ہم پاکستانی دنیا کے جس کونے اور دیس میں بھی بستے ہیں وہاں اپنی موجودگی کا احساس دلانا بھی خوب جانتے ہیں۔ تین دہائیوں پر محیط میری سمندر پار رہنے کی پریکٹس کے دوران میں نے اس بات کو خاص طور پر محسوس کیا ہے کہ پاکستان کی تمام بڑی سیاسی پارٹیوں کے اوورسیز ونگ مڈل ایسٹ، یورپ اور نارتھ امریکہ میں موجود ہیں یہ شاید ہماری پاکستانیوں کی فطرت کے عین مطابق ہے کہ جہاں بھی چار لوگ اکٹھے ہوئے ایک کو صدر بننے کا شوق چڑھ دوڑتا ہے اور پاکستان کی تمام سیاسی پارٹیوں اور ان کی قیادت کو سمندر پار پاکستانیوں سے یہ بھی توقع ہوتی ہے کہ تنظیم سازی کے نام پر وہ ایسے سیاست کے شوقین خواہش مندوں سے چندے اور عطیات وصول کرتے ہیں۔ میں نے اپنے سیاسی کیریئر کے دوران اس امر کا بطور خاص مشاہدہ کیا کہ پیپلزپارٹی، ن لیگ اور پی ٹی آئی کی صف اوّل کی قیادتیں بیرونِ ملک سیاسی اور نجی دوروں کے دوران سیاسی ممبران سے تحفے تحائف، مہنگے برانڈڈ سوٹ،گھڑیاں، موبائل فون اور لیپ ٹاپ وغیرہ اکٹھا کرکے لے جاتے ہیں اور محنت کش سیاسی ورکرز اپنی انا کی تسکین کیلئے سیاسی قیادت کی ڈیمانڈز کو پورا کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ قارئین! آج جب آپ یہ کالم پڑھ رہے ہوں گے تو کینیڈا میں جنرل الیکشن کیلئے پولنگ جاری ہو گی۔ کینیڈا میں پارلیمانی نظام وزیراعظم کے تحت قائم ہے جبکہ ملک کا آئینی سربراہ گورنر جنرل ہوتا ہے جسے ڈائریکٹ ملکہ برطانیہ نامزد کرتی ہے لیکن اسکے اختیارات برائے نام ہی ہوتے ہیں جبکہ حتمی اختیارات ملکہ کی جنبش کے محتاج ہوتے ہیں۔ وفاقی پارلیمنٹ کیلئے ہر چار سال بعد الیکشنز تسلسل سے کرائے جاتے ہیں۔ ملک کو انتظامی لحاظ سے تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے جبکہ اسکے دس صوبے اور کل آبادی تین کروڑ چالیس لاکھ ہے۔ رقبے کے لحاظ سے روس کے بعد یہ دنیا کا دوسرا بڑا ملک ہے۔ ملک کا دارالحکومت اوٹاوہ ہے اور سب سے بڑا شہر ہونے کا اعزاز ٹورنٹو شہر کو حاصل ہے۔ مسلمانوں کی آبادی کل آبادی کا پانچ فیصد جبکہ ایشیائی اور دیگر تارکین وطن 26فیصد کے قریب ہیں۔ جنرل الیکشن میں وفاقی پارلیمنٹ کی تعداد 338ہے جس میں 49 ایشیائی عرب اور مسلم ممبرانِ اسمبلی ہیں جبکہ 2015ء کے الیکشن میں پہلی دفعہ دو پاکستانی مسلم خواتین وفاقی پارلیمنٹ کیلئے منتخب ہوئیں۔ ملک کی چار بڑی سیاسی پارٹیاں جن میں لبرل،کنزرویٹو،نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی اور گرین پارٹی شامل ہیںجبکہ 2019ء کے الیکشن میں پہلی دفعہ پیپلزپارٹی کینیڈا نامی سیاسی پارٹی بھی میدان میں اتری ہے۔ موجودہ گورنمنٹ سابق وزیراعظم بیرئرٹروڈو کے بیٹے جسٹن ٹروڈو کی ہے جس نے پچھلے الیکشن میں جیت کر اکثریت میں حکومت بنائی جسٹن ٹروڈو لبرل پارٹی کے موجودہ سربراہ بھی ہیں۔ پاکستانی، عربوں اور ایشین کی اکثریتی تعداد لبرل پارٹی کو اس لیے پسند کرتی ہے کہ اس پارٹی کی پالیسیاں امیگرینٹس کے متعلق دوستانہ ہیں اور خاص طور پر موجودہ وزیراعظم جسٹن ٹروڈو نے اپنی پرومسلم پالیسیوں کی وجہ سے عالم اسلام میں اپنی خصوصی پہچان بنائی ہے۔ موجودہ پارلیمنٹ میں اقراخالد اور سلمیٰ زاہد ممبر منتخب ہوئیں تھیں اور توقع کی جا رہی ہے کہ وہ اس بار بھی میدان مار لیں گی جبکہ کینیڈا کے سینیٹ میں بھی ایک خاتون رکن سلمی عطا اللہ جان بھی پاکستان سے ہیں جبکہ انٹاریو، کیوبک، وینکوور کی صوبائی اسمبلیوں میں درجنوں پاکستانیوں سمیت درجنوں اراکین اسمبلی مسلمان ہیں۔ آج ہونیوالے الیکشن میں ایک خاص بات یہ ہے کہ کنزرویٹو پارٹی جو کہ اپنی سخت پالیسیوں اور اینٹی مسلم خیالات کی وجہ سے مشہور ہے۔ اس بار پارٹی کے نئے سربراہ نے ٹورنٹو سے چھ مسلمان امیدواروں کو پارٹی ٹکٹ دیئے ہیں اور قارئین! سینٹرل سکاربورو کے حلقے میں دلچسپ صورتحال یہ ہے کہ چاروں بڑی سیاسی پارٹیوں نے یعنی لبرل سلمیٰ زاہد، کنزرویٹو اور شاد چوہدری ، فیض کمال این ڈی پی اور دردانہ حاکم زادہ گرین پارٹی سے تعلق رکھتی ہیں جبکہ اصل مقابلہ سلمیٰ زاہد اور ارشاد چوہدری کے درمیان متوقع ہے اور دونوں کا تعلق پاکستان سے ہے۔ قارئین! الیکشن کے متعلق پاکستانی عوام کے صبر کا یہ عالم ہے کہ ابھی پاکستان میں جولائی 2018ء کو جنرل الیکشن منعقد ہوئے تھے اور پندرہ مہینے بعد بُری طرح ہری ہوئی سیاسی پارٹیوں نے نئے الیکشن کا مطالبہ کر دیا ہے۔ خود مولانا فضل الرحمن جو نہ تو سابق وزیراعظم نوازشریف جتنی عوامی سپورٹ اور نہ ہی سابق صدر آصف علی زرداری میکاولی ویژن رکھتے ہیں اور جب میاں نوازشریف قریباً قومی اسمبلی کی سو سیٹوں اور آصف علی زرداری چھیالیس سیٹوں کے ساتھ بھی بمعہ پورا خاندان پابندِسلاسل ہیں اور بظاہر وہ وزیراعظم عمران خان کا کچھ بھی بگاڑنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں تو پھر آٹھ سیٹوں کے ساتھ مولانا فضل الرحمن کے پاس کونسی گیدڑ سنگھی ہے کہ وہ اسٹیبلشمنٹ اور پاکستانی فوج کے آفیسرز اور جرنیلوں کیخلاف ہرزہ سرائی کرکے بھی وزیراعظم بننے کے خواب دیکھ رہے ہیں۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024