شکوے ،شکایات،مطالبات ،وعدے اور نعرے
پاکستان کی 70 سالہ تاریخ کا مشاہدہ کریں توشکوے ،شکایات،مطالبات ،وعدے اور نعرے نظر آتے ہیں۔ ایوب خان دور میں بھی بد عنوانی اور کرپشن کے خاتمے کے لئے ”ایبڈو“ کا قانون آیا تھا مگر پاکستان میں کرپشن ،بد عنوانی ،اقراءپروری میں اضافہ ہوا،اس میں کمی ایک خواب بن گیا۔جرم اور سزا کا چولی دامن کا ساتھ ہے. آغاز ”انسان“ اللہ سبحان وتعالیٰ کے حکم اور حکمت پر ہوا جو کہ روز قیامت کو اپنے منتقی انجام کو پہنچ جائے گا۔”انسان“ کی فطرت میں اچھائی اور برائی کے پہلو پنہاں ہیں۔”انسان“ کو ہدایت دینے کے لئے اور سیدھے راستے پر رکھنے کے لئے اللہ سبحان وتعالیٰ نے کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاءاکرام دنیا میں بھیجے، رشد و ہدایت کے لئے۔چار آسمانی کتابیں تورات ،زبور،انجیل اور سب سے آخر میں ”قرآن“ کو اُتارا گیا۔حضور کریم آخری ”نبی“ اور” قرآن حکیم“ آخری کتاب ہے۔مختصراََ عرض ہے کہ اللہ سبحان وتعالیٰ نے قرآن حکیم کی” سورة العصر“میں زمانے کی قسم کھا کر کہا کہ ”انسان “ خسارے میں ہے،سوائے اُن کے جنھوں نے نیک کام کئے اور جو ”حق“ پر تھے اور ”صبر“ کیا۔اگر صرف اس آیت پر غور کریں تو انسان کی زندگی کا مقصد واضع ہو جائے گا اور منزل کا تعین ہو جائے گا۔مگر ”حق“ اور ”صبر“ کی تعریف انسانوں کو سمجھ نہ آسکی اور نیک عمل کا بھی پتہ نہ چل سکا۔پاکستان کی 70 سالہ تاریخ میں بہتری کے لئے بہت اقدامات کئے گئے مگر عمل ”صفر“ رہا ،اسکی بنیادی وجہ یہی تھی کہ جو کچھ کیا گیا اور کہا گیا حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ۔پاکستان کے ہر طاقتور حکمران نے جو قانون بنایا اور لایا اس میں کہا گیا کہ عوام کی بہتری اور فلاح و بہبود کے لئے تھا مگر صرف اپنے سیاسی مخالفین کو کنٹرول کرنے اور اپنے اقتدار کو دوام دینے کے لئے تھا۔پاکستان کی تاریخ میں 1970 ءکا دور ایک عوامی دور تھا ،جب عوامی فلاح کی بات ہوئی مگر عمل بلکل بر عکس ،بہت انقلابی منشور تھا۔روٹی ،کپڑا اور مکان پاکستانی عوام کو معلوم ہے کہ ”رزق“ کے نام پر چینی اور آٹا کے لئے راشن بندی ہوئی،عوام ڈپو کی لائینوں میں کھڑے ہو کر گھر کا راشن لیتے تھے۔حالانکہ ملک میں چینی اور آٹا وافر تھا،حکمران پارٹی نے اپنے کارکنوں کو نواز نے کے لئے ڈپو اور سیمنٹ ایجنسی کے پرمٹ عطاءکیے۔بد عنوانی اور کرپشن کی بنیاد ڈالی جو کہ سیاسی اور عوامی حکومت کے دور میں ہوا۔آج 70 سال کے بعد پاکستان کے 22 کروڑ عوام کو ”اللہ تعالیٰ“ کے بعد انصاف کی آس اور اُمید ہے تو پاکستان کی ”سپرریم کورٹ“ سے ہے۔پاکستان کی کسی حکومت نے خواہ وہ ”فوجی“ تھی یا پھر ”سیاسی“ ایسے عملی اقدامات نہ کیے جس کے اثرات براہ راست عوام پر مرتب ہوںجیسے سپریم کورٹ نے کیے۔صرف اگر اسلام آباد میں دیکھیں تو CDA راتوں رات قانون بناتا ہے اور عمل کراتا ہے۔اسلام آباد کے لوگوں نے ”Non Confirming “ کا لفظ CDA میں بہت سنا ہوا تھا ،1960 ءکے CDA آرڈینینس میں ہے Zoning Regulation ،بلڈنگ بائی لاز اور Complition حاصل کرنے کے لئے Non Confirming بہت استعمال ہوتا ہے، مگر اسلام آ باد کی عوام نے پہلی بار رہائشی علاقوں سے کمرشل استعمال ختم ہوتے ہوئے دیکھا۔