FATF کا اجلاس اور عالمی طاقتیں!

Feb 22, 2021

ڈاکٹر احمد سلیم

آج 22فروری سے FATF کے آن لائن اجلاس کا آغاز ہورہا ہے جو 26 فروری تک جاری رہے گا۔گزشتہ برس اکتوبر میں ہونے والے اجلاس میں فیصلہ کیا گیا تھا کہ پاکستان FATFکے مطالبات میں سے چھ مطالبات کو پورا نہیں کر سکا اس لئے اسے ابھی گرے لسٹ میں رکھا جائے گا۔ اطلاعات ہیں کہ اجلاس میں دیگر عالمی امور پر غور کرنے کے علاوہ اس بات پر بھی بحث اور غور کیا جائے گا کہ پاکستان کا نام گرے لسٹ میں سے نکال لیا جائے یا نہیں۔
فنانشل ایکشن ٹاسک فورسFATF) ) ایک بین الاقوامی تنظیم ہے جس کا قیام 1989 میں عمل میں لایا گیا ۔ اس عالمی تنظیم کا  بنیادی مقصد تمام دنیا میں پیسے کی غیر قانونی ترسیل روکنے کی کوشش کرنا ہے۔  اس وقت اس تنظیم کے3 7 ارکان ہیں جن میں 35 ممالک اور 2 علاقائی تنظیمیں ہیں۔ اسرائیل اور سعودی عرب اس تنظیم سے بطور ’’ مبصر‘‘ منسلک ہیں۔ پاکستان اس تنظیم کا رکن نہیں ہے بلکہ یہ ایک ذیلی تنظیم ’’ ایشیا پیسیفک گروپ‘‘ (APG)  کے ذریعے اس سے وابستہ ہے۔یہ ادارہ  اپنے ہر اجلاس کے بعد مختلف ممالک کی درجہ بندی کی فہرستیں جاری کرتا ہے ۔ ’’بلیک لسٹ ‘‘ میں وہ ممالک ہوتے ہیں جو مناسب قانون سازی کے لیے عالمی اداروں سے ’’ عدم تعاون‘‘ کررہے ہوں۔ یعنی دوسرے الفاظ میں یہ وہ ممالک ہوتے ہیں جنہیں ایک ریاست کے طور پر ’’ منی لانڈرنگ‘‘ میں ملوث سمجھا جاتا ہے۔ دوسری ’’ گرے لسٹ‘‘ ہوتی ہے جس میں وہ ممالک شامل ہوتے ہیں جو عدم تعاون تو نہیں کر رہے ہوتے لیکن ان ممالک میں اس سلسلے میں قانون سازی یا قوانین پر عمل درآمد ناکافی ہو۔اس کے بعد ایک ’’ واچ لسٹ‘‘ جس میں وہ ممالک شامل ہوتے ہیں جن کے بارے میں ابھی مکمل طور پر کوئی فیصلہ نہیںکیا گیا ہوتا ان پر نظر رکھے جانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ ’’ واچ لسٹ‘‘ آفیشل طور پر شائع نہیں کی جاتی ۔ FATFکے ممبر ممالک کسی بھی ملک کا نام ان فہرستوں میں شامل کرنے کی قرار داد پیش کر سکتے ہیں لیکن اگر رکن ممالک میں سے کم از کم تین ممالک اس قرارداد کی مخالفت کریں تو یہ قرار داد مسترد ہو جاتی ہے۔  یعنی گرے یا بلیک لسٹ میں کسی ملک کے نام کی شمولیت رکوانے کے لیے کم از کم تین ممالک کی حمایت ضروری ہوتی ہے۔ لیکن جب ایک بار نام اس لسٹ میں شامل ہو جائے تو اس نام کو نکلوانے کے لیے اس وقت کے ممبران کی تعداد کے مطابق کم و بیش  ۱۵ ممالک کی حمایت درکار ہو سکتی ہے۔سب سے پہلے 2008  میں پاکستان کا نام گرے لسٹ میں شامل کیا گیا تھا۔ بعد ازاں 2012  میں پاکستان کا نام گرے لسٹ میں شامل کیا گیا تھا جو 2015 تک رہا۔ اس کے بعد 2018  میں پاکستان کا نام  FATF کی گرے لسٹ میںشامل کر لیا گیا، جب امریکہ کی ’’آشیرباد‘‘ سے اسکے مغربی حواریوں اور بھارت کی مدد سے اس سلسلے میں قرارداد پاس کی گئی۔ یہ وہ دور تھا جب پاکستان افغانستان میں امریکی پالیسیوں کی مخالفت کر رہا تھا اور اس بنا پر پاکستان اور امریکہ کے تعلقات شدید سرد مہر ی کا شکار ہو گئے تھے۔ تلخ حقیقت یہی ہے کہ اس لسٹ میں شمولیت یا اس سے نام کا اخراج صرف معاشی پالیسیوں پر منحصر نہیں ہوتا بلکہ عملی طور پر پر دنیا کی سیاسی صورتحال اور مختلف ممالک کے باہمی مفادات بھی اس پر اثرانداز ہوتے ہیں۔ 2018   میں امریکہ اور برطانیہ کی حمایت کے ساتھ بھارت کی جانب سے پیش کی جانے والی پاکستان مخالف قرارداد کو ناکام بنانے کے لیے پاکستان کو کم از کم تین ممبر ممالک کی حمایت درکار تھی۔ اس وقت صرف ترکی نے پاکستان کے حق میں ووٹ دیا تھا جبکہ چین کے ووٹ ڈالنے سے اجتناب کیا تھا۔ چین کے پاکستان کو ووٹ نہ دینے کی ایک وجہ تو شاید یہ تھی کہ چین ِجولائی 2019  سے ایک برس کے لیے اس تنظیم کی صدارت کا امیدوار تھا اور شاید ان حالات میں چین کے لیے ممکن نہ تھا کہ وہ ایک خاص حد سے زیادہ پاکستان کی طرفداری کرے، تاکہ اسکی ’’غیر جانبداری‘‘ پر کوئی ملک ( خاص طور پر بھارت اور امریکہ) انگلی نہ اٹھا سکے۔ ویسے اگر چین یہ تمام خطرہ مول لے کر پاکستان کو ووٹ دے بھی دیتا تو اسکا کوئی فائدہ نہ ہوتا کیونکہ چین کا ووٹ حاصل کرنے کے بعد بھی پاکستان کو مطلوبہ تعداد یعنی تین ممالک میں حمایت حاصل نہ ہوتی۔  بھارت کے یہ سب اقدامات قابل فہم ہیں کیونکہ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ بھارت کسی بھی جگہ اور کسی بھی وقت پاکستان کو نقصان پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔ 
عالمی دعویٰ اور FATF  کے بیان کردہ مقاصد اپنی جگہ ضرور درست اور عالمی امن کے لیے اہم ہونگے لیکن اگر ہم حقائق پر غیر جانبدارانہ طور پر غور کریں تو ایک دو اہم سوالات ذہن میں پیدا ہوتے ہیں۔ اس تنظیم کا بنیادی کام ’’ منی لانڈرنگ‘‘  یعنی کالے دھن کی غیر قانونی ترسیل کو روکنے کے لیے قانون سازی اور ان قوانین پر عمل درآمد یقینی بنانا ہے، چاہے یہ پیسہ دہشت گرد تنظیموں کے استعمال میں آتا ہو یا رشوت یا چوری کا ہو۔ زمینی حقیقت یہ ہے کہ کرپشن ہو یا سمگلنگ یاکوئی اور غیر قانونی کاروبار ، اس سے کمایا گیا پیسہ ’’ منی لانڈرنگ‘‘ کے ذریعے سے امریکہ، برطانیہ یا پھر کسی نہ کسی دوسرے ترقی یافتہ مغربی ملک کو ہی بھیجا جاتا ہے۔ اس کے لیے ظاہر ہے کہ وصول کنندہ ممالک میں بھی منی لانڈرنگ کے نیٹ ورک موجود ہوتے ہیں جن کے ذریعے یہ پیسہ وصول کیا جاتا ہے ۔ بھارت سے کراچی اور بلوچستان میں امن امان خراب کرنے کے لیے جو پیسہ بھیجا جاتا ہے اس کے لیے جو نیٹ ورک استعمال ہوتا ہے وہ بھارت میں شروع ہوتا ہے ۔ اسی طرح اگر پاکستان سے پیسہ غیر قانونی طور پر امریکہ یا برطانیہ یا کسی بھی ملک کو بھیجا جاتا ہے تو کیا یہ سب ان ممالک کے بنکوں اور منی لانڈرنگ نیٹ ورک کی ملی بھگت کے بغیر ممکن تھی؟ چوری کا مال بیچنا بھی جرم ہوتا ہے اور خریدنا بھی۔ ناجائز پیسہ جائے یا آئے دونوں صورتوں میں ناجائز ہوتا ہے۔ کیا کبھی ان طاقت ور ممالک سے بھی اس سلسلے میں سوال کیا جائے گا؟ پاکستان اور اس جیسے دوسرے ممالک جن پر FATF   بلا وجہ چڑھائی کئے رکھتا ہے کو ا س سلسلے میں اقوام عالم میں آواز بلند کرنی چاہئے کیونکہ یہ پر امن ترقی یافتہ ممالک بھی جرم میں برابر کے شریک، بلکہ کچھ صورتوں میں واحد اور بڑے مجرم ہیں۔

مزیدخبریں