ہمارے کالم نگار اسداللہ غالب کی کتاب آپریشن ضرب عضب کی شاندار تقریب میں برادرم عزیز سرور نقش بندی نے نعت پڑھی۔ اب نعت رسولؐ ہماری تقریبات کا لازمی حصہ بن چکی ہے اور بہت حوصلہ افرا ہے۔ اس وقت مسلمانوں اور بالخصوص پاکستان کے مسلمانوں کا برا حال ہے۔ وہ بدحال ہیں اور بے حال بھی ہیں۔ یہ حالات بہت پہلے سے مسلمانوں پر مسلط ہیں۔ قیام پاکستان سے بھی برسوں پہلے الطاف حسین حالی نے ایک نعت کہی تھی جو رسول کریم حضرت محمدؐ کے حضور ایک فریاد تھی۔ اب تک یہ فریاد شاعروں اور مسلمانوں کے جذبوں میں دھڑکتی ہے۔ قیام پاکستان میں قائداعظم کی قیادت میں ایک چھوٹا سا وقفہ آیا تھا۔ اس کے بعد عاشق رسولؐ حضرت قائداعظم کی رحلت بعد ختم ہو گیا اور پاکستان میں غلامی کے زمانے کے بدتر حالات پیش آنے لگے۔ حالات بدلنے کے لئے خیالات بدلنا بڑا ضروری ہوتا ہے۔ وہ صرف نعت گو شاعروں میں دکھائی دیتے رہے۔
میں پاکستان کو خطہ عشق محمدؐ کہتا ہوں۔ یہاں عشق رسولؐ کا چراغ ہر دل میں جلتا ہے۔ اس کی روشنی شاعروں کے دل میں نظر آتی ہے۔ علامہ اقبال نے نعت کو ایک تحریک بنا دیا۔ اس کے بعد شاعر حفیظ تائب پیدا ہوئے، جسے مجدد نعت کہا گیا۔ انہوں نے اس تحریک کو تحریک پاکستان بنا دیا۔ پاکستان میں تحریک پاکستان چلانے کی ضرورت ہے۔
اے خاصۂ خاصان رسلؐ یہ وقت دعا ہے
امت پہ تری آ کے عجب وقت پڑا ہے
سرور نقشبندی نے محفل میں حفیظ تائب کی نعت پڑھی تو ہر طرف جذبات کی پھوار برسنے لگی۔ سرور نقشبندی کو حفیظ تائب پسند کرتے تھے اور اکیلے میں بھی ان کے سوز و گداز سے بھرے ہوئے لہجے میں نعتیں سنتے تھے اور روتے تھے۔ عجب بات ہے کہ ذکر رسولؐ کی سرشاری میں جو بے قراری پیدا ہوتی ہے اور آنسو خود بخود گرتے ہیں۔ ہر دم مسکراتے رہنے والی دنیا کی عظیم ترین شخصیتؐ کی محبتوں میں جو تاثیر ہے وہ دلوں کو بھگو دیتی ہے۔ حفیظ تائب کی بہت محبوب اور مقبول نعت کے اشعار جب سرور نقشبندی پڑھتے ہیں تو سماں بندھ جاتا ہے۔ سرور نقشبندی خود بھی نعت کے ایک قابل ذکر شاعر بن گئے ہیں۔
حفیظ تائب کی محبت کا کمال ہے کہ انہوں نے نعت گوئی حفیظ تائب کی رحلت کے بعد شروع کی ہے۔ حفیظ تائب کی قبر کے سرہانے کھڑے ہو کر بھی نعت سرور نے پڑھی تھی۔ اس طرح سرور نقشبندی سرور کائناتؐ کا ایک مقرب اور عاجز عاشق صادق بن کر ظاہر ہوا ہے۔
حفیظ تائب کے بھائی مجید منہاس حفیظ کے مشن نعت رسولؐ کے ذریعے عشق رسولؐ کے فروغ کے لئے ایک تحریک کی طرح کام کرتے ہیں۔ پاکستان میں نعت رسولؐ معراج پر ہے۔ اور یہ خطہ عشق رسولؐ ایک مرکز بن چکا ہے۔ میں پاکستان کو خطۂ عشق محمدؐ کہتا ہوں۔ تمام مسلمان ملکوں کا لیڈر ملک پاکستان ہے۔ اللہ نے اس ملک کو ایٹم بم جیسی نعمت سے نوازا ہے۔ یہاں دنیا کی بہترین فوجوں میں سے ایک فوج ہے۔ ہماری میزائل ٹیکنالوجی دنیا کی بہترین ٹیکنالوجی ہے۔ پاکستان کا ایٹم بم بھارت سے بہت آگے ہے۔ جس طرح آج بھی روس کی ایٹمی ٹیکنالوجی امریکہ سے بہت آگے ہے۔ بھارت تو پاکستان سے ڈرتا ہی ہے۔ اسرائیل بھی صرف ایک مسلمان ملک سے ڈرتا ہے اور وہ پاکستان ہے۔
