نوجوانوں کا بڑی تعداد میں ملک چھوڑنا ، لمحہ فکریہ

 ضیاء الرحمن ضیائؔ
 www.ziarehman.com
 چند روز قبل ایک تعلیم یافتہ نوجوان سے میری ملاقات ہوئی جو اچھے خاصے پڑھے لکھے اور محنتی شخص ہیں ،انہوں نے باتوں باتوں میں کہا کہ میرا تو یہ جی چاہتا ہے کہ میں پاکستان سے کسی طرح نکل جاؤں اور باہر چھ سات سال رہ کر خوب پیسے کماؤں اور اس کے بعد دیکھوں اگر پاکستان کے حالات درست ہوتے ہیں تو واپس آ جاؤں اور اگر نہیں ہوتے تو وہیں سیٹل ہو جاؤں۔ میں نے انہیں جواب دیا کہ جناب! پاکستان کے حالات ٹھیک کرنے والے اگر باہر چلے جائیں گے تو پاکستان کے حالات کون درست کرے گا ؟ آپ لوگ ہی تو ہیں جنہوں نے پاکستان کے حالات درست کرنے ہیں، ہمارے حکمرانوں نے کبھی نہیں کرنے ۔ انہیں تو بری عادت پڑ چکی ہے کہ وہ عوام کو بیوقوف بناتے رہتے ہیں عوام میں شعور پیدا نہیں ہونے دیتے اور خود ان پر حکمرانی کرتے رہتے ہیں ۔ یہ ہم لوگ ہی ہیں جنہوں نے اپنے اندر شعور پیدا کرنا ہے اپنے ارد گرد رہنے والے لوگوں میں شعور پیدا کرنا ہے اور ان حکمرانوں کے ناپاک عزائم کو ناکام بنا کر اس ملک کے حالات کو درست کرنا ہے۔ میں نے کہا کہ میرا تو یہ جی چاہتا ہے کہ میں اس ملک میں رہتے ہوئے اس کے حالات کو درست کروں۔ چاہے میں کر سکوں یا نہیں لیکن اپنی طرف سے محنت اور کوشش تو کرنی چاہیے ہو سکتا ہے کہ میں ساری زندگی محنت اور کوشش کرنے کے بعد اپنے گھر کے حالات بھی درست نہ کر سکوں یا ایک گلی کے حالات بھی درست نہ کر سکوں لیکن کم از کم کوشش تو کرنی چاہیے یوں ہمیں بعد میں یہ افسوس تو نہیں ہوگا کہ ہم نے کوشش ہی نہیں کی۔
  گزشتہ دنوں یہ خبر سننے کو ملی ہے کہ پاکستان میں پاسپورٹ کے کے لیے درخواستیں دینے والوں کی تعداد میں غیر معمولی اضافہ ہو گیا ہے روزانہ کی بنیاد پر پہلے 24 سے 26 ہزار پاسپورٹ کے لیے لوگ درخواستیں دیا کرتے تھے مگر اب ان کی تعداد 40 ہزار تک پہنچ چکی ہے جو روزانہ کی بنیاد پر پاسپورٹ کے حصول کے لیے درخواستیں دے رہے ہیں۔ ان میں اچانک اتنا زیادہ اضافہ ہو گیا ہے کہ پاسپورٹ دفاتر کے لیے پاسپورٹ کی بروقت فراہمی مشکل ہو چکی ہے اور ہزاروں پاسپورٹ تاخیر کا شکار ہیں۔ اس کا مطلب یہی ہے کہ ہمارے نوجوان ملک چھوڑ کر بیرون ملک جانا چاہتے ہیں کوئی ملازمت کے لیے اور کوئی تعلیم کے حصول کے لیے۔ پاسپورٹ کے حصول میں اچانک اتنا بڑا اضافہ افسوسناک اور پریشان کن ہے کہ ہمارے نوجوان ملکی حالات سے اس قدر تنگ آ چکے ہیں کہ وہ اس ملک میں رہنا ہی نہیں چاہتے۔
