سپریم کورٹ کی کارروائی براہ راست اور پنجاب سے پیپلز پارٹی کی رخصتی!!!!

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے چیف جسٹس آف پاکستان کے عہدے کا حلف لینے کے بعد پہلا مقدمہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ سماعت کے لیے مقرر کیا اور گذشتہ روز اس مقدمے کی کارروائی کو براہ راست نشر کیا گیا تھا ملکی تاریخ میں یہ پہلی بار ہوا ہے کہ کسی بھی مقدمے میں سپریم کورٹ آف پاکستان کی کارروائی کو براہ راست نشر کیا گیا ہے۔ یہ ایک اچھی روایت اس لحاظ سے ضرور ہے کہ لوگ عدالتی کارروائی کو خود سنیں گے اور انہیں یہ سمجھنے کا موقع ملے گا کہ عدالت کے سامنے کون سی جماعت یا کس کا وکیل کیا موقف اختیار کرتا ہے، کون آئینی و قانونی نکات پر دلائل پیش کرتا ہے، کون جذباتی انداز میں کسی کو طوالت دینا چاہتا ہے، کون عدالتی کارروائی اور مقدمات میں سیاسی پہلو تلاش کرتا ہے اور مقدمات کو سیاسی رنگ دینے کی کوشش کرتا ہے، کون مقدمات سیاسی مقاصد کے لیے عدالت لے کر جاتا یے، کون عدالت عظمی کا وقت ضائع کرنا چاہتا ہے، کون آئین و قانون کی بالادستی کے لیے اور کون آئین کی بہتر تشریح کے لیے عدالت کے پاس جاتا ہے۔ بالکل اسی طرح سپریم کورٹ آف پاکستان کے معزز جج صاحبان کو بھی عام آدمی خود دیکھ سکے گا۔ عدالتی طریقہ کار اور مختلف مقدمات میں آئینی و قانونی پہلوو¿ں کو سمجھنے کی مدد بھی ملے گی۔ مختلف سیاسی جماعتیں اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کو نشانے پر لیے ہوتی ہیں کارروائی کے براہ راست نشر ہونے سے ایسے شرپسند عناصر کا راستہ بھی رکے گا۔ کیونکہ لوگ ساری کارروائی خود دیکھ اور سن رہے ہوں گے اس لیے کسی کے لیے بھی کسی بھی معزز جج کے ریمارکس کو اپنے مخصوص سیاسی ایجنڈے کے تحت پھیلانے میں مشکلات کا سامنا ضرور رہے گا۔ عام شہری کو یہ دیکھنے کا موقع ملے گا کہ آخر سپریم کورٹ میں کیا ہو رہا ہے۔ بہرحال یہاں تک تو ٹھیک ہے۔ لیکن سب سے اہم سوال یہ ہے کہ کیا مستقبل میں کن کن مقدمات میں سپریم کورٹ آف پاکستان کی کارروائی براہ راست نشر کی جائیگی۔ کیونکہ جب ایک مرتبہ یہ سلسلہ شروع ہو چکا ہے تو پھر ہر دوسرے مقدمے میں کارروائی براہ راست نشر کرنے کا مطالبہ بھی ہو گا اور اگر ایسا نہیں ہوتا تو پھر تنقید ہو گی۔ اس کا ایک حل یہ بھی ہے کہ براہ راست کارروائی نشر کرنے کے حوالے سے ضابطہ اخلاق تیار کیا جائے کہ کس نوعیت کے مقدمات کی کارروائی براہ راست نشر کی جائے گی یا پھر ہر قسم کے مقدمات کی کارروائی روزانہ کی بنیاد پر براہ راست نشر ہو گی۔ اس کا تعین بہت ضروری یے۔ بہرحال یہ ایک اچھی روایت ہے۔ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسی نے حلف اٹھانے کے بعد جس انداز میں کام شروع کیا ہے اس پر بہت سے لوگوں کی نظریں ہیں۔ وہ بہت مشکل دور سے نکل کر ملک میں انصاف کی سب سے بڑی کرسی یا عہدے پر پہنچے ہیں۔ ان کا چیف جسٹس آف پاکستان بن جانا انہیں روکنے والوں کے لیے بھی ایک پیغام ہے اگر کسی شخص نے کسی منصب پر پہنچنا ہے اس کی قسمت میں لکھا ہوا ہے تو ساری دنیا مل کر بھی اس شخص کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کرنا شروع کر دے تو راستہ روک نہیں سکتی اسی طرح اگر دنیا کی تمام طاقتیں مل کر بھی کسی کو کامیاب بنانے میں لگ جائیں لیکن اس کی قسمت میں کامیابی نہیں ہے تو کوئی کچھ نہیں کر سکتا۔ ماضی قریب میں ایسی دونوں مثالیں ہمیں اپنے اردگرد نظر آتی ہیں۔ 
