زمبابوے کی ٹیم اب تو کیا کبھی بھی تین میں رہی نہ تیرہ میں۔ آج اس کا پاکستان میں اپنے ہیروز کی طرح استقبال ہو رہا ہے۔ کرکٹ انتظامیہ اور شائقین زمبابوے کے کھلاڑیوں کی راہ میں پلکیں بچھا رہے ہیں۔ بس میں ہوتا تو آسمان سے تارے توڑ کر انکی مانگ میں سجا دیتے اور کائنات میں رقصاں کہکشائیں لاکر انکوتحفے کے طور پر تھما دیتے۔ آج ہمیں ان کالوں کے چہروں سے نور کے چشمے پھوٹتے محسوس ہوتے ہیںاس لئے کہ جب دنیا کی کوئی ٹیم پاکستان آنے پر تیار نہیں‘پاکستان میں دہشت گردی کا واویلا ہو رہا ہے۔ان حالات میں واقعی زمبابوے کی ٹیم کا دورہ، پاکستان پر احسان ہے۔ اگرکوئی خدانخواستہ ناخوشگوار واقعہ نہ ہوا تو پاکستان میں رکی ہوئی بین الاقوامی کرکٹ پھر پہلے کی طرح رواں دواںہو سکتی ہے۔ ہمیںعالمی کرکٹ کو اعتماد دلانے کیلئے ایک دو اور ٹیموں کو پاکستان آنے پر قائل و مائل کرنا ہوگا۔ خواہ وہ آئرلینڈ ، یو اے ای اور افغانستان کی ٹیمیں ہی کیوں نہ ہوں۔ جہاں پاکستان کی سفارتکاری کو بھی داد دینا پڑتی ہے کہ بھارت نے کراچی میں اسماعیلیوں کے ساتھ بہیمانہ دہشتگردی کو اس طرح اچھالا جیسے پاکستان کاکونہ کونہ، قریہ قریہ بدترین دہشتگردی کی لپیٹ میں ہے۔ زمبابوے کے دورہ پاکستان کو بھی خطرناک قرار دیا گیا۔ پراپیگنڈے سے متاثر ہوکر زمبابوے نے دورہ منسوخ کر دیا۔ ایسے حالات میں بحالی ناممکن ہوتی ہے۔ پاکستان نے سفارتکاری کے ذریعے کم از کم اس ناممکن کو ممکن بنا دیا۔ اب ٹیم کی حفاظت کے حوالے سے غفلت اور کوتاہی کی گنجائش ہی نہیں ہے۔دشمن موقع کی تلاش میں ہے۔ معمولی سا واقعہ بھی پاکستان میں کھیلوں کے مستقبل کو تاریک کر سکتا ہے۔ادھر زمبابوے کی ٹیم کے استقبال کی تیاریاں ہورہی تھیں۔کیمرے اسی پرفٹ تھے کہ کاریگروں نے یکسر کیمروں کا رخ دوسری طرف موڑ دیا۔ ایگزیکٹ کے فراڈ کی ہلچل مچ گئی۔ امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے کہا کہ ایگزیکٹ کمپنی کی آمدن کا سب سے بڑا ذریعہ جعلی اسناد کی فروخت ہے۔ یہ ایک الزام ہے۔ عدالت کا فیصلہ یا تحقیقاتی رپورٹ نہیں۔ اس پر دو تین چینلزکی نان سٹاپ نشریات سے معاملہ زیادہ ہی سنجیدہ اور سنگین محسوس ہوا۔ لگا کہ اس خبر سے پورے ملک میں آگ لگ گئی ہے۔ڈان،وقت نیوزاور معدودے چند چینلز پر زمبابوے ٹیم کا دورہ ہی اہم موضوع تھا۔ایگزیکٹ کے مبینہ فراڈ کی خبرمیرٹ پر چلائی گئی۔ایک دو چینلز کے اینکرز ایگزیکٹ پر جھپٹ کے پلٹ اور پلٹ کے جھپٹ رہے تھے اسکے بعد ریٹنگ کیلئے بھیڑ چال تھی۔اینکرزکوجذبات سے مغلوب بلکہ حواس باختہ ہوتے دیکھ کر شک گزرا ۔ شعیب شیخ کا نام لیا گیا تومیڈیا میں درو دیوار ہلانے کا سبب معلوم پڑگیا۔ آئی ایس آئی کے چیف کی مسلسل پانچ گھنٹے تصویر لگا کر بہادری دکھانے والا چینل ہی ایگزیکٹ کے حوالے سے سرخیل ہے۔ ایگزیکٹ نے فراڈ کیا ہوگا مگر دو تین چینلز پر ضرورت سے زیادہ کوریج پیشہ ورانہ رقابت کی وجہ سے ہو رہی ہے۔لگتاہے بول نے جن کے بندے توڑے وہ نیویارک ٹائمز کی خبر کو لیکر اس پر ٹوٹ پڑے ہیں اور اپنے مقصد میں کامیاب بھی ہو رہے ہیں۔ ”ایگزیکٹ“ والوں کی بولتی بند ہونے کا قوی امکان ہے۔ پاکستان میں جو جتنا بدنام اس کا اتنا ہی اونچا نام ہوتا ہے۔ یہ کام ایگزیکٹ اور بول کے مخالفین بخوبی کر رہے ہیں۔ ایان علی کاکئی لوگوں نے نام بھی نہیں سنا تھا۔ وہ سیکنڈلائز ہوئی تو اس کی ایک ایک اداپر دنیا کی نظر ہے‘ کوئی اسے مجرم اور کوئی مہ تاباں چہرے کو دیکھ کر معصوم سمجھتا ہے۔ جیل کی صعوبت اسے میک اپ سے دور کر سکی نہ جیل انتظامیہ اس کی میک اپ آرٹسٹ سے۔گزشتہ روز زرداری صاحب خوب بولے اور” سچ“ بولے ، فرمایا”18ویں ترمیم کی موجودگی میں سندھ میں گورنر راج کا کوئی خطرہ ہے نہ ہی وزیراعلیٰ سندھ قائم علی شاہ کو تبدیل کیا جا رہا ہے۔ ناراض کارکنوں کے گھروں میں بلاول، آصفہ اور میں خود جاو¿ں گا۔ ذوالفقار مرزا کسی کے اشارے پر ناچ رہا ہے۔ بلاول بھٹو زرداری اپنی تعلیم مکمل کرکے دبئی آ گئے ہیں اور جلد پاکستان آ جائینگے۔ ہمارے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے سرائیکی علاقے میں بہت ترقیاتی کام کرائے۔ ایم کیو ایم نے ضمنی الیکشن میں کامیابی حاصل کرکے جان پکڑ لی ہے۔ سندھ میں ڈاکو راج ہم نے ختم کیا۔ بلدیاتی انتخابات میں کارکنوں کو ٹکٹ دئیے جائینگے۔ مجھے جادو کی چھڑی سے کوئی خوف نہیں۔ مجھے گورنر راج سے کوئی خوف نہیں۔“ جیسے بڑی مچھلی چھوٹی مچھلیوں کو کھا جاتی ہے ۔اوپر بیان کی گئی سچائیاں ،اس بڑی سچائی کے سامنے ہیچ ہیں کہ ” پیپلزپارٹی آج بھی ملک کی سب سے بڑی پارٹی ہے۔ اگر امپائر نیوٹرل ہو جائے تو پیپلزپارٹی آج بھی ا±سی جگہ پر آ جائیگی جہاں پہلے کھڑی تھی“۔ ذوالفقار مرزا نے زرداری صاحب پر کئی قتل ڈال دیئے۔ اس کا جواب کاﺅ بوائے بننے کا مقدمہ درج کرنا نہیں اسے عدالت لے جا کر جھوٹا اور خود کو سچا ثابت کرنا ہے۔پرویز رشید بزعم خویش ارسطو و افلاطون ہیں۔ انہوں نے نجانے کس زعم پر مدارس کو جہالت کی یونیورسٹیاں کہا اورجس طرح لاﺅڈ سپیکر کے پانچ بار استعمال کی بات کی، وہ مذہبی حلقوں کو اشتعال دلانے والی تھی۔ انہوں نے ”موت کا منظر مرنے کے بعد کیا ہوگا“ کتاب کا قہقہہ لگاتے ہوئے مذاق اڑایا‘ اس پر شدید ردعمل فطری امر تھا۔ پاکستان میں تو کسی پر توہین مذہب کا محض الزام ہی اسکی زندگی کو عذاب بنانے کیلئے کافی ہے۔پرویز رشیدنے سب کچھ میڈیا کے سامنے کہا۔ اب سینٹ میں پرویز رشید نے کہا ہے کہ اگر کسی کی دل آزاری ہوئی ہے تو اس پر نہ صرف نادم ہوں بلکہ معافی بھی مانگتا ہوں۔ساتھ جوش جذبات میں آکر کہتے ہیں میں آپکے سامنے ہوں۔ مقدمہ چلائیں اور سزا دیں۔یہ بھی انکی طرف سے بڑا بول ہے۔ان کو مولانا عطاءالرحمٰن کے رویے پر ملال ہے جنہوں نے تحریک التوا جمع کرائی۔ پرویز رشید سرکاری ملا مذہبی امورکے وزیر سردار یوسف اور درباری ملا اشرفی کے دلاسے پر اکتفا نہ کریں ۔حقائق کومد نظر رکھیں۔ پرویز رشید ایک طرف معذرت کر رہے ہیں‘ دوسری طرف کچھ غصے کا اظہار بھی کررہے ہیں۔ کہتے ہیں کہ مولانا عطاءالرحمن اور پروفیسر ساجد میر ایک دوسرے کے مدرسے میں تو داخل نہیں ہو سکتے‘ میرے خلاف اکٹھے ہو گئے۔ پرویز رشیدصاحب اسی سے معاملے کی حساسیت کا اندازہ کر لیں۔ مذہب کے معاملے میں فروعی اختلافات کی کوئی اہمیت نہیں رہتی۔ پرویز رشید اس دن کچھ زیادہ ہی بول گئے اور ہوش و حواس میں بولے تھے جس کا اب بھی دفاع کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔وہ مولویوں سے نہیں خدا سے معافی مانگیں۔ پیر افضل قادری اور علامہ خادم حسین رضوی آج پریس کانفرنس میں سواد اعظم کا نقطہ نظر پیش کریں گے ۔دیکھیں اس سے پرویز رشید صاحب کیلئے کیا گنجائش نکلتی ہے۔
ایرانی صدر کا دورہ، واشنگٹن کے لیے دو ٹوک پیغام؟
Apr 24, 2024