دس سال قید کی سزا کاٹنے کے لیے جیل جانے والے سابق نااہل وزیر اعظم میاں محمد نواز 2ماہ چند دن جیل میں گزارنے کے بعد رہا ہوگئے، یہ رہائی اسلام آباد ہائیکورٹ کی جانب سے احتساب عدالت کی سزا معطل ہونے کے بعد ملی ہے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب پر مشتمل دو رکنی بنچ نے نواز شریف، مریم اور کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کی سزا معطلی کی اپیلوں پر سماعت کی۔ نیب پراسیکیوٹر اکرم قریشی کے دلائل اور نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث کے جوابی دلائل مکمل ہونے کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس اطہر من اللہ نے مختصر فیصلہ پڑھ کر سنایا۔ہائیکورٹ نے احتساب عدالت کا فیصلہ معطل کرتے ہوئے نواز شریف، مریم اور کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کو رہا کرنے کا حکم دے دیا۔ عدالت نے تینوں ملزمان کو پانچ پانچ لاکھ روپے کے ضمانتی مچلکے جمع کرانے کا حکم دیا۔ اس فیصلے کے فوری بعد وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ پاکستان میں عدالتیں آزاد ہیں، ہم عدالتوں کا مکمل احترام کرتے ہیں اور پہلے فیصلوں کی طرح آج کے فیصلے کا احترام بھی واجب سمجھتے ہیں، معاملہ آگے بڑھے گا اور قانون یقیناً اپنا راستہ لے گا۔قومی احتساب بیورو ایک آزاد اور خودمختار ادارہ ہے اور اپنی سرگرمیاں خود کرتا ہے، حکومت کا اس میں کوئی کردار نہیں، حکومت اور عوام کرپشن میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی چاہتے ہیں، قوم چاہتی ہے کہ لوٹی گئی دولت واپس لائی جانی چاہیے، حکومت اس بنیادی ہدف کا حصول یقینی بنائے گی۔ شریف خاندان کے کردار کے حوالے سے قوم کی نظروں میں کوئی ابہام باقی نہیں، شریف خاندان ابھی بھی ثابت نہیں کرسکا کہ ان کی ملکیت میں اربوں روپے کہاں سے آئے۔جبکہ اپوزیشن بھی اس فیصلے سے قدرے قدرے ناخوش نظر آئی، قمر الزمان کائرہ کا کہنا تھا کہ انہیں اندازہ تھا اسلام آباد ہائیکورٹ ضمانت دے دے گی، نواز شریف کو ہمیشہ ریلیف ملتا رہا، آج بھی مل گیا۔لیکن اُن کا بھی کہنا تھا کہ عدالت کا فیصلہ ہے سب کو تسلیم کرنا ہوگا، کمزور انویسٹی گیشن کی وجہ سے ہمیشہ طاقتور بچ جاتا ہے۔لہٰذا تفصیلی فیصلہ آئے گا تو پتا چلے گا کن نکات پر ریلیف دیا گیا ہے، ابھی سزا معطل ہوئی، نواز شریف کو مقدمے کا سامنا کرنا پڑے گا، جو جائیدادیں تسلیم کی تھیں ان کی منی ٹریل تو دینا پڑے گی۔
اس فیصلے کے فوری بعد نیب کا بھی اعلیٰ سطح کا اجلاس ہوا، جس میں سزائیں معطل ہونے کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ جانے کا فیصلہ کیا گیا۔میرے خیال میں نواز شریف کے لیے یہ عارضی ریلیف ہے، حیران ہوں کہ جو ن لیگی کچھ دن پہلے عدلیہ کے خلاف باتیں کرتے نہیں تھکتے تھے آج وہ بھی عدلیہ کی تعریف کر رہے ہیں۔ نواز شریف نے اپنی نااہلی کے بعد جلسوں میں لگائی گئی عوامی عدالت میں کہا کہ پانچ ججز نے عوام کے ووٹوں سے منتخب وزیراعظم کو نااہل کردیا۔
شاید کسی کو یہ بھی یاد نہیں کہ یہ وہی فرد واحد (مجرم) ہے جو ملک کے تمام اداروں کو کمزور کرنے میں اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتا۔ احتساب کا ادارہ ہو، خزانہ ہو، خارجہ ہو، داخلہ ہو، بیوروکریسی ہو یا ملکی سلامتی کے ادارے ہوں اس ’’فرد واحد‘‘ نے جہاں تک بن سکا ان اداروں کو ذاتی مقاصد کے لیے انتہا کی حد تک کمزور کر دیا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ جس شخص کو رہائی ملی ہے وہ اب بھی پاکستان کے لیے کس قدر انتشار کا باعث بنتا ہے۔ کیا وہ ملک میں اداروں کے ٹکرائو کا باعث بنے گا یا عدلیہ کا احترام کرتے ہوئے اُن کا سامنا کرے گا۔