سپریم کورٹ آف پاکستان پر سب کی نظریں ہیں۔ سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پاکستان کے انتیسویں چیف جسٹس ہیں۔ انہوں نے گارڈ آف آنر لینے سے بھی انکار کیا ہے۔ ہزاروں مقدمات التوا کا شکار ہیں۔ گذشتہ کچھ عرصے سے سپریم کورٹ کو آئینی مقدمات میں الجھایا گیا ہے۔ بہت سے ایسے کیسز ہیں جنہیں عدالت آنا ہی نہیں چاہیے بلکہ سیاست دانوں کو اپنے مسائل خود اور پارلیمنٹ میں ہی حل کرنے چاہییں۔ سیاست دانوں کے باہمی اختلافات اور سیاسی مفادات کی وجہ سے معزز عدالت کا بہت سا قیمتی وقت آئینی مقدمات کی نذر ہوتا ہے۔ ان دنوں تو یہ کام بہت بڑھ چکا ہے۔ سیاسی جماعتوں کی قیادت اہم معاملات پر اتفاق رائے کے بجائے عدالت کا راستہ اختیار کرتی ہیں اور پھر سب عدالت کو اپنے نشانے پر لیتے ہیں۔ آج سیاسی جماعتیں نئے چیف جسٹس کو خوش آمدید کہہ رہی ہیں لیکن کل کلاں جب کسی بھی فیصلے میں کسی بھی سیاسی جماعت کے سیاسی مفادات کو نقصان پہنچے گا تو اس وقت اعلی عدلیہ کے معزز جج صاحبان کو نشانہ بنایا جائے گا۔ پاکستان کا بہتر مستقبل اور مسائل کا حل ریاستی اداروں کے مضبوط ہونے اور میرٹ پر کام کرنے میں پوشیدہ ہے۔ ہر بڑے ادارے کے سربراہ پر یہ قومی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے وقت میں ادارے کو بہتر بنانے کے لیے کوششیں کرے۔ اختلاف رائے کو ذاتی اختلاف اور دشمنی میں بدلنے کے بجائے اصلاح کا پہلو نکالنا چاہیے۔ ملک میں انصاف اور قانون کے شعبے میں اصلاحات کی ضرورت ہے۔ نئے چیف جسٹس آف پاکستان سے یہ توقع ہے کہ وہ عام آدمی کی توقعات پر پورا اترنے اور ادارے کی بہتری کو سامنے رکھتے ہوئے ملک و قوم کی خدمت کریں گے۔
دوسری طرف پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے رہنما مختلف معاملات میں ایک دوسرے کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ چند روز قبل بلاول بھٹو زرادی نے پنجاب سے پاکستان پیپلز پارٹی کی رخصتی کا الزام 
نام لیے بغیر اپنی اتحادی جماعت مسلم لیگ (ن) پر عائد کیا تھا۔ بلاول بھٹو نے کہا تھا کہ "کسی کوغلط فہمی نہ ہو کہ ہم خود کو ایک صوبے تک محدود سمجھتے ہیں۔ پنجاب وہ صوبہ ہے جہاں سے پیپلزپارٹی نے جنم لیا، 2013 میں لیفٹیننٹ جنرل (ر) پاشا، سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری اور ایک سیاسی جماعت نے سازش اور ا?ر او الیکشن کے ذریعے پیپلزپارٹی کو پنجاب سے نکالا۔ ایک اتحادی سے متعلق کہا جاتا تھا کہ مشکل میں پاو¿ں پکڑتے ہیں جب مشکل میں نہیں ہوتے تو گلا پکڑتے ہیں۔" اب مسلم لیگ ن کے سینیٹر عرفان صدیقی نے اس کا جواب دیا ہے صدیقی صاحب فرماتے ہیں کہ "پیپلز پارٹی دو ہزار تیرہ نہیں انیس سو پچاسی میں ہی پنجاب سے فارغ ہو گئی تھی۔ دو ہزار تیرہ کے انتخابات میں آصف علی زرداری صدر، آرمی چیف اشفاق پرویز کیانی اور نگران حکومت پیپلز پارٹی کی نامزد کردہ تھی۔ سمجھ نہیں آتا بلاول نے کیس ےہ کہہ دیا کہ 2013 میں پیپلز پارٹی کو پنجاب سے بے دخل کرنے کی منصوبہ بندی کی گئی، انتخابات کے دوران دور دور تک مسلم لیگ ن کی مدد کرنے والا کوئی نہیں تھا۔"
سیاسی قیادت کی نوک جھونک چلتی رہتی ہے یہ اکثر و بیشتر سیاسی پوائنٹ سکورنگ ہی ہوتی ہے۔ بلاول بھٹو بہت ذہین اور سمجھدار ہیں وہ اچھی گفتگو کی صلاحیت رکھتے ہیں لیکن پنجاب سے ان کی جماعت کی رخصتی یا بے دخلی کا ذمہ دار کوئی اور نہیں ان کی جماعت کے بڑے خود ہیں۔ بلاول بھٹو زرداری کو اپنی خامیوں اور ناکامیوں کو تسلیم کرنے کا حوصلہ بھی رکھنا چاہیے۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ ہر اچھے کام کو پاکستان پیپلز پارٹی کے نام کر دیا جائے اور ہر ناکامی کا ملبہ دوسروں پر ڈال دیا جائے۔ وہ جو مرضی کہیں لیکن یہ حقیقت ہے کہ پیپلز پارٹی سندھ تک محدود ہوئی ہے اور اگر وہ پنجاب میں کہیں نظر نہیں آتے تو اس کی سب سے بڑی وجہ ان کی کارکردگی ہے۔ اگر تو لوگوں میں تھوڑا سیاسی شعور پیدا ہو جائے اور سندھ کے لوگ ذہنی طور پر آزاد ہو جائیں تو بلاول کی جماعت سندھ میں بھی نظر نہ آئے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے پاس موقع ہے کہ وہ سندھ کو بچا لے وہاں لوگوں کی خدمت کرے، عوام کے بنیادی مسائل حل کرے ورنہ آنے والے وقت میں یہ نہ ہو کہ انہیں یہ کہنا پڑے کہ سندھ سے بھی سازش کر کے نکالا گیا ہے۔ خود کو بدلیں اس سے پہلے اندرون سندھ لوگوں کی سوچ بدل جائے۔ 
آخر میں وصی شاہ کلام
کسی کی آنکھ سے سپنے چ±را کر کچھ نہیں ملتا
منڈیروں سے چراغوں کو ب±جھا کر کچھ نہیں ملتا
ہماری سوچ کی پرواز کو روکے نہیں کوئی
نئے افلاک پر پہرے بٹھا کر کچھ نہیں ملتا
کوئی اک آدھ سپنا ہو تو پھر اچھا بھی لگتا ہے
ہزاروں خواب آنکھوں میں سجا کر کچھ نہیں ملتا
سکوں ا±ن کو نہیں ملتا کبھی پردیس جا کر بھی
جنہیں اپنے وطن سے دل لگا کر کچھ نہیں ملتا
ا±سے کہنا کہ پلکوں پر نہ ٹانکے خواب کی جھالر
سمندر کے کنارے گھر بنا کر کچھ نہیں ملتا
اچھا ہے کہ آپس کے بھرم نہ ٹوٹنے پائیں
کبھی بھی دوستوں کو آزما کر کچھ نہیں ملتا
نجانے کون سے جذبے کی یوں تسکین کرتا ہوں
بظاہر تو تمہارے خط جلا کر کچھ نہیں ملتا
فقط تم سے ہی کرتا ہوں میں ساری راز کی باتیں
ہر اک کو داستانِ دل سنا کر کچھ نہیں ملتا
عمل کی سوکھتی رگ میں ذرا سا خون شامل کر
مرے ہمدم فقط باتیں بنا کر کچھ نہیں ملتا
اسے میں پیار کرتا ہوں تو مجھ کو چین آتا ہے
وہ کہتا ہے ا±سے مجھ کو ستا کر کچھ نہیں ملتا
مجھے اکثر ستاروں سے یہی آواز آتی ہے
کسی کے ہجر میں نیندیں گنوا کر کچھ نہیں ملتا
جگر ہوجائے گا چھلنی، یہ آنکھیں خون روئیں گی
وصی بےفیض لوگوں سے نبھا کر کچھ نہیں ملتا

ای پیپر دی نیشن