گھر کی جانب جانیوالے راستوں جیسا ہے وہ

چند روز قبل بلوچستان سے غوث بخش بارزوئی کا فون آیا۔ وہ مجھے سالگرہ مبارک کا پیغام دے رہے تھے۔ آپ یقین کریں یہ کوئی مبالغہ نہیں کہ مجھے خود بھی ان کے فون سے پتہ چلا کہ آج میری سالگرہ کا دن ہے۔ وہ بڑی شاندار شخصیت کے آدمی ہیں۔ وہ نگران وزیراعلیٰ بلوچستان رہے ہیں۔ مگر ایک بہت بڑے درویش ہیں۔
لاہور آتے تو نظریۂ پاکستان ٹرسٹ بھی آتے۔ برادرم شاہد رشید کے کمرے میں دیر تک بیٹھتے۔ ان سے ملاقاتیں تو چند ایک ہیں مگر وہ نہ بھلائی جانے والی شخصیت ہیں۔ اتنا سادہ تو میں نے کوئی نگران وزیر بھی نہ دیکھا ہوگا۔ سادہ آدمی ہیں۔ اس لئے آسودہ آدمی ہیں۔
بڑے دنوں سے اب کبھی لاہور نہ آئے تھے۔ 16 ستمبر کو میری سالگرہ کے دن ان کا فون آگیا۔ حیرت ہوئی کہ آج میری سالگرہ کادن ہے اور بارزوئی صاحب کا فون بلوچستان سے آیا ہے۔ نجانے کیوں میرے دل میں خیال آتا ہے کہ انہیں پاکستان کا صدر ہونا چاہئے تھا۔
آج علی پور ضلع مظفر گڑھ سے بھی ایک ممتاز خاتون زوبیہ کا فون آیا۔ میں علی پور گیا ہوں۔ جب میرے والد محترم ایس ایچ او تھانہ کندائی تحصیل علی پور تھے۔ علی پور سے گزر کر کندائی جانا پڑتا ہے۔ زوبیہ سے ملاقات نہیں ہوئی۔ فون پر بات ہوئی ہے۔ آج اس کا فون آیا۔ اس میں سالگرہ کا ذکر نہ تھا۔ مگر اب مجھے جوفون آئے گا‘ میں تو سالگرہ کا فون سمجھوں گا۔ چند بار کی گفتگو سے اندازہ ہو جاتا ہے۔ وہ بہت شائستگی سے باتیں کرتی ہے۔ دور افتادہ علاقوں میں ایسے لوگ ہوتے ہیں جو گمشدہ رازوں جیسے ہوتے ہیں۔
وہ وہاں ٹیچر ہے۔ میں نے اسے کہا کہ عورت اصل میں ٹیچر ہے۔ اس نے میری بات میں اضافہ کیا۔ وہ ٹیچر ہے کہ وہ مدر ہے‘ اچھی مدر اچھی عورت اور اچھی ٹیچر ہوتی ہے۔ میں اکثر کہتا ہوں کہ ماں خدا کی طرح عظیم ہے۔
مرشد و محبوب مجید نظامی نے محترمہ فاطمہ جناح کو مادر ملت کا خطاب دیا جسے لوگوں نے دل و جان سے چاہا اور قبول کیا۔ مادر ملت مجید نظامی سے ملاقات کیلئے نوائے وقت لاہور آئی تھیں۔
میں نے کبھی اپنی سالگرہ نہیں منائی۔ سالگرہ بچوں کا فنکشن ہے یا بوڑھوں کا فنکشن ہے۔ بچے جتنی چھوٹی عمر کے ہوں‘ سالگرہ اتنی مزیدار ہوتی ہے۔ بوڑھے جتنی بڑی عمر کے ہوں تو تاثر اچھا ہوتا ہے۔ بچے چاہتے ہیں کہ وہ بڑے ہو جائیں۔ بوڑھے چاہتے ہیں کہ وہ بچے بن جائیں۔
