تیس ارب روپے ہے اور یہ ریٹ کم کم لگائے ہیں.یہ کہا جا سکتا ہے کہ 900ارب روپے کی یہ منتقلی ہے۔ اندازہ کیجئے امیروں کی جیب سے غریبوں کی جیب میں سے نو سو ارب روپے منتقل ہوئے اور 9 کھرب اور یہ ریٹ اگر میرٹ پر لگائے جائیں تو یہ رقم شائد بڑھ کر گیارہ بارہ ںسو کھرب روپے ہو جائے۔پاکستان بھر میں 20 فیصد لوگ بھی قربانی نہیں کر پاتے۔ اگر یہ نمبر 50 تک پہنچ جائے تو، یہ اعداد و شمار کہاں تک جائیں گے اس کی صوا بدید قارئین کے سپرد کرتا ہوں۔ ہمارے دیسی لبرلز ہوں یا اشرافیہ کے چیلے منشی وہ حکمرانوں کی طرح غریب کے دشمن ہی رہے ہیں۔ ان سے پاکستان میں قائم ہونے والے پہلے ہیومن ملک بینک ( عورتوں کے دودھ کے بینک) کے بارے میں رائے لیجیے۔ ان کے لچھن اپ دیکھتے رہے اب مزید دیکھیے۔ ان سے عورت مارچ کروا لیجیے۔ کتا بچاو مہم کروا لیں اس پر فنڈنگ ہوگی۔ دین کے شعائر کا مذاق اڑوا لیں۔ ننگ دھڑنگ ڈریس کمپٹیشن اور جدید مغرب پرست روشن خیالی پر کوئی سمینار منعقد کروا لیں۔ یہ لوگ وفاقی دارالحکومت کے بعدخصوصاًپنجاب اور سندھ میں بہت سرگرم ہیں۔ ان کو کوئی خبر کرے،کہ اس چمنستان روشن خیالی سے اپ نے کیا حاصل کیا ہے اب لوٹ کر آئیے۔ آپ دین اسلام کی طرف رجوع کیجیے۔دین اسلام سرمائے کی منصفانہ تقسیم پر زور دیتا ہے۔ اس کا معاشی نظام یہ مشق کرواتا ہے کہ امیر سے پیسہ غریب کی طرف آئے۔ 
یہ اعداد و شمار صرف پاکستان کے ہیں۔ دنیا کے ستاون اسلامی ممالک نے سمٹتے ہوئے سرمائے کی اس دنیا میں کتنا پیسہ امیروں سے لے کر غریبوں کی جیبوں میں منتقل کیا ہے۔ یہ عالمی سطح پر سالانہ ایک بہت بڑی معاشی تحریک ہے۔

ای پیپر دی نیشن