ایک ’کینیڈین شہری“ نے سرکس لگائی۔ عوام کی حالت بدلنے کا نعرہ لگا کر ”لانگ مارچ“ کا اعلان کیا۔ اخراجات کی مد میں حصہ ڈالنے کی اپیل پر خواتین نے ہاتھوں میں پہنیں چوڑیاں اتار کر دے ڈالیں۔ عوام الناس، خواتین خوف کریں، مذہبی و سیاسی قیادت نے آپ کے پاس پہلے ہی کچھ رہنے نہیں دیا۔ اب باقی رہا سہا بھی حیلوں بہانوں سے نکلوانے کی سازش ہے۔ واپسی کا انتظام بھی تو کرنا ہے کیونکہ سب سازشی تھیوریاں، ہتھکنڈے، زبان و بیان کی چاشنی پھیکی جو پڑ چکی ہے۔
سندھ حکومت نے لینڈ گرانٹ پالیسی (نافذ کردہ 2006) کے تحت ”27 ارب“ مالیت کی 14 ہزار ایکڑ زمین صرف 7 ارب میں ”507 منظورِ نظر“ ارکان میں کوڑیوں کے مول بانٹ دی۔ فیض یاب ہونے والوں میں ہم یا ہمارے جیسا کوئی آدمی شامل نہیں، اسکے باوجود ہم مُصر رہیں گے کہ یہی لوگ ہمارے ”ان داتا“ ہیں۔ نہیں سوچیں گے کہ یہ لوگ ”رہبر“ ہیں یا ”راہزن“ --- بیلٹ بکس بھر چکا ہے۔ ووٹ پڑے پڑے پھٹ چکے ہیں۔ عوامی نمائندگی کو زنگ آلودگی نے لپیٹ رکھا ہے تبھی حکومت نام کی کوئی شے نظر نہیں آ رہی۔ روٹی کپڑا مکان کے نعروں سے غریبوں کے دلوں میں نقب لگانے والی پارٹی کو یاد بھی نہیں کہ آج تینوں چیزیں کس قدر مہنگی اور غریب کی رسائی سے باہر ہو چکی ہیں مگر افسوس غریب بھولتا ہی نہیں کہ اب ”منشور“ نہیں ”منظورِ نظر“ کا دور ہے۔ مفلوک الحال لوگ نعرے کی زنگ آلودگی پر بھی یقین کئے بیٹھے ہیں کہ یہی ہمارے ”دیوتا“ ہیں۔ یہ لوگ ہی ہمارے مسائل کو حل کریں گے، دکھوں کا مداوا کریں گے۔ مظلوم اب بھی ظالم سے ہی انصاف کا متمنی ہے۔ خدا کرے کہ یہ آس قیامت تک تو پوری فرما دے۔ آمین!
توانائی بحران ملکی معیشت کو جی ڈی پی کے 3 سے 4 فیصد سالانہ نقصان پہنچانے کا موجب بن رہا ہے۔ اس بحران کو حل کرنے کے حکومتی بلند و بانگ دعوﺅں کے مقابلے میں حقائق بالکل برعکس ہیں۔ دوسری طرف سی این جی سٹیشن اور صنعتوں کو گیس کی فراہمی بند ہے، گھریلو صارفین کیلئے گیس لوڈشیڈنگ میں چھ فیصد اضافہ کر دیا گیا ہے۔ ہماری بجلی کی پیداواری صلاحیت 20 ہزار 500 میگا واٹ ہے مگر ہم صرف 9 ہزار 400 میگا واٹ پیدا کر رہے ہیں۔ انتظامی نااہلی، بدمعاملگی، فرسودہ مشینری سبب ملک کے گیارہ ہزار سے زائد دیہات بجلی سے مکمل طور پر محروم ہیں باقی جہاں بجلی موجود ہے وہاں کی صورتحال ہم آپ کے سامنے ہے مگر پھر بھی ہم بضد ہیں کہ یہی قیادت اگلے پانچ سالوں میں ہمارے گھروں میں دودھ شہید کی نہریں جاری کر دے گی ہمارے تمام مصائب کا خاتمہ ہو جائے گا۔
