لیڈر وعدہ خلافی نہیں کرتا
ہمارے اکثریتی افلاطونی اور الہامی تجزیہ نگار اور سیاسی نجومی حسب معاہدہ رائے عامہ گمراہ کرنے کے لیے حکومتی خاتمے کی تاریخوں پر تاریخیں دیتے رہے اور ان میں سے بعض تو اپنے یو ٹیوب چینلوں پر حکومتی حلیفوں کی مبینہ کرپشن کی مبینہ داستانیں تک سناتے رہے مگر سب کچھ بے اثر اور بے سود رہا بلکہ اکثریت کو ایسی منہ کی کھانا پڑی اور اب شرمسار نظر آتے ہیں کیونکہ دکانداری بھی نہ چمک سکی اور دانشوری بھی سوشل میڈیائی چینلوں نے لپیٹ دی ہے یہ پہلی بار نہیںہوا ایسے تجزیہ نگاروں کی کلا بازیاں روایتی اور پرانی ہیں جبکہ ہمیشہ منہ کی کھائی ہے مگر تیر تکے لگانے سے باز نہیں آتے ۔۔حیرت ہے بھول کیسے جاتے ہیں کہ سیاسی میدان سراب جیسا ہے جہاں جو نظر آتا ہے وہ ہوتا نہیں ہے اور اگلے لمحے کیا ہو جائے کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا۔ گزشتہ دو برسوںکے دوران ملک و قوم جن بحرانوں کی زد میں رہے اور عوامی ریلیف کے لیے جو کام کیے گئے وہ کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں مگر حکومتی حلیف اور وزراء تمام حکومتی وسائل کو اپنی نام نہاد دو سالہ کارکردگی بتانے کے لیے جس تندہی کے ساتھ مصروف ہیں وہ بھی حیرت کا نشان ہے بلکہ ایک کتابچہ بھی جاری کر دیا گیا ہے ۔ اخبارات میں اشتہار دیا گیا تھا کہ ’’ہم مصروف تھے ‘‘ دوسرا سال کرونا جیسے مہلک وبائی مرض میں گزر گیا کہ چار ماہ باقی بچے ہیں اگرچہ اس پورے عرصہ میں ارکان اسمبلی سمیت تمام عہدے داران بھی منظر سے غائب رہے اور کوئی نظر آتا تو سوال سن کر مراقبے میں چلا جاتا اور یہی کہتا تبدیلی آئے گی ۔۔۔!پھر بھی اگرگذشتہ دو برسوں کا جائزہ غیر جانبداری سے لیں تو وزارتوں اور عہدوں کی تبدیلیاں ، وزراء اور حلیفوں کی رنجشیں ، کرپشن الزامات ،اداروں کی بندش ، ہوشربا مہنگائی ،بیروزگاری میں اضافہ ،لوڈ شیڈنگ ،آٹا ،چینی اور دیگر بنیادی چیزوں پر منافع خورمافیا کی ہٹ دھرمیاں ، من مانی سرگرمیاں ، جائز و ناجائز ٹیکسوں کی بھرمار پر غورو فکر کرنے کے سوا کچھ نہیں ملتا ۔ الغرض پی ٹی آئی نے تاحال ایسا کوئی کام نہیں کیا جو کہ ان کا منشور میں شامل تھاالبتہ اگر حکومت کی جانب سے کرونا وائرس پر قابو ہونے کا دعوی سچا ہے تو یہی ایک بڑی کامیابی نظر آتی ہے جس کے سہارے حکومت شاید آئندہ تین برس کاٹ سکتی ہے ۔بعض تجزیہ کار کہہ رہے ہیں کہ اب تبدیلی سرکار بیانیہ نہیں داغ سکتی کہ ہم پچھلی حکومتوں کا بویا ہوا کاٹ رہے ہیں کیونکہ دو برس ایک بڑی مدت ہوتی ہے جو کہ سیکھنے اور اپنی سمت درست کرنے کے لیے کافی ہے ۔