علامہ منیر احمد یوسفی
حضرت خدیجہ ؓ نبی کریم ؐ کے اِعلانِ نبوت سے قبل عفت و پاکدامنی کے باعث عہدِ جاہلیت میں طاہرہ کے لقب سے مشہور تھیں۔ ان کے والد کا نام خویلد ہے اور والدہ کا اِسم مبارک فاطمہ بنت زاہدہ ہے ۔آپ کا سلسلۂ نسب اِس طرح ہے‘ حضرت خدیجہ بنت خویلد بن اسد بن عبد العزی بن قصی۔ قصی پر پہنچ کر آپ کا خاندان رسولِ کریم ؐ کے خاندان سے مل جاتا ہے ۔ آپ کے والد قبیلہ میں ممتاز حیثیت کے حامل تھے ۔حضرت خدیجہؓ ایک کامیاب اور متمول تاجرہ تھیں ۔مکارمِ اَخلاق کا پیکرِ جمیل تھیں۔ رحمِ دلی ‘ غریب پروری اور سخاوت آپ کی اِمتیازی خصوصیات تھیں ۔
حضرت ابنِ اسحاق کہتے ہیں کہ حضرت سیّدہ خدیجہؓکا شمار مکہ مکرمہ کی شریف ترین معززاور مال دار خواتین میں ہوتا تھا ۔وہ مکہ مکرمہ کے دوسرے تاجروں کے ساتھ مل کر بطورِ مضاربت تجارت کرتیں اور اپنا تجارتی مال مکہ مکرمہ سے باہر بھیجا کرتی تھیں۔ جتناسامانِ تجارت سارے اہل قافلہ کا ہوتا اُتنا اکیلے حضرت سیّدہ خدیجہؓکا ہوتا۔ آپ اپنے نمائندوں کو سامانِ تجارت دے کر روانہ فرماتیں‘ جو آپ کی طرف سے کاروبار کرتے اُ س کی دو صورتیں تھیں یا وہ ملازم ہوتے اُن کی اُجرت یاتنخواہ مقرر ہوتی جواُنہیں دی جاتی‘نفع ونقصان سے اُنہیں کوئی سروکار نہ ہوتا یا نفع میں اُن کا کوئی حصّہ‘ نصف‘ تہائی یا چوتھائی مقرر کردیا جاتا اگر نفع ہوتا تو وہ اپنا حصّہ لے لیتے۔ بصورتِ نقصان ساری ذمہ داری حضرت سیّدہ خدیجہؓپر ہوتی۔
حضرت ابن اِسحاق سے مروی ہے کہ حضرت خدیجہ ؓ کورسولِ کریمؐ کی راست گفتاری ‘اَمانت‘اور نیک کرداری کا علم ہوا ۔اُنہوں نے آپ ؐ سے درخواست کہ آپ ؐ میرا مالِ تجارت لے کر شام جائیں۔ میں اَب تک دوسرے تاجروں کو منافع میں سے جس قدر حصّہ دیتی تھی اُس سے بہت زیادہ آپ ؐ کو دوں گی اور اپنے غلام میسرہ کو ساتھ کر دوں گی۔ آپ ؐ نے یہ تجویز منظور فرمائی اور اُن کا مال لے کر روانہ ہوئے۔ حضرت سیّدہ خدیجہؓکا غلام بھی اُن کے ساتھ تھا۔ دونوں شام آئے‘ وہاں نسطور راہب کی خانقاہ کے قریب ایک درخت کے سایہ میں فروکش ہوئے۔ راہب نے میسرہ سے پوچھا یہ ہستی جو درخت کے نیچے اُتریں ہیں‘ یہ کون ہیں؟ اُس نے کہا‘ یہ اہلِ حرم کے ہاشمی قریش خاندان کے ایک صالح‘ اَمانت دار‘ اور سچے اِنسان ہیں۔ راہب نے کہا‘ اِن کی آنکھوں میں سرخی ہے ۔میسرہ نے کہا ‘ہاں یہ سرخی کبھی اِن سے جدا نہیں ہوتی۔ نسطور نے کہا‘یہ پیغمبر ہیں اور سب سے آخری پیغمبر ؐہیں ۔(طبقات ابن سعد)
