پاکستان میں پھر وہی اضطراب کیوں؟
نیوزی لینڈ کی ٹیم دورہ پاکستان ادھورا چھوڑ کر جا چکی ہے جس نے پاکستان کی ساکھ کو نقصان پہنچایا۔ افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کے بعد ہم جو خوشیاں منا رہے تھے کافور ہوتی نظر آرہی ہیں کیونکہ ہمارے اندر ٹی ٹی پی کے حملے ، بغیر روک ٹوک کے جاری ہیں۔کبھی داعش کبھی ٹی ٹی پی ہمارے پاکستانی بھائیوں کا خون بہا رہی ہے جبکہ ہمارے قریبی تقریباً ممالک میں شاذ ہی دھماکے کی خبریں آتی ہیں جو ہمارے سکیورٹی کے اداروں ، عوام اور حکومت کے لئے چیلنج اور لمحۂ فکریہ بنتا جا رہا ہے۔ ہم پاکستانی اسی طرح کبھی افغانی اور کبھی پاکستانی طالبان اور اب داعش کے نرغے میں جانیں قربان کرتے رہیں گے۔
اس پر مستزاد یہ کہ پاکستان کی ہر گلی، محلہ کوڑے کا ڈھیر بنتا جا رہا ہے۔ کسی ہسپتال میں جائیں تو ڈسپلن نام کی کوئی چیز نہیں۔ ویسے بھی آوارہ کتے پہلے ہی ہمارے قبرستانوں میں مٹر گشت کرتے تھے۔ اب ان کی حکمرانی شہروں تک پھلتی جا رہی ہے اور ان میں پاگل کتوں کا اضافہ ہوتا جا رہا ہے جن کے کاٹے کے لئے ہمارے ہسپتالوں میں کوئی ٹیکہ میسر نہیں ۔میں نے خود ان گناہگار آنکھوں سے اس کھوکھلے اور عمل سے عاری ہیلتھ سسٹم کو دیکھا ہے اور جب سینئر پروفیسر ڈاکٹرز کی مریض کو نازک حالت میں اشد ضرورت ہوتی ہے ، وہ رات کو کبھی آ نہیں سکے اور مریض جونیئر ڈاکٹروں کے سپرد۔ ایسے ہی کچہریوں میں سائل سالوں خوار ہوتے رہتے ہیں اور تھانوں میں رشوت کے بغیر کبھی بھی شنوائی نہیں ہو سکی۔کیا ہمارے نظام میںعام غریب شہری کے لئے کوئی گنجائش باقی نہیں رہی ۔ مختصر، ایک واقعہ شیئر کرتا جائوں، قارئین چند دن پہلے میری ایک عزیزہ ہمارے شہر گوجرانوالہ میں کرونا کے علاج کے لئے گورنمنٹ ہسپتال میں داخل ہوئی تو مکمل ہوش وحواس میں تھی۔ ڈی ایچ کیو ہسپتال گوجرانوالہ کو اگرچہ اب ٹیچنگ میڈیکل کالج سے منسلک ہو ئے کئی سال ہونے کو ہیں‘ لیکن وہی حال ہیں غریبوں کے، پروفیسر ڈاکٹرز حسب معمول ایمرجنسی یا عین ضرورت کے وقت دن بارہ بجے کے بعد میسر کبھی نہ ہوئے اور سیریس مریض جونیئر ڈاکٹروں کے رحم وکرم پر چھوڑ کر چلے جاتے ہیں ۔ مریض کا جی سی ایس پہلے دن کے پندرہ بٹہ پندرہ سے گرتا ہوا سات بٹہ پندرہ تک پہنچ گیا، لیکن اس مریض کی بلڈ شوگر کو نہ انسولین پر مانیٹر کیا گیا اور نہ نسخہ جو پہلے دن سے چل رہا تھا ، وہ بدلاگیا حتیٰ کے مریض کا انتقال ہو گیا۔ ایم ایس صاحب بھی سوائے تسلی دینے کے کچھ نہ کرسکے۔اہم لیبارٹری ٹیسٹ بھی باہر سے کروانے پڑے اور قیمتی دوائوں کے لئے باہر سٹوروں پر دھکے کھانے پڑے ۔ غرض مریض بمع لواحقین بے چارے فٹبال بن جاتے ہیں جن کا ایک پائوں ہسپتال میں دوسرا باہر۔ یہ سسٹم کب ختم ہو گا۔ خلق خدا کب تک درماندگی کا شکار ہوتی رہے گی۔ میں نے ایک ڈاکٹر سے درخواست کی کہ ہمارے مریض کو سانس نہیں آرہی، تو ان کا کہنا تھا کہ کوئی فکر کی بات نہیں۔ میرا یہ خیال آخر پختہ ہوتا گیا کہ پہلے کوئی پرائیویٹ ہسپتال نہ تھا۔ لوگ انہی گورنمنٹ کے ہسپتالوں میں علاج سے صحتیاب ہو جایا کرتے تھے۔ آج نہ مریض کو دیکھنے والا وہ مسیحائی جذبہ ہے، نہ حکومت کی خلوص نیت۔ مجھے یہ کہنے میں کوئی باق نہیں کہ تبدیلی کے نام پرآئی پر عمران خان کی انصافی حکومت کہیں تبدیلی معکوس کی طرف تو نہیں جا رہی ۔ اضطراب ہے کہ بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ بڑھتی مہنگائی سفارش کرپشن انصاف کی عدم فراہمی، بارڈرز پر غیر یقینی حالات ،کیا کہیں ہم ناکام ریاست تو نہیں بنا رہے جس کی کوئی کل سیدھی نہیں۔