احساسِ کمتر ی کیوں ،مقابلہ کیوں نہیں؟

مطلوب احمد وڑائچ
matloobwarraich@yahoo.com
دنیا ترقی کی معراج پر پہنچ رہی ہے، ستاروں پرکمند ڈال رہی ہے، ہم ابھی ترجیحات کا تعین ہی نہیں کر سکے۔ نیب قوانین بنا لو اس میں ترمیم کردو،اس کو کالعدم قرار دے دو، اس پارٹی کی حکومت کو گھر بھیجا دو، اس پارٹی کو اقتدار میں لے آﺅ، 9مئی کا سانحہ ،گرفتاریاں، پابندیاں،اوورسیز پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دے دو پھر چھین لو۔ پٹرول کی قیمتیں بے قابو ، بجلی موجود نہیں لیکن تین گنا بِل۔ کہیں نہ کہیں تو گڑبڑ ہے۔ بھارت کے ساتھ ہمارا مقابلہ اس کے زرمبادلہ کے ذخائر6سوارب ڈالر، ہمارے صرف چھ ارب ڈالر۔ پاکستان اور بھارت ایک ساتھ معرض وجود میں آئے۔ بھارت کہاں اور ہم کہاں ہیں، وہ چاند پر پہنچ گیا، جی 20کانفرنس وہاں پر ہوتی ہے۔ سمندر کے ذریعے دبئی تک 12سو میل 2000کلومیٹر کی سمندر کے ذریعے ریلوے لائن بچھائی جا رہی ہے۔ اور ہم ریلوے کے حادثات ابھی تک کنٹرول نہیں کر سکتے۔ بھارت اتنا آگے کیسے چلا گیا۔ وہاں نہرو نے شروع میں ہی لینڈ ریفارم کر دیں۔ 12ایکٹر سے زائد کسی فیملی کے پاس زمین رکھنے سے ممانعت کا قانون بنا دیا گیا اور پھر اس میں بھی یہ کیا گیا کہ جس کے ایک سے زائد بچے ہوں اس گھر سے صرف ایک فرد سرکاری ملازمت کے لیے اپلائی کر سکتا ہے۔ اس سے منصوبہ بندی کی طرف رجحان خود بخود پیدا ہونے لگا۔ 
ہمارے ہاں بہت سے لوگ ایسے ہیں جن کی ایک نہیں دو نہیں بلکہ تین تین ممالک کی شہریتیں ہیں۔بھارت میں آپ کسی ملک کی شہریت نہیں رکھ سکتے۔ اگر آپ کسی ملک کے شہری بن جاتے ہیں تو پھر بھارت کا پاسپورٹ واپس کرنا پڑے گا۔اور ایسا بندہ ملک میں جائیداد خرید سکتا ہے نہ کوئی کاروبار کر سکتا ہے۔ ان کو NIRنان انڈین ریزیڈنٹ کا نام دیا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں بچوں کی تعلیم باہر، بزنس جائیدادیں مفادات باہر،حکومت کرنے کے لیے یہ لوگ پاکستان آ جاتے ہیں بلکہ سیاست ہی ان کا بزنس ہے۔ لینڈ ریفارم نہ ہونے سے آج بھی بڑی بڑی جاگیریں موجود ہیں، جاگیردارموجود ہیں، زمیندار موجود ہیں اور دوسری طرف تھوڑی تھوڑی زمینوں والے کاشتکار ہیں۔زمینیں بے آباد بھی بے شمار پڑی ہوئی ہیں۔ وہ کچھ اداروں کے ریٹائرہونے والے لوگوں کو دی جاتی ہیں۔ دی تو اس لیے جاتی ہیں کہ اس کو آباد کریں لیکن وہ وہاں سے ان علاقوں میں زمین کا تبادلہ کر لیتے ہیں جن علاقوں میں زمین زرخیز ہے۔
