پاکستا ن کے سپوت کرنل (ر) شجاع خانزادہ اپنے آبائی گائوں شادی خاں اٹک میں اپنے انتخابی حلقہ کے لوگوں کے مسائل سن رہے تھے کہ ایک خودکش حملہ آور نے انکے قریب پہنچ کر خود کو اُڑا لیا۔ دھماکہ اس قدر شدید تھا کہ ڈیرے کی چھت گر پڑی۔ وزیرداخلہ پنجاب شجاع خانزادہ اور بائیس افراد ملبے میں دب کر شہید ہوگئے۔ جن میں شاعر اور ادیب ڈی ایس پی شوکت شاہ شامل ہیں جو سکیورٹی ڈیوٹی پر تھے۔ شجاع خانزادہ فوج میں خدمات انجام دیتے رہے۔ انہوں نے 1971ء کی پاک بھارت جنگ میں حصہ لیا۔ ریٹائرمنٹ کے بعد عملی سیاست میں حصہ لینا شروع کیا اور اپنے انتخابی حلقے سے تین بار صوبائی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ وزیر داخلہ پنجاب کی حیثیت سے انہوں نے نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کرانے کیلئے بے مثال جذبے، لگن اور جرأت کا مظاہرہ کیا۔ پاکستان سے محبت انکے دل میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی اس محبت کی وجہ سے انکے دل میں نہ خوف تھا اور نہ ہی کوئی مصلحت تھی۔ انہوں نے پنجاب کو دہشت گردی سے محفوظ بنانے کیلئے سرگرم کردار ادا کیا۔ وہ انتہا پسندوں کی جانب سے کھلی دھمکیوں کے باوجود اپنے فرائض منصبی میں پوری طرح مگن رہے۔ افسوس سکیورٹی اور خفیہ ادارے ان کو تحفظ نہ دے سکے۔ لشکر جھنگوی کے امیر ملک اسحق اور انکے رفقاء کی ہلاکت کے بعد شجاع خانزادہ نے اس واقعہ کو پولیس مقابلہ قرار دینے کی بجائے اسے نیشنل ایکشن پلان کا حصہ قرار دیا۔ انکی صاف گوئی اور بے باکی جان لیوا ثابت ہوئی۔ شجاع خانزادہ 1971ء کی جنگ میں محفوظ رہے البتہ دہشت گردی کیخلاف جنگ میں انہوں نے پاکستان کی سلامتی اور بقا کیلئے اپنی جان کا نذرانہ پیش کردیا اور وطن کی خاطر قربانیاں دینے والے پاکستان کے عظیم سپوتوں کی صف میں شامل ہوگئے۔ بے نظیر بھٹو سے شجاع خانزادہ تک پاکستان کے شہید تاریخ میں چاند ستاروں کی طرح جگمگاتے رہیں گے۔
اٹک خودکش حملے کے بعد قومی سطح پر دلیرانہ اور پرعزم ردعمل سامنے آیا ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ بے پناہ قربانیوں کے باوجود پاکستانی قوم اور اسکے سیاسی و عسکری رہنما دہشت گردی کیخلاف متحد، پرعزم اور ثابت قدم ہیں۔ پاکستان کے سپہ سالار جنرل راحیل شریف اور وزیراعظم میاں نواز شریف نے دلیرانہ بیانات جاری کیے ہیں اور خفیہ ایجنسیوں اور ریاستی اداروں کو سانحہ اٹک کے سرپرستوں، سہولت کاروں اور معاونین کو بے نقاب کرنے کی ہدایات جاری کی ہیں۔ دہشت گردی کیخلاف جنگ کامیابی سے جاری ہے البتہ ابھی تک سہولت کاروں کی نشاندہی نہیں کی جاسکی جو جنگ جیتنے کی بنیادی شرط ہے۔ اٹک سانحہ کے بعد اب ضرب عضب کا رخ پنجاب کی جانب ہوگا۔ پاکستان کے تمام سیاسی و مذہبی رہنمائوں نے شجاع خانزادہ پر خودکش حملے کی مذمت کی ہے۔ عمران خان نے اعلان کیا ہے کہ اگر شجاع خانزادہ کے کسی عزیز نے ضمنی انتخاب میں حصہ لیا تو تحریک انصاف اس کیخلاف اُمیدوار کھڑا نہیں کریگی۔ یہ ایک مستحسن فیصلہ ہے۔ پاکستان کے وفاقی وزیرداخلہ چوہدری نثار علی اور پنجاب کے وزیراعلیٰ میاں شہباز شریف اور خیبرپختونخواہ کے وزیراعلیٰ پرویز خٹک شجاع خانزادہ کے جنازے میں شریک ہوئے اور پنجاب میں تین روزہ سوگ کا اعلان کیا۔ عوام کی خواہش ہے کہ دہشت گردی کیخلاف جنگ میں انکے منتخب سیاسی رہنما فرنٹ لائن میں نظر آئیں۔ انتہا پسندی دہشت گردی کی ماں ہے جو فرقہ واریت سے جنم لیتی ہے۔ پاکستان کی حکومتیں فرقہ واریت پر مبنی نصابوں کو کنٹرول اور مانیٹرنگ کرنے میں ناکام رہی ہیں۔ پاکستان کے علماء بھی اس سلسلے میں بامعنی اور بامقصد کردار ادا کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ جماعت اسلامی کے امیر قاضی حسین احمد مرحوم نے فرقہ واریت کے جن کو قابو کرنے کیلئے شعوری کوششیں کیں مگر کامیاب نہ ہوسکے۔ پاکستان کا سیاسی، سماجی اور معاشی نظام ظالمانہ، سنگدلانہ اور استحصالی ہے۔ ریاستی نظام احساس محرومی اور انتہا پسندی کو فروغ دیتا ہے۔ پاکستان میں اسلام کے عدل و انصاف پر مبنی فلاحی نظام رائج کرنے کی ضرورت ہے جس کا بہترین نمونہ ہمارے محبوب نبی محسن انسانیت حضور اکرمﷺ نے ریاست مدینہ میں پیش کیا تھا۔ جب تک اجارہ داری، سرمایہ داری اور جاگیرداری کا خاتمہ نہ ہوجائے اور ہر شہری کو باعزت زندگی گزارنے کا موقع نہ دیا جائے انتہا پسندی کا مکمل خاتمہ ممکن نہیں ہوگا۔
جنرل حمید گل عسکری دانشور تھے انہیں لکھنے پڑھنے کا شوق تھا۔ پاکستان کے بارے میں شائع ہونیوالی ہر اہم کتاب کا مطالعہ کرتے اخباری کالم پڑھنا ان کا معمول تھا۔ کالم نویسوں کو فون کرکے اختلاف رائے کا اظہار کرتے ۔ میں نے اپنے کالم بتاریخ 8 اگست میں شجاع نواز کی کتاب کے حوالے سے تحریر کیا کہ 1988ء کے انتخابات کے بعد آئی ایس آئی نے مخدوم امین فہیم کو وزیراعظم بننے کی پیش کش کی تھی۔ 9اگست کو جنرل حمید گل کا فون آگیا کہنے لگے شجاع نواز کی بات درست نہیں ہے۔ جنرل صاحب خوشگوار موڈ میں تھے ان کا حافظہ بلا کا تھا۔ پرانی یادوں کو تازہ کرتے ہوئے کہنے لگے جنرل ضیاء الحق کے سانحہ کے بعد ایک بڑے ملک کے سربراہ نے پیغام بھجوایا کہ بھارت نے انتخابی مہم کے دوران پاکستان میں تخریب کاری کا منصوبہ بنایا ہے۔ کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ انتخابات ملتوی کردئیے جائیں مگر اس وقت کے آرمی چیف جنرل مرزا اسلم بیگ نے اعلان کیمطابق انتخابات کرانے کا فیصلہ کیا۔ انتخابی مہم کے دوران بے نظیر بھٹو نے صدر پاکستان غلام اسحق خان کو فون کیا کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کے مقتدر نمائندے سے ملاقات کرنا چاہتی ہیں۔ صدر پاکستان نے مجھے بے نظیر بھٹو سے ملاقات کی ہدایت کی۔ بے نظیر بھٹو نے اپنے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کوئی بہانہ بنا کر انتخابات ملتوی نہ کردئیے جائیں اور انتخابات میں اگر پی پی پی کامیاب ہوجائے تو شیخ مجیب الرحمن کی طرح ان کو بھی اقتدار منتقل کرنے سے انکار نہ کردیا جائے۔ میں نے بے نظیر بھٹو کو یقین دہانی کرائی کہ انتخابات مقرہ تاریخ کو ہوں گے اور اگر پی پی پی کامیاب ہوئی تو اسے اقتدار منتقل کردیا جائیگا۔ میں نے بے نظیر بھٹو کو بتادیا کہ آئی جے آئی میں نے قومی مفاد میں بنوائی ہے تاکہ پارلیمنٹ متوازن رہے۔ بے نظیر نے کہا ’’جنرل صاحب آپ کو ایسا نہیں کرنا چاہیئے تھا‘‘۔ نظامی صاحب اسٹیبلشمنٹ خوفزدہ تھی کہ اگر بے نظیر واضح اکثریت حاصل کرکے وزیراعظم بن گئیں تو وہ اپنے باپ کا بدلہ لیں گی۔ جب بے نظیر بھٹو وزیراعظم بن گئیں تو میں نے ان سے کہا محترمہ آپ اسلام کا پرچم اپنے ہاتھ میں تھام لیں وہ کہنے لگیں ’’جنرل صاحب میں بہت آگے جاچکی ہوں‘‘۔ افغان طالبان بڑے ذہین اور چالاک ہیں انہوں نے دو سال تک کسی کو ملاعمر کی وفات کا پتہ نہیں چلنے دیا۔ آئی ایس آئی بھی بے خبر رہی میں نے پاک فوج کو مشورہ دیا تھا کہ طالبان کا بازو مروڑ کر ان کو مذاکرات پر مجبور نہ کریں۔ نظامی صاحب آپ دیکھیں گے کہ اشرف غنی کی حکومت طالبان کے سامنے نہیں ٹھہر سکے گی۔جنرل حمید گل طویل بات کرنا چاہتے تھے مگر میری عجلت پسندی آڑے آئی۔ اب سوچتا ہوں کہ میں انکی باتیں کچھ دیر اور سنتا اور تاریخ کو بولنے دیتا ۔
جنرل حمید گل کا ریاست کے بارے میں ایک مخصوص نظریہ تھا جسے وہ قرآن کے عین مطابق سمجھتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ جب کوئی شخص فوجی وردی پہن کر وطن کے دفاع کا حلف اُٹھالے تو وہ زندگی کے آخری دم تک فوجی ہی رہتا ہے اور ہر فوجی کا اولین فرض یہ ہے کہ وہ پاکستان کی جغرافیائی اور نظریاتی سرحدوں کا دفاع کرے۔ جنرل حمید گل زندگی بھر پاکستان کے نڈر اور بے باکی مجاہد رہے۔ افغان جہاد اور کشمیر جہاد کی سرپرستی اور رہنمائی کرتے رہے۔ ان کو افغان طالبان کا فکری رہنما بھی کہا جاتا تھا۔ ہر چند کہ انہوں نے اپنی زندگی میں ہی پرائیویٹ جہاد کا خونی انجام دیکھ لیا تھا مگر وہ اپنے موقف اور نظریے پر ثابت قدم رہے۔جب کوئی شخصیت کسی مخصوص مکتبہ فکر کی رہنما بن جائے تو پھر اس کیلئے پیچھے ہٹنا ممکن نہیں ہوتا۔ اسلام پاکستان اور کشمیر کے ساتھ انکی کمٹمنٹ لازوال تھی۔ چند سالوں سے وہ نرم انقلاب کی تبلیغ کررہے تھے ان کی خواہش تھی کہ فوج عارضی مداخلت کرکے پاکستان کی سیاست اور معیشت کا قبلہ درست کرے۔ نظریاتی اختلاف کے باوجود جنرل حمید گل ایک محب وطن پاکستانی تھے۔ باری تعالیٰ ان کو کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے اور پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے۔
علی امین گنڈا پور کی ’’سیاسی پہچان‘‘ اور اٹھتے سوالات
Apr 25, 2024