اب میرے گھر میں پانچ سالگرہیں تو بہرحال منائی جاتی ہیں۔ میرا ایک نواسا ایک نواسی دو پوتے اور ایک پوتی۔ ان سب نے مل کر ایک سازش کی۔ کسی کو پتہ بھی نہ چلنے دیا۔ میں اپنی آنکھوں میں تکلیف کیلئے ڈاکٹر ندیم ریاض سے مل کر ذرا دیر سے گھر پہنچا۔ میری اہلیہ رفعت خانم میرے ساتھ تھی۔ سب انتظامات کرکے میرا انتظار کیا جا رہا تھا اور مجھے پتہ بھی نہ تھا۔
مجھے یاد ہے کہ میرے لئے پہلی سالگرہ دوست شاعرہ فوزیہ مغل نے منائی۔ وہ آجکل جرمنی میں ہوتی ہے۔ وہاں بھی لکھنے پڑھنے کا کام وقت ملنے پر کرتی ہے۔
میں نے پوچھا کہ تمہیں میرے سالگرہ کے دن کا پتہ کیسے چلا۔ اس نے کہا کہ میں نہیں بتائوں گی تو میں نے کہا کہ میں اپنی سالگرہ کی تقریب میں نہیں آئوں گا۔ فوزیہ نے کہا کہ ٹھیک ہے تم نہ آئو۔ ہم تمہاری تصویر سے کام چلا لیں گے۔ میں پریشان ہو گیا کہ میرے جیتے جی میری تصویرسے لوگ کیا معانی نکالیں گے۔ میں چلا گیا۔ بڑا مزا آیا۔
جن مقررین نے تقریریں کیں‘ کسی نے بھی میری سالگرہ کا ذکر نہ کیا۔ میں بڑا خوش ہوا۔ فوزیہ مغل بھی خوش ہوئی۔ اس کا مقصد صرف میرے ساتھ تقریب تھی۔ میں نے اپنے بارے میں کوئی تقریب ہونے بھی نہ دی۔ ایک تقریب مجھے یاد ہے جب مجھے ستارۂ امتیاز ملا۔ اس تقریب میں خاص طورپر محسن دوست ڈاکٹر بابر اعوان اسلام آباد سے تشریف لائے تھے۔ میرے لئے ستارۂ امتیاز کا کریڈٹ بھی انہی کو جاتا ہے۔
دوست کالم نگار کبھی کچھ اشعار بھی کالم کے آخر میں لکھتے ہیں کچھ دوست تو اپنے اشعار ہی کالم میں لکھ دیتے ہیں۔ آج میرا بھی جی چاہ رہا ہے کہ میں کچھ اپنے اشعار اپنے کالم میں لکھ دوں۔ میرے قارئین جانتے ہیں کہ میں شعر بھی لکھتا ہوں جبکہ اب کچھ لوگو ں نے یہ خبریں پھیلائی ہوئی ہیں کہ میں نے شاعری چھوڑ دی ہے۔
شاعری میری پہلی محبت ہے اور اس کا وہی حشر ہوا ہے جو پہلی محبت کا ہوتا ہے مگر شکر ہے کہ اس محبت کا فائدہ میری ہر تخلیق میں بکھرتا ہے اور کبھی کبھی نکھرتا بھی ہے۔ حتیٰ کہ کالم میں بھی اس کے اثرات شامل ہوجاتے ہیں۔ میں غزل کو زیادہ پسند کرتا ہوں تو میری ایک غزل کے چند اشعار؎
گھر کی جانب جانے والے راستوں جیسا ہے وہ
منزلوں سے پیشتر ہی منزلوں جیسا ہے وہ
یاد آتا ہے مصیبت میں دعائوں کی طرح
رات کے پچھلے پہر کی سسکیوں جیسا ہے وہ
اس کی فطرت میں وفا ہے اس کی آنکھوں میں حیا
دشمنوں کے ساتھ ہے اور دوستوں جیسا ہے وہ
ہر طرف اجلے دسمبر کی سحر پھیلی ہوئی
موسم سرما کی پہلی بارشوں جیسا ہے وہ
آس پاس اس کے ہزاروں تیرتے لوگوں کے ہاتھ
سانولے سوہنے اکیلے ساحلوں جیسا ہے وہ
اس کے اندر ہجر کی مستی تڑپتی ہے بہت
کانپنے ہاتھوں میں گرتے آنسوئوں جیسا ہے وہ

ای پیپر دی نیشن