گٹکا و چھالیہ مافیا بے لگام
جب ملک دشمن عناصر کے ہتھکنڈے بیرونی طور پر ناکام ہو جاتے ہیں تو پھر وہ اندرونی سطح پر ریشہ دوانیوں میں مصروفِ عمل ہو جاتے ہیں اور بالخصوص ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے والے نوجوانوں میں فتنہ پردازی کی غرض سے ان کو ذہنی و جسمانی لحاظ سے مفلوج کرنے کی سرتوڑ سعی کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک سب سے سہج ٹارگٹ نئی نسل کو نشے کی لت سے آشنا کروانا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ شرپسند اپنے مذموم مقاصد میں 60% کامیاب ہو چکے ہیں۔ گٹکا و چھالیہ بیماریوں کی آماجگاہ ہیں اور یہ دعویٰ ایسا نہیں کہ جسے ثابت کرنے کے لیے لمبے چوڑے تجربات کا سہارا لیا جائے یا الجبراء سے مدد حاصل کی جائے۔ گٹکے اور مین پوری کے استعمال سے 18 سال سے کم عمر سینکڑوں نوجوان منہ کے کینسرکا شکار ہو رہے ہیں۔ افسوسناک پہلو یہ ہے کہ ان میں بڑی تعداد ان خواتین کی ہے جو سونف سپاری کی شوقین ہوتی ہیں اور لاعلمی کے باعث گٹکا کو نشہ تصور نہیں کرتیں۔ گٹکے کی تیاری میں چونے کا پتھر، پسا ہوا شیشہ ،افیون شامل ہوتے ہیں ان میں ایک ایسا جُز ہے جو کہ صراحتاً حرام ہے اور وہ ہے جانور کا خون!!! چھالیہ و گٹکا کا رس ہی کارسینو جینک ہے کیونکہ یہ مصنوعی و ٹیکسٹائل رنگوں سے بنتے ہیں۔ گٹکا کھانے والے سبھی ’’میکوزل فائبروسس‘‘ کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اس مرض میں منہ کی جھلی سوکھ جاتی ہے اور زبان میں لکنت محسوس ہوتی ہے۔ منہ کھلنے میں دقت پیش آتی ہے۔ اِسے پری کنڈیشنڈ کیسز بھی کہا جاتا ہے۔ گٹکا و چھالیہ کھانے والے افراد کے منہ پر ابتداً چھوٹا سا چھالا بنتا ہے۔ چھالا بننے کے بعد بتدریج منہ میں کچھ تبدیلی رونما ہوتی ہے اور پھر وہ چھالا بڑا ہو کر رسولی / کینسر بن جاتا ہے۔ قارئین! اب آپ سوچ رہے ہونگے کہ ہمارے ملک میں اس خطرناک چیز کی پیداوار ہی کیوں ہوتی ہے؟ تو جان لیجئے کہ گٹکا غیر قانونی طریقے سے امپورٹ کیا جاتا ہے۔ پولیس کے چھاپوں کے ڈر سے وہ ٹرکوں میں پڑا رہتا ہے۔ جب ملک میں پہنچتا ہے تو اسے پھپھوندی لگ چکی ہوتی ہے۔ پاکستان میں پھپھوندی زدہ چھالیہ کھانے سے جگر اور پھیپھڑوں کے کینسر کا گراف بتدریج بڑھ رہا ہے۔ حکومتی سطح پر گٹکے کی خرید و فروخت پر پابندی کے بعد گٹکاو چھالیہ کی قیمت بلیک ہونے کی وجہ سے دوگنی ہو گئی ہے۔مگر پھر بھی گٹکا مافیا حیلے بہانے سے اسے فروخت کر رہا ہے۔ انکشاف کیا گیا ہے کہ پابندی کے بعد گٹکا مافیا اپنے شیطان نیٹ ورکس کو فعال بنانے کے لیے بچوں کو استعمال کر رہے ہیں۔ بچے گٹکا پیکٹ ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کر رہے ہیں۔ بعض افراد پابندی کو ہوا میں اُڑاتے ہوئے لیاری کے ہر کیبن پر سرِعام گٹکے، ماوے ، مین پوری ، جمبو ، گودھر، سلور، گولڈن ، پٹھان حتیٰ کہ سمگل شدہ بھارتی گٹکے کو بلاخوف و خطر فروخت کر رہے ہیں۔
محکمہ پولیس کو خصوصی ہدایت کی گئی ہے کہ وہ گٹکا مافیا کی بیخ کنی کرے، لہٰذا اسی تناظر میں گٹکا و چھالیہ کی تیاری خفیہ طور پر اندرون شہروں ، گلی محلوں اور گھروں میں کی جاتی ہے اس کے بعد رگوں میں اترتے زہر کو متمول علاقوں سمیت مخصوص اڈوں پر پہنچایا جاتا ہے۔ پاکستان پینل کوڈ کو دفعہ 337 کے تحت گٹکا فروخت کرنے والے کو کم سے کم ایک سال اور زیادہ سے زیادہ 10 سال اور ایک سے 5 لاکھ روپے جرمانہ ہو گا مگر حیف صد حیف ایسی پابندیاں ہمیشہ عارضی ثابت ہوتی ہیں۔ اس کے خاتمے کے لیے مستقل آپریشن کی ضرورت ہے۔ حیرت انگیز بات تو یہ ہے کہ اسمبلیوں میں گٹکے کی فروخت کے خلاف بِل پیش کیا جا رہا ہے مگر جس پر پابندی لگنی چاہئے، جو سب کی دسترس میں ہے اسکے خلاف کوئی ایکشن نہیں اور وہ ہے چھالیہ!