جیسا کہ ایک استاد نے شاگرد سے پوچھا کہ جس آدمی کو سنائی نہیں دیتا اسے انگریزی میں کیا کہیں گے تو اس شاگرد نے کہا اسے جو مرضی کہہ دیں اسے کونسا سنائی دے گا اسی طرح اکثر سیاسی افراد کو ویسے ہی سنائی نہیں دیتا اس پر حالت یہ ہو کہ ایک مجرم کو جج نے ان الفاظ میں سزا سنائی کہ فلاں بن فلاں کو کل صبح ۴ بجے پھانسی دی جائے گی ۔یہ سن کر وہ ہنسنے لگا جب ہنسنے کی وجہ پوچھی گئی تو کہنے لگا کہ میں تو اٹھتا ہی صبح نو بجے ہوں۔بہرحال عوام کسی نئے مسیحا کی تلاش میں ہیں کیونکہ عام آدمی کی مشکلات میں نا قابل برداشت حد تک اضافہ ہوچکا ہے۔ سیلاب نے شہروں کو ڈبو دیا ہے غریبوں کی عمر بھر کی جمع پونجی بہہ گئی ہے درحقیقت یہ سیاسی باوے جمہوریت کا راگ بہت الاپتے ہیں مگر جمہور کو شناختی کارڈ سے زیادہ کچھ نہیں سمجھتے جس سے ووٹ لینا ہی مقصود ہوتا ہے بلکہ آواز اٹھانے کی باری جب آتی ہے تو مفادات آڑے آجاتے ہیں اور اپوزیشن تنکوں کی طرح بکھر جاتی ہے لیکن جب عوام کے سامنے آتے ہیں تو کہتے ہیں ’’باندھ رکھا ہے جو دل میں خیال اس میں ترمیم کیوں نہیں کرتے ،بے سبب الجھنوں میں رہتے ہومجھ کو تسلیم کیوں نہیں کرتے ‘‘ بدقسمتی سے ایسا لگتا ہے کہ سیاست خدمت نہیں لوٹ مار بن چکی ہے اور اس تلخ حقیقت کو سوائے سیاسی اکابرین کے سبھی مانتے ہیں سنا ہے کہ جو لوگ آج ملکی و قومی نظام میں خلل ڈال رہے ہیں انھیں خان صاحب نے بدلنے کا کہا تھا بایں وجہ صفوں میں اختلاف پایا جارہا ہے اور حکومت انھیں منانے اور معاملات طے کرنے میں مصروف ہے یہ سب کچھ بھی منشور کے خلاف ہے کیونکہ جناب عمران خان نے وعدہ کیا تھا کہ وہ مافیاز کو ختم کر کے فلاحی ریاست کی بنیاد رکھیں گے اور ایسے افراد کو سخت سزا دیں گے جنھوں نے لوٹ مار کا بازار گرم کر رکھا ہے۔جب تک قول و فعل میں یکسانیت نہیں ہوگی تب تک کچھ ٹھیک نہیں ہوگا ویسے بھی منشور کا مطلب ہے وعدہ جو عوام سے کیا گیا تھا اور اس کو پورا نہ کرنا وعدہ خلافی ہے اورلیڈر کبھی وعدہ خلاف نہیں ہوتا ۔۔یاد رکھیں کسی بھی مقصد کے حصول کے لیے چار چیزوں کا ہونا ضرور ی ہے کردار کی مضبوطی ،خود اعتمادی اور مسلسل جدوجہد اور ذات کی نفی کا حوصلہ ہونا جب تک سربراہان خود کو نہیں بدلیںگے تب تک تبدیلی کا خواب پورا نہیں ہوسکتا آج عوام کا دکھ بھی یہی ہے کہ پچھلی حکومتوں کی بابت تو معلوم تھا کہ ذاتی مفادات پر اجتماعی مفادات کو قربان کیا جاتا ہے مگرجن سے امید تھی ان کے رویے بھی مثالی نہیں ٹھہرے۔