تھام لیتی ہوں چادرِ زینبؓ
محرم ایک مہینے کا نام نہیں بلکہ ایک ضابطہ حیات کا نام ہے یہ صرف مسلمانوں تک محدود نہیں بلکہ دنیا کا ہر انسان محرم کے واقعہ، اِس میں شہادت پانے والے معصوم کردار اور برائی کے خلاف ڈٹ جانے کی رسم سے آگاہ ہے۔ محرم حق و باطل کے درمیان وقوع پذیر ہونے والا دنیا کا سب سے بڑا واقعہ ہے۔ جس نے نوع انسانی کی تاریخ بدل کر رکھ دی۔ ایک خاندان نے پوری دنیا کو حق کی خاطر جان کی قربانی دے کر اصولوں کی سر بلندی کا اعلان کیا۔ یوں تو یہ پورا واقعہ ہی درد کی چادر میں لپٹا ہوا ہے۔ جہاں سے بھی اسے پڑھیں آنسوؤں کی لکیریں چہرے پر پھیلتی جاتی ہیں مگر صرف آنسو بہانے سے ہی حق ادا نہیں ہوتا بلکہ اس کے بارے میں سوچنا پڑتا ہے اور پھر زندگی کو اُن اصولوں کی روشنی میں ڈھالنا پڑتا ہے۔
یہ واحد واقع ہے جس میں مرد و زن، بوڑھے، جوان، بچے اور بیماروں نے باطل کے سامنے ڈٹ جانے کا فیصلہ کیا۔ دشمن نے ہر طرح کی اذیتیں دیں مگر خاندان کے کسی فرد نے بھی ان مشکلات سے گبھرا کر واپس لوٹنے یا سمجھوتا کرنے کے بارے میں نہیں سوچا بلکہ آخری سانس تک حق کی سر بلندی کے لیے لڑنے کا عزم دھرایا۔ باطل چاہے کتنا ہی طاقتور کیوں نہ ہوں اُس کی قسمت میں سر نگوں ہونا اور مٹنا لکھا گیا ہے۔ وقتی طور پر یوں محسوس ہوتا ہے جیسے باطل جیت گیا ہو مگر ہمیشہ کے لیے فتح حق کو ہی نصیب ہوتی ہے۔ کئی صدیوں پہلے یزید اور اُس کے ماننے والوں کو بھی یہ گمان تھا کہ وہ جیت چکے ہیں مگر آج بھی حسینؓ زندہ اور اُن کا مقصد بھی تابندہ ہے۔ کربلا کا میدان حق اور باطل کے درمیان کھنچی لکیر کی طرح ہے جو ہمیں زندگی کا سلیقہ سکھاتی ہے۔
اِس واقعہ میں خواتین کا کردار بہت نمایاں رہا ہے ماؤں کا دل بہت نرم ہوتا ہے وہ اپنے بچوں کو ذرا سی تکلیف میں دیکھنا گوارا نہیں کرتیں مگر واقعہ کربلا کے دوران انھوں نے اپنے معصوم بچوں کو بھوک اور پیاس سے بلکتے دیکھا، زخموں کی شدت سے کراہتے دیکھا، انھیں جان سے جاتے دیکھا مگر حوصلہ قائم رکھا۔ کیونکہ اُن کے سامنے جان کی بجائے دین کی حفاظت زیادہ اہمیت کی حامل تھی۔ واقعہ کربلا میں حضرت زینبؓ کا کردار اتنا بلند اور طاقتور ہے کہ وہ دنیا میں ایک مثال کی طرح آج بھی زندہ ہے۔ اُن کی جرأت، حوصلہ، صبر اور تدبیر کو دنیا آج بھی یاد کرتی ہے اور سلام پیش کرتی ہے۔ ذرا غور کیجئے مشکل سفر طے کرنے کے بعد ایک ایسے دربار میں جہاں ہر طرف زہر آلود نگاہیں موجود ہوں اور سامنے دنیا کا ظالم ترین حکمران بیٹھا ہو وہاں جرأت سے سچائی اور حق کی بات کرنا اور حاکم کو للکارنا آسان کام نہیں۔ یزید کے دربار میں حضرت زینبؓ کا خطبہ تاریخ دنیا میں سنہری حروف میں لکھا گیا اور رہتی دنیا تک سچائی کی دستاویز کے طور پر موجود رہے گا۔
حضرت زینبؓ کی بہادری ہمیں اِس بات کا احساس دلاتی ہے کہ آج کی عورت کو اُن کی زندگی کا مطالعہ کرنا چاہیے اور اُس سے سبق حاصل کر کے معاشرے میں اپنا کردار جرأت سے ادا کرنا چاہیے۔ انسان اعتماد اور جرأت کا مظاہرہ اُسی وقت کرنا جب اُس کا دل صاف ہوتا ہے، خدا پر مکمل یقین ہوتا اور وہ حق کو ہر حال میں سر بلند رکھنا چاہتا ہے۔ اِس لیے ضروری ہے کہ پہلے اپنے دل کی صفائی کی جائے۔ خدا سے محبت کو سانس کی طرح مشروط کر لیا جائے۔ پھر اُس کی رضا ہر فعل میںملحوظ خاطر رکھی جائے تو زندگی کا راستہ آسان ہونے لگتا ہے۔ آج بھی ہمارے ارد گرد حق اور باطل کی علامت کے طور پر کردار موجود ہیں۔ خود ہماری اپنی ذات کے اندر یہ دونوں قوتیں برسرِ پیکار ہیں۔ ہم باطل کے خلاف لفظی جنگ لڑ رہے جبکہ ہمیں اپنے نفس اور معاشرے میں موجود برائی کو اپنے عمل سے ختم کرنا ہے۔
اُن سنہری اصولوں کو اپنانا ہے جن کی خاطر حضرت امام حسینؓ نے اپنی اور اپنے خاندان کی جان کا نذرانہ پیش کیا۔ ہماری آج کی عورتوں کو اپنی ذمہ داریوں سے آگاہ ہونا چاہیے۔ اگر وہ حضرت زینبؓ کی شخصیت کو اپنا آئیڈیل بنا لیں تو اُن میں ایک خاص طاقت پیدا ہو جائے گی۔ انھیں زندگی کا مقصد نظر آنے لگے گا۔ وہ حوصلہ مند اور بہادر انسان کی طرح مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے نہ ڈگمائیں گی اور نہ دنیا سے ڈریں گی۔ حضرت زینبؓ نے ثابت کیا کہ عورت بھی بہادر ہوسکتی ہے، وہ بھی ظالم کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کر سکتی ہے، وہ بھی اپنے قافلے کی سر براہ ہوسکتی ہے۔
اصل بات سوچنے اور عمل کرنے کی ہے خود میں وہ قوت پیدا کرنے کی جو ظالم کو للکار سکے۔ آخر میں ڈاکٹر صغرا صدف کے سلام کے چند شعر …؎
دل اگر کربلا نہیں ہوتا
شعر سے آشنا نہیں ہوتا
چاہتی ہوں کہ وہ زمیں دیکھوں
کیا کروں حوصلہ نہیں ہوتا
تھام لیتی ہوں چادرِ زینبؓ
جب کوئی آسرا نہیں ہوتا
=====