 اتنی بڑی تعداد میں نوجوانوں کا کسی ملک کو چھوڑ جانا لمحہ فکریہ ہے کیونکہ ملک میں باصلاحیت نوجوان نہیں رہیں گے تو ملک ترقی کیسے کرے گا ؟باصلاحیت نوجوانوں کے لیے ہمارے ملک میں مواقع نہیں ہیں جس کی وجہ سے وہ دل برداشتہ ہو کر دیگر ممالک جہاں انہیں ترقی کے مواقع ملتے ہیں وہاں کوچ کر جاتے ہیں اور ان ممالک کے لیے اپنی صلاحیتوں کو وقف کر دیتے ہیں لیکن جس ملک نے انہیں پالا پوسا جس ملک نے انہیں صلاحیتیں دیں جہاں انہوں نے تعلیم حاصل کی اس ملک کے لیے وہ کچھ نہیں کر پاتے۔ قوموں کی تنزلی اور زوال کی یہ ایک بہت بڑی نشانی اور ان کے لیے خطرے کی گھنٹی ہوا کرتی ہے اور ہمارے لیے بھی یہ بہت بڑی خطرے کی گھنٹی ہے کہ ہم اگر اس صورتحال پر قابو نہیں پاتے اور نوجوان اسی طرح ملک کو چھوڑ کر جانے کے چکر میں ہوں گے تو ملک کیسے ترقی کرے گا؟ ہمارے ملک کی صورتحال تو ایسی ہے کہ دیگر ممالک سے تو کوئی یہاں پر اپنی خدمات فراہم کرنے کے لیے نہیں آئے گا  اس لیے ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ اپنے ملک کے اندر جو باصلاحیت نوجوان ہیں کم از کم انہیں بہترین مواقع فراہم کریں تاکہ وہ ملکی ترقی کے میں اپنا کردار ادا کریں اور اپنی صلاحیتوں کو اپنے ملک کے لیے استعمال کریں۔
 اس مسئلے کو حل کرنا حکومت اور عوام دونوں کی ذمہ داری ہے ۔ عوام کی ذمہ داری یہ ہے کہ نوجوان اپنے ملک کے لیے اپنی صلاحیتیں وقف کرنے کی حتی الامکان کوشش کریں چاہے آمدن کچھ کم ہی کیوں نہ ہو کیونکہ اگر ہم اپنے ملک کا مستقبل سنوارنا چاہتے ہیں تو ہمیں کچھ قربانیاں تو دینی پڑیں گی ۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ملک کا مستقبل بھی بہتر ہو اور ہمیں قربانیاں بھی نہ دینی پڑیں تو ایسا نہیں ہو سکتا ۔ جس نوجوان سے میری ملاقات ہوئی تھی جس کا حال میں نے اوپر لکھا اس نوجوان کے حالات اتنے بھی خراب نہیں تھے بلکہ اچھے کھاتے پیتے گھرانے سے تعلق رکھتا ہے اور اپنی بھی ایک چھوٹی سی کمپنی بنا رکھی ہے جو کسی حد تک ترقی بھی کر رہی ہے لیکن چونکہ یہاں آمدن کچھ کم ہے اور بیرون ممالک میں پرکشش آمدن ہے جس کی وجہ سے وہ بیرون ملک جانا چاہتے ہیں تو اس طرح نوجوان زیادہ آمدن کے لالچ میں ملک چھوڑنے کی بجائے کم آمدن پر اپنے ملک کے لیے اپنی خدمات وقف کرنے کی بھرپور کوشش کریں۔ 
 اس کے علاوہ زیادہ ذمہ داری حکمرانوں پر عائد ہوتی ہے کہ وہ پہلے تو تعلیمی نظام کو درست کریں اور تعلیمی نظام ایسا بنائیں جو نوجوانوں کو صرف رٹا لگوانے کی بجائے انہیں ہنر مند  بنائے اور ان کی صلاحیتوں کو نکھارنے کے قابل ہو ۔ اس کے بعد نوجوانوں کو ملک کے اندر ہی روزگار کے بہترین مواقع فراہم کریں تاکہ وہ اپنے ملک کے اندر رہتے ہوئے اس ملک کو ترقی دے سکیں اور اپنی صلاحیتوں کو اپنے ملک کے لیے ہی استعمال کریں نہ کہ بیرون ممالک میں جا کر ترقی یافتہ ممالک کو مزید تقویت پہنچائیں۔

ای پیپر دی نیشن

 سکول میں پہلا دن ۔ دیدہ و دل

 ڈاکٹر ندا ایلی آج میری بیٹی کا سکول میں پہلا دن تھا ۔وہ ابھی بہت چھوٹی تھی ۔ مجھے سارا دن بہت پریشانی رہی ۔ پتہ نہیں اس نے ...