نماز، روزہ، زکوٰة ہمارے دین اسلام کے بنیادی عناصر ہیں۔ زکوٰة کی بروقت صحیح مصارف میں ادائیگی ہر مسلمان کا اہم دینی فریضہ ہے۔ اسلئے زکوٰة کے مصارف کا عین اسلامی روح کے مطابق ہونا بے حد ضروری ہے مگر یہ جان کر آپ کو پریشانی نہیں ہونی چاہئے کہ ”زکوٰة فنڈ“ کے 5 کروڑ روپے غربت کے بڑھتے گراف کو کم کرنے کی بجائے تعمیرات، سرمایہ کاری اور لگژری گاڑیوں کی خریداری پر صرف کر دئیے گئے، ایسا کرنےوالے ہمارے ہی بھائی بند ہیں۔ ہمارے اعمال افعال کا عکس ہیں۔ ہم نے ہی ان کو ”دیوتا“ بنا کر پوجنا شروع کیا اور اب ہماری ہڈیوں میں سے سارا عرق وہ چوس گئے ہیں۔ اس وقت پاکستانی معیشت غیر یقینی امن و امان، بدترین بجٹ خسارے، مہنگائی جیسے خطرات سے دوچار ہے۔ ٹیکس سسٹم صرف چند لاکھ لوگوں سے وصولی کی بنیاد پر کھڑا ہے۔ افراط زر کی بڑھتی ہوئی شرح الگ سے صورتحال سنگین ہونے کا اشارہ دے رہی ہے۔ رواں سال جی ڈی پی کی شرح 309 فیصد رہی۔ پیداواری سرگرمیاں اور کاروباری بڑھوتری سیاسی عدم استحکام سے شدید متاثر ہو رہی ہیں۔ براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری آہستہ آہستہ اپنا حجم کم کرتی جا رہی ہے۔ پاکستان ایسا ملک ہے جہاں کسی بھی سیاسی، مذہبی بیان یا ”واردات“ سے ”سٹاک مارکیٹ“ کریش کر جاتی ہے۔ ان حالات میں بیرونی سرمایہ کیسے آئےگا جبکہ ہمارا اپنا ”کاروباری طبقہ“ سراسمیگی کا شکار ہے۔ توانائی بحران کا جہاں ڈوبتی معیشت میں کلیدی کردار ہے وہاں دھرنوں مارچ، گھیراﺅ جلاﺅ بھی نظرانداز نہیں کئے جا سکتے۔ یہ سب سیاسی انتشار اور غیر جمہوری طرزِ فکر و عمل کا شاخسانہ ہے۔ اسکے باوجود ہم ایسے آزمائے ہوﺅں کو ہی اپنا ”دیوتا“ مانتے ہیں وہ جو ہماری بربادی کے ذمہ دار ہیں۔ ضرورت ہے ہمیں اپنے جنون کو کم کرنے کی ، پاگل پن کی حد کو چھوتی ہوئی لیڈروں سے منسوب دیوانگی کو نارمل انسانی حد میں لانے کی۔ لاتعلقی کی کیفیت بے حسی پیدا کرتی ہے جو کہ آجکل عام ہے۔ ہر طرف لاشیں گر رہی ہیں مگر بے حسی کی بھی انتہا ہے۔ اس طرح حد سے زیادہ پرستش انسان کو متکبر، گھمنڈی، ضدی، ظالم بنا دیتی ہے جس کا مظاہرہ ہمارے موجودہ حالات ہیں جو ہماری ہی پوجا کردہ قیادت کا نامہ اعمال ہے۔ غیر ضروری جذباتی پن نے ہم کو ایک مبہم اور ناقابل شناخت دشمن کے حوالے کر دیا ہے۔ ہر طرف سے ہم پر یلغار جاری ہے۔ اس کا دوش ہم کسی ایک فریق پر نہیں ڈال سکتے۔ ہمیں چاہئے کہ ہم مثبت سمت کی جانب پیشقدمی کریں۔ حالات و واقعات کو زمینی حقائق کی روشنی میں دیکھنے کا عادی کریں۔ انسان کو انسان سمجھیں ”دیوتا“ نہیں۔ دیوتا ”دیوتا“ ہی رہتا ہے۔ حالات نہیں بدلتے صرف اپنے مقصد سے لگن، دعائیں مقدر بدلنے کا باعث بنتی ہیں۔ اپنے حالات کو بدلنے کی خود سے تدبیر کریں۔ یہ جو تازہ ”سیاسی اکٹھ“ ہوا ہے یہ آپکی بہتری یا خوشحالی کی خاطر نہیں ہوا بلکہ اپنے اقتداری مفادات کے تحفظ کےلئے 65 سالہ اشتراک کی توثیق ہے۔ مارچ فیکٹر کو بطور لیور استعمال کیا گیا تاکہ سب کیلئے قابل قبول ڈھانچے میں ہلکی سی تبدیلی یا دراڑ بھی نہ آنے پائے۔ پھر بھی ہم کہیں گے کہ سب بھول جائیں، لوٹ مار، کرپشن، ظلم بند کر کے اب صرف اس بدحال مخلوق کے حال پر رحم کر کے کچھ اس کی جھولی میں بھی کچھ ڈالنے کی تیاری کریں جو آپ کو پوجتی ہے، اپنا گھر بار چھوڑ کر پیدل ہی آپکی لگژری سواری کے پیچھے چل پڑتی ہے۔ ذمہ دار ادارے اس امر کو بھی ممکن بنائیں کہ آئندہ ایسی خلاف آئین اپیل، مارچ کو ایک روٹین نہ بننے دیں ورنہ پورا ملک تماشا گاہ بن کر رہ جائےگا۔ اتنی آزادی، بدمعاشی نہیں ہونی چاہئے کہ حکومت کو ہی مفلوج کر کے رکھ دیا جائے۔ اسکے ساتھ ”سیاسی جماعتوں“ کو چاہئے کہ وہ ”موروثیت“ کو ترک کر دیں۔ اب آئین کے مطابق الیکشن کے انعقاد کو ممکن بنائیں۔ اس وقت سے بچنا چاہئے جب تشدد اور کنٹرول سے باہر احتجاج عوامی نمائندگی کے مراکز کا رُخ کرے۔ اسوقت پاکستان کو لاحق خطرات کا واحد حل ”ڈائیلاگ“ ہے۔ طالبان ہوں یا ناراض بلوچ بھائی، ہر اس فریق سے مذاکرات، بات چیت ضروری ہے جس کا بالواسطہ یا بلاواسطہ تعلق اس سرزمین سے ہے۔ ہم کسی بھی ناراض شخص، ادارے یا قوم کے ساتھ نہ تو مزید عناد پال سکتے ہیں نہ ہی حق نمائندگی کو نظر انداز کرنے کی پوزیشن میں ہیں مگر ”کینیڈین مولانا“ سے مذاکرات کا عمل اور مطالبات کی منظوری کو کسی طور بھی مستحسن قرار نہیں دیا جا سکتا کیونکہ الیکشن تو بہرطور وقت پر ہونا ہیں اس بات کی گارنٹی سپریم کورٹ پہلے ہی لے چکی ہے یہ تو مولانا کو ناکامی کے اثرات سے بچانے کا ڈرامہ ہے۔ ڈائیلاگ صرف نمائندہ افراد ، نمائندہ گروپ سے ہونا چاہئے۔ ایک ایسے شخص سے یہ سب کچھ اچھا نہیں لگا اس طرح کر کے ایک ایسی مثال قائم کر دی گئی ہے جس کو بنیاد بنا کر کل کوئی بھی شخص پورے نظام کو مفلوج کر دے گا، سب کچھ دیکھ کر دلی دکھ ہوا۔ ایک ایسا شخص جس کے پاس کوئی سیاسی قوت نہیں، نمائندگی نہیں .... واہ اس شخص کو داد دینے کو دل چاہ رہا ہے جس نے یہ سارا سکرپٹ تیار کیا۔ مارے تو بے چارے عوام گئے۔ عوام کی حالت بدلنے والا سرد موسم کے حوالے کر کے اپنے پیروکاروں کو خود ان کی حالت بدلنے کیلئے پُرآسائش بم پروف بنکر میں بیٹھ کر بیچارہ ہلکان ہوتا رہا اور وہ جن کی حالت بدلنی مقصود ہے باہر برف کی سی یخ بستہ فضا میں سکون سے بیٹھ بیٹھ کر، نزلہ زکام بخار جیسی معمولی بیماریوں کا شکار ہو گئے مفاہمتی سیاست جیت گئی عوام پہلے کی طرح پھر ہار گئے۔ کیا یہ سب ڈرامہ تماشا سرکس کی سیاست اب بھی آپ کو باور کروانے میں ناکام رہی کہ ہم سب انسان ہیں۔ انسان کو انسان سمجھو دیوتا نہیں کیونکہ بُرقعوں حجاب میں لپٹی خواتین سڑکوں پر سرعام ڈانس نہیں کرتیں، چند گھنٹوں میں اس معاہدے کے بخئے اُدھیڑ جائینگے۔ سب ”درون خانہ راز ہائے درد فروخت طشت ازبام ہو جائےگا۔
عاشقانِ عمران خاں کی مایوسی کے عکاس ضمنی انتخابات کے نتائج
Apr 23, 2024