پاکستان اور بھارت کے مابین آبادی کا تناسب بہت زیادہ ہے۔بھارت نے اس آبادی کو بڑی حکمت عملی سے استعمال کیا ہے۔ اس کے سالانہ چالیس پچاس لاکھ ٹرینڈ اور کوالیفائیڈ لوگ دوسرے ممالک میں ملازمت کے لیے جاتے ہیں۔ان کو ٹرینڈ ہی اسی نہج پر کیا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں سے بھی لوگ باہر تو جاتے ہیں لیکن یہاں سے ٹیکنیکل ہینڈ لوگ جاتے ہیں،ڈاکٹر ،پروفیسر،انجینئر۔ لیکن بھارت ایسے لوگوں کو بھیجتا ہے جو نوجوان ہیں۔ کینیڈا میں ہر سال اڑھائی لاکھ لوگ جاتے ہیں۔ امریکہ، جاپان، جرمنی، برطانیہ ،فلپائن، آئرلینڈاورسنگاپور ایسے ترقی یافتہ ممالک بھارت کا ٹارگٹ رہے ہیں۔ جب بات کی جائے کہ بھارت کے اندر ٹیکنالوجی کہاں تک پہنچی ہے وہ بھی حیران کن ہے۔ پاکستان میں آئی ٹی کے ایکسپرٹ کی تعداد7لاکھ بتائی جاتی ہے۔جب کہ بھارت میں صرف ایک برلا کمپنی 9لاکھ آئی ٹی ایکسپرٹ کی تعداد رکھی ہے۔
 جب آپ معاشی طور پر مضبوط ہوتے ہیں تو پھر آپ کی دنیا میں بھی ایک ساکھ بن جاتی ہے۔ابھی چند دن پہلے ہی وہاں پر جی20ممالک کا اجلاس ہوا۔امریکہ اور دیگر بڑے بڑے ممالک موجود تھے۔ امریکہ کی طرف سے یوکرین کے حوالے سے اعلامیہ جاری کرنے کی کوشش کی گئی لیکن بھارت کی طرف سے کہاگیا کہ نہیں، ہم کسی کے مقاصد کے لیے استعمال نہیں ہوں گے۔ بھارت نے وہی اعلامیہ جاری کیا جو ان کی اپنی خواہش تھی۔ امریکہ کو بالکل لفٹ نہیں کروائی۔ ایسا وہی ملک کر سکتے ہیں جو ہر طرح سے آزاد ہوں، مضبوط ہوں۔ ہمارے ہاں تو کئی معاملات میں باہرسے ڈکٹیٹ کیا جاتا ہے۔جس شعبے میں بھی دیکھیں ہمارے ہاں ایک انحطاط ہے۔ کرکٹ ٹیم کو لے لیں یہاں پر بابراعظم، رضوان ،شاہین آفریدی ان کے بڑے نام ہیں لیکن جیسے ہی کوئی ٹورنامنٹ ہوتا یہ ٹھس ہو جاتے ہیں۔ ایشیاکپ میں بھی یہی ہوا اور بھارت نے اپنا پورا زور لگا کر پاکستان میں ایشیا کپ نہیں ہونے دیا۔ 
اطمینان ،سکون اور استحکام تو پہلے بھی ایسا نہیں تھا لیکن 9مئی کے بعد قوم میں ایک ڈپریشن نظر آتا ہے، پریشانی نظر آتی ہے۔ گذشتہ ڈیڑھ سال میں جو کچھ ہوا، مہنگائی کا گراف جس طرح اوپر گیا ،بجلی اور پٹرول کی قیمتیں جس طرح آسمان سے باتیں کرنے لگیں اور ان میں مزید اضافہ بھی جاری ہے۔ یہ قوم کے لیے پریشانی کا باعث ہے لیکن میں یہ سمجھتا ہوں کہ گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے، اتنا زیادہ ڈپریس ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ بھارت کے ساتھ کئی معاملات میں موازنہ کیا جا سکتا ہے۔ کئی پہلو ایسے ہیں جس میں بھارت ہمیں آگے نظر آتا ہے لیکن کئی پہلو ایسے بھی ہیں جو پاکستانیوں کے حوالے سے بڑے حوصلہ افزا ہیں، ان کو بھی مدنظر رکھنا ہے۔
 ایک تویہ ہے کہ بھارت میں خوشحالی اگر ہے تو کتنے فیصد لوگ خوشحال ہیں ان کی تعداد 25فیصد سے زائد نہیں۔ 75فیصد وہ لوگ ہیں جو بنیادی انسانی ضرورتوں سے ہی محروم ہیں۔ انہیں ٹوائلٹ کے نام کا بھی نہیں پتااور اس ایشو پر بھارت میں بے شمارفلمز بن چکی ہیں۔ وہاں پر غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے والوں کی تعداد 75فیصد ہے۔ بھارت کی آبادی ڈیڑھ ارب ہے۔ بجا کہ یہ ڈیڑھ ارب کی مارکیٹ ہے۔ لیکن ان ڈیڑھ ارب میں سے اندازا کر لیں کہ 75فیصد کس حال میں زندگی گزار رہے ہیں۔ وہاں پر کئی جگہ پر لوگوں کو سونے کے لیے جگہ بھی نہیں ملتی، لوگ جنگلوں میں سوتے ہیں، پلوں کے نیچے سوتے ہیں، سڑکوں پر آسمان کی چھت کے نیچے سوتے ہیں، ان پر موسمی حالات کس طرح سے اثر انداز ہوتے ہوں گے۔ کئی علاقوں میں ایسا بھی ہے کہ ایک شخص کو ٹھیکیدار سے رابطہ کرنا پڑتا ہے، رات گزارنے کے لیے، وہ دو اڑھائی فٹ کے چاک سے ایک حلقہ بنا دیتا ہے اسی میں اس نے رات گزارنی ہوتی ہے۔ پاکستان میں اس حوالے سے صورت حال انتہائی زیادہ بہتر ہے۔ بچوں کے ہاتھ میں بھی موبائل ہیں۔ ہمارے ہاں غربت کی شرح بیس فیصد سے زیادہ نہیں ہے۔ان بیس فیصد میں بھی کوئی ایک شخص ایسا نہیں کہ بھوکا سویا ہو۔ بجا کہ مشکلات کافی ہیں ،مسائل بھی ہیں لیکن اتنے زیادہ نہیں جتنے زیادہ بھارت کے 75فیصد لوگوں کودرپیش ہیں۔ 
ہمیں بھارت سے موازنہ کرتے ہوئے بہت سے پہلو?ں کو مدنظر رکھنا ہے۔ وہ کس طرح سے آئی ٹی میں ترقی کر رہا ہے، ٹیکنالوجی میں ترقی کر رہا ہے، چندریان تک چلا گیا ،جی 20کانفرنس کروا لی، دبئی تک زیرآب ریلوے لائن بچھا رہا ہے۔ یہ چیزیں ہمیں بھارت کے ساتھ مقابلہ کے لیے آمادہ کرتی ہیں۔ آپ کی جتنی بھی زیادہ دشمنی ہو ،جنگوں کو بھول جائیں اور ایٹمی جنگ کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔اگر آپ بھارت پر بم پھینکیں گے، بھارت پاکستان پر بم پھینکے گا تو اس کے اثرات اتنے زیادہ ہوتے ہیں کہ بم پھینکنے والا ملک بھی محفوظ نہیں رہے گا۔ آپ نے ترقی کرنی ہے تو پھر بھارت کو دشمن نہیں بلکہ اپنا حریف اور کمپیٹیٹر سمجھنا ہوگا۔ اس کے ساتھ ہمارا ترقی کا مقابلہ ہے ،وہ چاند پر گیا ہے تو ہم مریخ پر جانے کی کوشش کریں۔ وہ دنیا میں سالانہ پچاس لاکھ لوگوں کو روزگار کے لیے بھیجتا ہے توآبادی کے تناسب سے بھی ہمیں روزگار کے لیے ٹرینڈ کیے گئے نوجوان سات آٹھ لاکھ تو بھیجنے ہی چاہیے۔آپ اپنے حریف کا منہ سرخ دیکھ کر اپنا منہ چپیڑیں مار کر تو سرخ نہیں کر سکتے۔آپ خوراک کے ذریعے ،ایکسرسائز کے ذریعے ایسا کریں۔ 
آخری بات یہ کہ کسی بھی صورت میں ہم نے حوصلہ نہیں ہارنا، کوشش کریں گے ،محنت کریںگے تو کامیابی انشائ اللہ قدم چومے گی۔ قوم بننے کے لیے بہرحال ترجیحات کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے اور یہ ترجیحات کس نے تبدیل کرنی ہے جو ہمارے مقتدر حلقے ہیں انہوں نے۔ وہ اگر کریں گے یا کرنے کی کوشش کریں گے تو اس میں یقینی طور پر کامیابی ہو گی۔قارئین! مذہب کی بنیاد پر اپنی قوم کو ترقی سے روکے رکھنا کہاں کا انصاف ہے۔آپ جدید دنیا کی ہسٹری اٹھا کر دیکھ لیں ،جتنی قومیں بھی آ ج کل ترقی یافتہ اور بین الاقوامی معیار کے تقاضے پورے کرتی ہیں انہوں نے مذہب ، سیاست اور معیشت کو علیحدہ علیحدہ خانوں میں رکھا ہے اور یہی وہ طریقہ ہے جو کسی بھی ترقی پذیر قوم کو ترقی یافتہ بنا سکتا ہے۔

ای پیپر دی نیشن