چلیں اس بات کی تو خوشی ہے کہ اگر احتساب ہو رہا ہے تو علی الاعلان سب کا ہو رہا ہے۔ اکیلے شریف خاندان کا نہیں ہو رہا، مشرف کو بھی بلا لیا گیا ہے، چودھریوں کے بھی چکر لگ رہے ہیں، علیم خان، بیوروکریٹس اور زرداری بھی نرغے میں آچکے ہیں۔ اس لیے یہ کہا جائے کہ نواز شریف یا ن لیگ کو ہی نشان عبرت بنایا گیاتو یہ سراسر نا انصافی ہوگی۔ ناانصافی اس لیے بھی ہوگی کہ جس فیصلے پر نواز شریف اور ان کی بیٹی کو سزا ہوئی وہ کس قدر صداقت پر مبنی ہے کس قدر نہیں… اسے جاننے کے لیے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں ہے۔ اور نہ اس پر مغز کھپانے کی ضرورت ہے کہ نواز شریف کتنے دیانت دار ہیں کتنے نہیں۔ اس کے لیے یہ ذہن نشین کرنا ہوگا کہ ان کے خاندان نے جنرل ضیاء الحق کی چھتر چھایہ تلے ایوان اقتدار میں قدم رکھا تو ان کے کاروبار کو بھی دن دوگنی اور رات ہزار گنا ترقی مل گئی۔ ساری صنعتی و مالیاتی ترقی 1980اور 1990کی دو دہائیوں میں ہوئی۔ ان دو دہائیوں میں نواز شریف پنجاب کے وزیر خزانہ، دوبار وزیر اعلیٰ اور تین بار وزیر اعظم بنے۔ کیا انہوںنے پنجاب کا وزیر خزانہ بننے کے بعد خاندانی کاروبار سے علیحدگی اختیار کی؟ ان کے بچے 1993ء سے ایون فیلڈ والے فلیٹ میں مقیم ہیںاور جس فلیٹ میں وہ مقیم ہیں اور بیٹھ کر نئی حکمت عملیاں طے کر رہے ہیں وہ اُن کی ملکیت کے حوالے سے بھی کلیئر نہیں ہیں۔ یہ تو بالکل ایسے ہی ہے جیسے ایک بچہ باہر سے کوئی چیز لے کر آئے اور اس کا باپ پوچھے کہ یہ کہاں سے لے کر آئے ہو تو بچہ کہے کہ ثابت کر کے دکھائیں کہ یہ چوری کی ہے… اگر پہلے کرایہ دار کے طور پر مقیم تھے تو کرایہ نامہ کہاں ہے؟ حدیبیہ پیپر مل اور برطانوی بینک، التوفیق کے مالیاتی تنازع میں کیسے یہ فلیٹس بنک کی ملکیت میں چلے گئے۔ یعنی کچھ بھی صاف شفاف نہیں ہے ہر طرف دھندلا پن ہے۔
اور یہ اسی نواز شریف کا دور گزرا ہے جس کے اثرات ابھی تک محسوس کیے جا رہے ہیں اوراگلی ایک دہائی تک محسوس کیے جاتے رہیں گے۔ کیوں کہ 200ارب ڈالر کی واپسی بھی اسی دس سالوں میں ہونی ہے۔ 2013 میں پاکستان پر کل بیرونی قرضہ 48.1 ارب ڈالر تھاجو65سالوں میں لیا گیا جس کو نواز شریف نے اپنے چار سالہ دور حکومت میں 90 فیصد بڑھا کر 92ارب ڈالر تک پہنچا دیا ہے۔نواز حکومت نے صرف 5سالوں میں 44 ارب ڈالر کا ریکارڈ قرضہ لیا گیا جوکہ اب تک کا سب سے زیادہ قرضہ ہے جس کی وجہ سے عالمی مالیاتی اداروں کا پاکستان پر سے بھروسہ ہی اٹھ گیا ہے۔ جبکہ اندرونی قرضوں کی بلند ترین سطح دیکھی جائے تو نواز حکومت کے ابتدائی سال میں ملک کا اندرونی قرضہ 14138 ارب روپے تھا جو اب 25 ہزارارب
روپے تک جا پہنچا ہے۔پاکستان کے بڑے سرکاری اداروں سٹیل مل، پی آئی اے اور پاکستان ریلوے کو سال 2012-13میں تقریباً 450 ارب روپے کے خسارے کا سامنا تھا جبکہ نواز حکومت نے اس کو مزید بڑھا کر 770 ارب روپے تک پہنچا دیا ہے۔ یہ اب تک کا ملکی اداروں کا ریکارڈ توڑ خسارہ ہے جس کا سہرا نواز شریف کے سر جاتا ہے۔ 2008ء کے اختتام تک فی کس قرض 30ہزار روپے تھا جو 2013ء تک 70ہزارروپے ہو گیا اور اب یہ یہی اندرونی و بیرونی قرضوں کو ملاکر ڈیڑھ لاکھ روپے فی کس پاکستانی ہو چکا ہے۔ اسی طرح آج معیشت پر دبائو کی وجہ سے ڈالر 125روپے کا ہوگیا ہے۔ بہرکیف قوم کو اب فیصلہ کرنا ہے کہ اسے کب، کس نے اور کہاں لوٹا اور اس کی کیا سزا ہونی چاہیے اور آئندہ اگر کوئی لوٹے تو اس کی سزا کیا ہونی چاہیے، جب تک یہ فیصلہ نہیں ہوگا۔ ہم نئے راستوں کا تعین نہیں کر سکیں گے۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024