راہب نے کہا‘ اِس درخت کے نیچے سوائے نبی اللہؐ کے اور کوئی شخص آج تک فروکش نہیں ہوا۔ رسولِ کریمؐنے‘ یہاں جومال لائے تھے بیچ دیا اور جو خریدنا تھا وہ خرید لیا۔ آپ ؐمکہ مکرمہ واپس پلٹے۔ میسرہ بھی ہمراہ تھا۔ دوپہر اور سخت گرمی کے وقت میسرہ کیادیکھتا ہے کہ آپ ؐ اُونٹ پر سوار ہوتے ہیں اور دو فرشتے آپ ؐکو تمازت ِآفتاب سے بچانے کے لیے سایہ کر لیتے ہیں ۔یہ سب کچھ اُس کے دِل نشین ہو گیا اور اللہ تبارک و تعالیٰ نے اُس کے دِل میں نبی کریمؐ کی اَیسی محبت ڈال دی کہ گویا وہ نبی کریم ؐکا غلام بن گیا۔ جب قافلے نے اپناتجارتی سامان فروخت کرکے فراغت پائی تو مال میں معمول سے دو چند نفع ملا۔ وہ واپس چلے تو مقام مرالظہران میں پہنچ کے میسرہ نے عرض کیا‘ یا محمدؐ حضرت سیّدہ خدیجہؓکے پاس چل دیجئے۔ آپ ؐ کے باعث‘ حضرت سیّدہ خدیجہ ؓاللہ تبارک و تعالیٰ نے نفع دیا ہے‘ اُس کی حضرت سیّدہ خدیجہؓ کو اِطلاع کیجئے۔ وہ آپ ؓکا حق یاد رکھیں گی۔ رسولِ کریم ؐاِس رائے کے مطابق پہلے روانہ ہوگئے۔ یہاں تک کہ ظہر کے وقت مکہ مکرّمہ پہنچے۔ حضرت سیّدہ خدیجہؐ ب گھرپر تھیں‘ انہوں نے دیکھا کہ رسولِ کریمؐاُونٹ پر سوار تشریف لارہے ہیں اور دو فرشتے اِدھر اُدھر سے سایہ کئے ہوئے ہیں۔ حضرت سیّدہ خدیجہؐنے اپنی عورتوں کو یہ نظارہ دِکھایا تووہ بھی اِس دِل کش منظر کو دیکھ کر خوش ہوئیں۔ میسرہ جو ہم سفر تھا اُس نے حضرت سیّدہ خدیجہؓکو بتایا کہ میں یہ منظر سارے راستے دیکھتاآیا ہوں۔ میسرہ نے وہ باتیں بھی کہہ دیں جونسطور راہب نے کہیں تھیں۔ حضرت سیّدہ خدیجہؓنے جو معاوضہ مقرر کر رکھا تھا۔ تجارتی قافلہ کے دو چند منافع کی وجہ سے آپ کا منافع بھی دو چندکر دیا۔ (طبقات ابن سعد‘ البد ایہ والنہایہ)
اہل سیر بیان کرتے ہیں کہ حضرت سیّدہ خدیجہؓ نے خوا ب میں دیکھا تھا کہ آسمانی آفتاب اُن کے گھر میں اُترآیا ہے اوراُس کانور اُن کے گھر سے پھیل رہاہے۔ یہاں تک کہ مکہ مکرمہ کاکوئی گھر اَیسا نہیں تھاجواُس نور سے روشن نہ ہوا ہو۔جب وہ بیدار ہوئیں تو یہ خواب اپنے چچا ورقہ بن نوفل سے بیان کیا۔ اُس نے خواب کی یہ تعبیر دی کہ نبی آخر الزماںؐ تم سے نکاح کریں گے ۔مکہ مکرمہ کے بہت سے شریف خاندانوں کے لوگ آپ سے شادی کے خواہشمند تھے اور سب نے مال و زر بھی پیش کئے مگر آپ نے کسی کی تجویز قبول نہ کی۔ مگر رسولِ کریمؐکی شرافت‘ نسب‘ امانت‘ حسنِ اَخلاق اور راست بازی اورآپ ؐپر اللہ تبارک و تعالیٰ کی عنایات کی وجہ سے حضرت سیّدہ خدیجہ ؓنے آپ ؐسے نکاح کرنے کی خواہش ظاہرکی۔