حکمران جماعت اور سیاسی و مذہبی جماعتوں کے دفاتر رہائشی علاقوں سے نکل گئے،حفاظت کے نام پر بند سڑکیں ،سیکورٹی بیریئرز کھل گئے،No-Go ایریا کو ختم کیا گیا۔اسلام آباد کی عوام نے محسوس کیا اور دیکھا کہ قانون پر بلا امتیاز عمل ہوا پاکستان نے حقیقی ”سپریم“ کا عملی مظاہرہ دیکھا۔عوام اور معاشرے میں اس کے کیا مثبت اثرات اور منفی ہوئے۔اسلام آباد میں پہلی بار رہائشی علاقوں کے کرایے آسمان سے زمین پر آئے،گھروں کی قیمتوں میں کمی آئی ،رہائشی علاقوں میں سکون آیا،اب منفی کہاں ہیں؟،اس کی تعریف کون کرے گا کہ Confirming اور Non Confirming ہے کیا؟۔یعنی 50 سال قبل CDA کے جو قوانین تھے آج زمینی حقائق مختلف ہیں۔اس میں Ground Reality کے مطابق قانون سازی کریں۔اسلام آباد شہر کے اندر ایک بہت بڑی تعداد کچی آبادیوں کی ہے جو کہ ”سرکار“ کی قیمتی زمین پر ہیں،جو کہ No Go Areas ہیں ،جہاں ضروری ہے وہاں فلیٹس بنا کر انتہائی آسان اقساط میں مالکانہ حقوق پر ان لوگوں کو دیں۔آج سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سے گذارش ہے کہ اسلام آباد کے شہریوں کے بنیادی مسائل ہیں جن کو موجودہ گراﺅنڈ ری ایلیٹی کے مطابق طے کریں۔CDA آرڈینینس 1960 ءاس وقت کے حالات کے مطابق تھا ،یقینا اچھی بات ہے۔آج سپریم کورٹ نے CDA اور اسلام آباد کے حوالے سے بہت اچھے ،مثبت اور تاریخی اقدامات کیے جس کے عوام پر بہت اچھے اثرات مرتب ہوئے۔ سپریم کورٹ کی عزت اور وقار میں اضافہ ہوا ،CDA بورڈ خود مختار ہے ،حالات کے مطابق ضروری قانون سازی کرتا ہے ،جدید تقاضوں کے مطابق قانون مرتب کرتا ہے۔CDA میں کمرشل جائیدادیں 99 سالہ لیز پر ہیں۔33 سال کے بعد لیز میں تجدید ہوتی ہے ،تمام کمرشل اسلام آباد میں اسی طرح ہیں ،آج سرکاری گھروں میں لوگوں نے اضافی کمرے بنا دیے اور سرکاری گھروں کو مالکانہ حقوق پر دینے کی بات ہوتی ہے۔بلکہ ہر الیکشن میں انتخابی ”نعرہ“ اور ”وعدہ“ ہوتا ہے۔اگر کسی کمرشل میں معمولی تبدیلی ہو تو لیز کی تجدید نہیں کی جا تی حالانکہ اس کو جرمانہ کر کے نقشہ کا حصہ بنائیں۔صرف کمرشل جائیدادوں کی لیز تجدید کرانے سے اربوں کا ریوینو CDA کو حاصل ہو گا،مگر اس پر کوئی توجہ نہیں۔ایک جانب کچی آبادیوں کو مالکانہ حقوق دینے کی بات ہوتی ہے یا پھر مفت پلاٹ اور فلیٹس دینے کی بات ہوتی ہے مگر NOC کے بغیر بننے والی ہاﺅسنگ سو سائٹیوں کی منظوری کی بات کوئی نہیں کرتا۔زون4 کے سب زون 3 میں قانون سازی ہوتی ہے تا کہ بہت اہم ترین لوگوں کی ہاﺅسنگ سوسائٹیوں کی Approval ہو سکے مگر دیگر کے لئے ،زون 3 جو کہ نیشنل پارک ایریا ہے ،انوائرمینٹل ایکٹ کی وجہ سے تعمیرات غیر قانونی ہیں مگر قانون سازی ہو رہی ہے کہ تعمیرات ہوں، کیوں کہ بڑے لوگ ملوث ہیں۔CDA نے اسلام آباد کے لاکھوں شہریوں کے لئے پانی کا کوئی منصوبہ نہیں بنایا۔کوئی ڈیم نہیں بن رہا ،برساتی پانی کو استعمال کرنے کا پلان نہیں ،گندے نالوں میں STP نہیں لگائے گئے۔سملی ڈیم اور راول ڈیم جو کہ صاف پانی کے ذخائر ہیں ان میں گندگی اور سیوریج شامل ہو رہی ہے۔سپریم کورٹ کم از کم صرف ایک ایشو ”پانی“ کے لئے ”Somoto “ ضرور دے،CDA اسلام آباد کے شہریوں کے پانی کی راشنگ نہ کرے ۔پانی کے اضافی ذرائع پیدا کرے اور غیر قانونی پانی کا استعمال بند کرے۔