پاکستان میں عشق رسولؐ کی روایت بہت مستحکم ہے اور اس کے لئے نعت رسولؐ ایک بہت بڑا محرک اور محافظ ہے۔
علامہ اقبال کی ایک نظم ابلیس کا فرمان اپنے سیاسی فرزندوں کے نام بھی جذبے کو پیش کرتی ہے جس میں شیطان اپنے سیاسی فرزندوں کو خطاب کرتے ہوئے بتاتا ہے کہ جب تک تم مسلمانوں کے دلوں سے عشق رسولؐ کی حرارت ختم نہیں کر لیتے کسی طرح کی کامیابی کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتااور انہیں نصیحت کرتا ہے:
وہ فاقہ کش جو موت سے ڈرتا نہیں ذرا
روح محمدؐ اس کے بدن سے نکال دو
جب تک پاکستان قائم ہے اور پاکستان ابدی طور پر قائم رہے گا۔ عشق رسولؐ کا چراغ پاکستان کے مسلمانوں کے دلوں میں بجھایا نہیں جا سکتا۔ میں نے اب تک حفیظ تائب کے وہ نعتیہ اشعار تو بیان نہیں کئے جو تقریب میں پڑھے گئے تھے۔
دشمن جاں ہوا میرا اپنا لہو
میرے اندر عدو میرے باہر عدو
ماجرائے تحیر سے پرسیدنی
صورتحال ہے دیدنی یا نبیؐ
اے نوید مسیحا تری قوم کا حال
عیسیٰ کی بھیڑوں سے ابتر ہوا
اس کے کمزور اور بے ہنر ہاتھ سے
چھین لی چرخ نے برتری یا نبیؐ
یا نبیؐ اب تو آشوب حالات نے
تیری یادوں کے چہرے بھی دھندلا دئیے
دیکھ لے تیرے تائب کی نغمہ گری
بنتی جاتی ہے نوحہ گری یا نبیؐ
سچے جذبوں کی سندرتا سے سجی ہوئی نغمہ گری ہے۔ وہ اب نوحہ گری بنتی جا رہی ہے۔ اب حضورؐ کی خدمت میں شاعروں کی نیاز مندی فریادوں میں ڈھلتی جا رہی ہے۔ علامہ اقبال کی وہ نظم ہمارے سامنے آتی ہے جس میں وہ طرابلس کے شہیدوں کا لہو حضورؐ کی خدمت میں نذرانے کے طور پر پیش کرتے ہیںاور اسے امت کی چھلکتی ہوئی آبرو قرار دیتے ہیں۔ اس نعت کا ایک شعر ملاحظہ کریں اور اس کے اندر چھپی ہوئی آواز کی دردمندی پر غور کریں۔
حضورؐ دہر میں آسودگی نہیں ملتی
تلاش جس کی ہے وہ زندگی نہیں ملتی
سب درد رکھنے والے عاشقان رسولؐ اس زندگی کی تلاش میں مارے مارے پھرتے ہیں۔ اس زندگی کی علامتیں کبھی تو زندگی میں ظاہر ہوں گی۔ ورنہ دہشت گردی کی دھول نے سب کچھ گم کر دیا ہے۔ ابھی درد مند لوگ موجود ہیں۔ ان سے فائدہ اٹھانا باقی ہے۔ ایک بہت بڑے ایڈووکیٹ منصور الرحمٰن آفریدی ہیں جو وکالت کے علاقے میں عشق رسولؐ کی وہ روشنی ہیں جس میں طاقت کے خزانے چھپے ہوئے ہیں۔ میں اپنے عزیز رانا ندیم کو فون کرتا ہوں تو فون کی گھنٹی کی بجائے نعت رسول کی گنگناہٹوں سے سرشار ہو جاتا ہوں۔ اللہ کرے عشق رسولؐ کی روشنی عام ہو۔
زمانے میں چمکا ہے نام محمدؐ
میری ایک عاجزانہ تجویز ہے کہ سیرت رسولؐ کو فروغ دیا جائے سیرت رسولؐ عام کرو۔ لوگوں کو معلوم ہو کہ ان سے بڑا محبوب آدمی آسمان کی بوڑھی نگاہوں نے نہیں دیکھا۔ وہ محسن انسانیت رحمتہ العالمین رسول کریم حضرت محمدؐ کی زندگی سے واقف ہو جائیں اور مان لیں کہ انہوں نے کتنی خوبصورت زندگی گزاری تو وہ لوگ ہم سے بھی بڑھ کر عاشق رسولؐ ہو جائیں۔ وہ مسلمانوں کیلئے نعمت ہیں۔ انسانوں کے لئے بھی نعمت ہیں۔ اسلام دین فطرت ہے اور یہی دین انسانیت ہے۔
ایرانی صدر کا دورہ، واشنگٹن کے لیے دو ٹوک پیغام؟
Apr 24, 2024