امن وامان کی فضا کب پیدا ہوگی؟
قیام پاکستان کے بعد عوام کیلئے اپنی جان و مال کا تحفظ اور انصاف کا حصول ایک خواب ہی رہا ہے اگرچہ مختلف سیاسی و فوجی حکومتوں نے اربوں کھربوں کے ا خراجات کر کے عوام کے اس خواب کو حقیقت کی تعبیر دینے کی بے شمار کوششیں کیں مگر انگریز کے غلام قوموں کیلئے بنائے گئے پولیس سسٹم اور تھانہ کلچر میں کوئی تبدیلی نہ آسکی انگریز تو ملک سے چلے گئے لیکن سسٹم آج بھی انہی کا چل رہا ہے یقنناًوہ ایک ایسا سسٹم دے کر گئے کہ وہ ہزاروں میل دور بیٹھنے کے باوجود اپنے ایجنٹوں کے ذریعے ہم پر حکومت کر رہے ہیں ہمیں اپنی قسمت بدلنے کیلئے ایسے ایجنٹوں کی پہچان کرنا ہوگی ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر وہاڑی عمر سعید ملک بھی ڈیڑھ سال قبل عوام کے اس خواب کو حقیقت کا رنگ دینے کیلئے بڑے جوش اور جذبے کے ساتھ وہاڑی میں تعینات ہوئے اور انہوں نے پولیس ملازمین کیلئے جہاں سخت احتسابی عمل کا آغاز کیا وہاں پولیس کو جدید ٹیکنالوجی سے لیس کر کے جدید خطوط پر استوار کرنے کیلئے بے شمار اقدامات اٹھائے چند روز قبل بھی انہوں نے ڈی ایس پی صدر فضل حسین کی انکوائری رپورٹ کی روشنی میں تھانہ لڈن کے ASIاللہ دتہ کو ہیڈ کانسٹیبل بنا کر اسے نوکری سے ڈس مس کر دیا اور باقی13 شکایات کی انکوائری جلد مکمل کرنے کی ہدایات کی قبل ازیں بھی ڈی پی او اس طرح کے لاتعداد اقدامات کر چکے ہیں جس کی وجہ سے آر پی او ملتان چوہدری محمد ادریس کی جانب سے انہیں شاندار کارکردگی پر تعریفی سرٹیفکیٹ سے بھی نوازا گیاہے لیکن دوسری جانب پولیس سسٹم کا ہاتھی سدھنے کانام ہی نہیں لے رہا سابق آر پی او کی ہدایات پر ڈی پی او نے تھانوں سے فرنٹ ڈیسک کے ذریعے عوام کی شکایات ون ونڈو کے تحت نمٹانے کامنصوبہ بھی نافذ کیا جو کہ چند ماہ تو میڈیا میں مثالی اقدام کے طور پر دیکھا جاتا رہا لیکن آر پی او کی تبدیلی کے بعد فرنٹ ڈیسک کے منصوبے میں جان نہ رہی اور اب وہی پرانے طور طریقے بحال ہو چکے ہیں یہ بات درست ہے ہمارے ضمیر میں یہ چیز شامل ہے کہ ہم پیار کے ماحول میں ناجائز توقعات بھی وابستہ کر لیتے ہیں جنکی کی نہ قانون میں گنجائش ہوتی ہے اور نہ ہی کوئی مہذب معاشرہ اسے قبول کر سکتا ہے۔ ڈی پی او کے کرپشن کے خلاف اور میرٹ کے نفاذ کے مسلسل پیمانے سے عوام میں امید پیدا ہوئی کہ شاید اب وہاڑی کا امن بحال ہوگا شہریوں کے جان و مال کی حفاظت ہو گی تھانوں میں عام آدمی کی بھی سنی جائے گی جرائم پیشہ افراد کو بلا خوف و خطر پس زنداں کیا جائے گا لیکن ڈیڑھ سال کے عرصہ میں کوئی بھی امید پوری نہ ہوئی اور ڈی پی او کے تمام اقدامات روٹین میٹر ثابت ہوئے پولیس ملازمین کے خلاف کاروائیاں اوربعض چوروں،ڈاکوؤں کے گروہوں کی گرفتاری بھی محض کاغذوں کا پیٹ بھرنے کیلئے تھی تاکہ پولیس محکمے کی بقاء کیلئے عوام کو اعداد و شمار کے گھورکھ دھندے میں الجھا کر انہیں مطمئن رکھا جا سکے ڈی پی او کی جانب سے کی جانے والی کھلی کچہریاں بھی عوامی حلقوں میں مشکوک سمجھی جانے لگیں کیونکہ ان کھلی کچہریوں کی نہ تو مناسب تشہیر کی جاتی ہے اور نہ ہی عوام کو وقت سے پہلے آگاہ کیا جاتا ہے اور کھلی کچہریوں میں مظلوم لوگوں کو جانے سے روک دیاجاتا ہے اس طرح کھلی کچہریاں وقت کا زیاں ہی نہیں قومی خزانے پر بھی بوجھ محسوس ہوتی ہیں موجودہ ڈی پی او سے قبل ڈی پی او آفس وہاڑی میں سابقہ ادوار میں ہونے والی کروڑوں روپے کی خورد برد کے سکینڈل نے پہلے ہی بہت کچھ واضح کر دیاہے ڈی پی او کی جانب سے تفتیشی افسران کو اخراجات کی مد میں دی جانے والی رقوم اور اخراجات کے چیک بھی تفتیشی نظام میں جدت نہیں لا سکے افسوس اس بات کا ہے کہ ڈی پی او کی عین ناک کے نیچے ڈرائیونگ لائسنس برانچ میںلاکھوں روپے ماہانہ رشوت کی شکایات سامنے آرہی ہیں صرف یہی نہیں بلکہ عوام الناس کی جانب سے احتجاجی مظاہرے بھی کئے گئے ان مظاہروں کے نتیجے میں پولیس لائن اور لائسنسنگ برانچ میںصحافیوں کا داخلہ بند کر دیا گیا ٹریفک پولیس ناکوں پر موٹر سائیکل سواروں کو حیلے بہانوں سے تنگ کرتی ہے مگر بڑی اور وی آئی پی گاڑیوں کو وی آئی پی پروٹوکول کے ساتھ گزارا جاتا ہے پبلک ٹرانسپورٹ میں کرایوں کا کوئی نظام ہی وضح نہ ہے ٹرانسپورٹر من مانے کرائے وصول کرتے ہیں کوئی مسافر احتجاج کرے تو ٹرانسپورٹرز کے پرائیویٹ غنڈے ایسے مسافروں کی عزت تار تار کر دیتے ہیں اور اس مسافر کی کہیں بھی شنوائی نہیں ہوتی ۔ڈی پی او نے سیف سٹی پراجیکٹ کے تحت کروڑوں روپے کے اخراجات سے لاہور کی فالکن فورس کی طرز پر وہاڑی میں محافظ فورس بنائی جس کا چند ماہ تک بڑا شور رہا لیکن وہ اب تھم چکا ہے اور محافظ فورس بھی کہیں نظر نہیں آتی پولیس ملازمین کا کہنا ہے کہ نفری کی کمی کی وجہ سے محافظ فورس کو نہیں چلایا جاسکتا شہریوں نے محافظ فور س کے قیام کا خیر مقدم کیاتھا اور اس کی وجہ سے سٹریٹ کرائم میں بھی کافی کمی واقع ہوئی تھی لیکن اب پولیس کا گشت نہ ہونے سے سٹریٹ کرائم میں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے ضلع کے مختلف تھانوں کی حدود میں ہونے والے جرائم کا اگر ڈیٹا اکٹھا کیاجائے تو ڈی پی او کی میڈیا ٹاکس میں ہونے والی گفتگو کی نفی سامنے آتی ہے۔