حضور نبی کریم ﷺ کی پیدائش سے صرف پچپن دن پہلے حبشہ کا گورنر ”ابرہہ“ ہاتھیوں کی فوج لے کر خانہ کعبہ کو گرانے کے لیے مکہ مکرمہ پر حملہ آور ہوا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ حج کے موسم میں لوگ حج بیت اللہ کا سامان جمع کر رہے تھے تو ابرہہ نے پوچھا یہ لوگ کہا ں جا رہے ہیں تو لوگوں نے کہا یہ لوگ حج کرنے کے لیے مکہ مکرمہ جا رہے ہیں۔ابرہہ نے یمن کے دارالسلطنت صنعامیں ایک بہت ہی خوبصورت عبادت گاہ تعمیر کروائی اور لوگوں سے کہا کہ وہ خانہ کعبہ کاحج کرنے کی بجائے یمن آ کراس عبادت کا حج کریں۔ جب مکہ والوں کو اس بات کا علم ہو ا تو انہیں بہت غصہ آیا تو قبیلہ کنانہ کا ایک شخص غصے میں یمن گیا اور قضائے حاجت کر کے عبادت گاہ کو آلودہ کر دیا۔ جب ابرہہ کو اس بات کا علم ہوا تو غصے میں آپے سے باہر ہو گیا اور اس نے قسم کھائی کہ خانہ کعبہ کو گراکر چھوڑے گا۔ جب وہ ہاتھیوں کی فوج لے کر مکہ مکرمہ پہنچا تو اس کی فوج کے اگلے دستے نے مکہ والوں کے اونٹ اور بکریاں ان سے چھین لیں۔ اس میں دو سو یا چار سو اونٹ حضرت عبد المطلب کے بھی تھے۔حضرت عبدالمطلب کو اس بات کا بہت دکھ ہوا۔ آپ ابرہہ کے پاس آئے اور اس نے جب آپ کو دیکھا تو آپ کی تعظیم کے لیے تخت سے کھڑا ہو گیا۔ ابرہہ نے پوچھا کہ آپ کس مقصد کے لیے یہاں آئے ہیں آپ نے فرمایا میرا مطالبہ یہ ہے ہمارے اونٹ اور بکریاں جو آپ پکڑ لا ئے ہیں وہ ہمیں واپس کر دیں۔ ابرہہ نے کہا کہ مجھے آپ کی بات سن کر تعجب ہوا۔ میں سمجھاتھا کہ آپ ایک بہت حوصلہ مند اور با رعب شخص ہیں۔ آپ مجھے خانہ کعبہ پر حملہ نہ کرنے کا کہیں گے۔ مگر آپ نے مجھ سے اپنے اونٹوں کا سوال کر لیا ہے۔ ابرہہ نے کہا میں یہاں خانہ کعبہ کی توڑ پھوڑ کرنے آیا ہو ں آپ نے اس بارے میں کوئی بات نہیں کی اور اپنے اونٹ اور بکریوں کی واپسی کا مطالبہ کیا۔ آپ نے فرمایا اونٹوں کا مالک میں ہوں اس لیے ان کا سوال کیا۔ جو کعبہ کا مالک ہے وہ خود اس کی حفاظت کرے گا۔ یہ سن کر ابرہہ نے غصے میں کہا سن لیجیے میں کعبہ کو ڈھا کر اس کا روئے زمین سے نا م و نشان مٹا دوں گا۔ مکہ والوں نے عبادت گاہ کی بے حرمتی کی ہے۔ آپ نے فرمایا خانہ کعبہ اللہ کا گھر ہے۔ تو جا نے اور خدا جانے۔یہ کہہ کرآپ نے ابرہہ سے اپنے اونٹ بکریاں واپس لیں اور چلے گئے۔