اُمّ المومنین حضرت سیّدہ خدیجہ ؓجب نبی کریم ؐکی زوجیت میں آئیں تو اُس وقت آپ کی عمر شریف 40(چالیس) سال تھی۔ جبکہ سرکارِ کائنات کی عمر مبارک 25(پچیس) سال تھی۔ تاریخ معین پر حضرت ابو طالب اورتمام رؤسائے خاندان جن میں حضرت امیر حمزہ بھی تھے۔ حضرت سیّدہ خدیجہؓ کے مکان پر آئے۔ حضرت ابوطالب نے خطبۂ نکاح پڑھا۔ پانچ طلائی درہم حق مہر قرار پایا۔ نکاح کے بعد آپ 25(پچیس) برس تک زندہ رہیں۔ اُن کی زندگی میں نبی کریم ؐنے دوسری شادی نہیں فرمائی۔
اُمّ المؤمنین حضرت سیّدہ خدیجہؓ نے حضرت زید بن حارثہ ؓ کو آپ ؐکی خدمت کے لئے پیش کیا جو یمن کے قبیلہ بنو قضاعہ کے سردار حارثہ بن شرح کا بیٹا تھا۔ بچپن میں ڈاکوؤں نے اُسے پکڑ لیا تھا اور عکاظ کے میلہ میں آکر بیچ دیا تھا اور حضرت خدیجہؓ کے بھانجے حضرت حکیم بن حزام بن خویلد نے اِس غلام کو خرید کر اپنی پھوپھی حضرت خدیجہؓ کو نذر کر دیا تھا۔
حضرت جبرا ئیل جب پہلی وحی لے کر آئے اور رسولِ کریمؐاِن آیاتِ مبارکہ کو لے کر حضرت سیّدہ خدیجہؓکے پاس تشریف لائے۔ حضرت سیّدہ خدیجہ ؓسے فرشتے کا واقعہ بیان فرمایا۔ حضرت خدیجہ ؓنے جواب میں عرض کیا،بے شک آ پ ؐ صلہ رحمی کرتے ہیں‘ اہل قرابت سے عمدہ سلوک کرتے ہیں درماندوں کی دستگیری کرتے ہیں۔ تہی دستوں کی مدد فرماتے ہیں‘ مہمان نوازی کرتے ہیں‘ اصلی مصیبت زدوں کی امداد فرماتے ہیں‘‘ ۔(بخاری حدیث نمبر 3)
حضرت ابو طالب کی وفات کے چند ہی روز تقریباً (35) پینتیس دن بعد ۱۰ رمضان المبارک کو حضرت سیّدہ خدیجہؓ وصال فرما گئیں۔ آپ ؐکے دونوں مددگار اور غمگسار اُٹھ گئے۔ یہ وہ وقت تھا جو اِسلام کے لئے سخت ترین تھا۔ خود نبی کریمؐ نیاِس سال کو عام الحزن یعنی غم کا سال فرمایا کرتے تھے۔
اُمُّ المؤمنین حضرت سیّدہ خدیجہ ؓنے 65 (پینسٹھ) سال کی عمر میں وفات پائی۔ حجون کے قبر ستان میں آپ کو دفن کیا گیا۔ جب مرقد پاک تیار ہوگئی تو حضور نبی کریمؐخود اُس میں تشریف لے گئے پھر اُس قبر اَنور میں حضرت خدیجہؓ کو ا ﷲ کے سپرد فرما دیا ۔