ارسطو (322-384قبل از مسیح)، مشہور یونانی فلسفہ دان کو، مغربی تاریخ کا سب سے بڑادانشور تسلیم کیا جاتا ہے۔اس کا طالب علم الیگزینڈر دنیا کا فاتح بنا۔ لیکن اس کی عظمت و شہرت میں اضاٖفہ نہ تو اسکی دانشوری تھی اور نہ ہی اس کے عظیم طالب علم کی کارکردگی بلکہ وہ اصلاحات تھیں جن کے سبب15 ویں صدی میں یورپ بطور معاشرہ عروج پر پہنچا۔ یہ کہا جاتا ہے کہ اس دور میں لاطینی زبان سے کئی دیگر زبانوں میں ارسطو کے کام کا ترجمہ یورپ میں نیوٹنین سائنس اور ڈارونونزم پر ہونے والے کام کے مساوی تھا۔
ارسطو کی کتابوں کا ترجمہ بے شمار تعداد میں متعدد زبانوں میں کیا گیاجسے تیزی سے پھیلانے میں پرنٹنگ پریس نے بھی اہم کردار ادا کیا. 'یکساںسوچ اور تعلیم و تربیت کو اجتماعیت میں بدلا گیا - اس طرح صرف چرچ کے ذریعہ سیکھنے اور علم حاصل کرنے والی اجارہ داری کا اختتام ہوا۔ انسانیت (جو لوگ ذہنی صلاحیتوںپر یقین رکھتے تھے) میں اضافہ ہوا اور انفرادی سوچ کو تقویت ملی۔ ارسطو کاماننا تھاکہ 'تعلیم یافتہ انسان ایک اچھا انسان بن سکتا ہے اور ہر عمرسے وابستہ لوگ جو اپنے کام میں مہارت رکھتے ہیں وہ اپنے کام کے اوقات میں زیادہ خوش رہ سکتے ہیں۔
یورپ کے لوگ بدل گئے اور ان کی قسمت بھی. لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ پیروکار تھے جو بڑی تعداد میں بدلے۔. 17 ویں صدی کے آغاز میں، صرف 25 فیصد خواتین لندن میں اپنے ناموں پر دستخط کرسکتی تھیں اور 90% سے زائد خواتین ناخواندہ تھیں. یہی حال تیس لاکھ آبادی والے شہر پیرس کا تھا۔
حصولِ تعلیم کی خواہش نے یورپ میں سب کچھ یکسر تبدیل کردیا۔ جہاں سیاست میں تبدیلی نہیں بلکہ سیاست کی جانب لوگوں کا رویہ بدلا‘ جسکے نتیجے میں دولت گرجہ گھر اور بادشاہت کے تخت سے نکل کر اونچے اور متوسط طبقے تک منتقل ہونا شروع ہوگئی۔یورپین معاشرے میں شر انگیزی کی بجائے لوگوں نے قانون سازی کے عمل کو اپنانا پسند کیا جسکے نتیجے میں قانون کی حکمرانی وجود میں آئی۔
بدقسمتی سے ہمارے ملک میں بھی وہی ہو رہاہے جسے یورپ نے عرصہ دراز پہلے خیرباد کہہ دیا۔ پاکستان میں کسی بھی انسان کے سیاسی مستقبل کا دارومدار اسکی انفرادی جدوجہد، ذہانت یا قائدانہ صلاحیت کی بجائے خاندانی وابستگی پر ہوتا ہے۔ سیاسی رہنماء اپنے بچوں کو دنیا کی بہترین یونیورسٹیوں میں بھیجتے ہیں تاکہ وہ واپس آکر ہم پر اپنے والدین کی طرح حکمرانی کرسکیں۔ اپنے گھر واپس آنے والے سیاست اور حکمرانی کے خواہش مند کیا سمجھیں کہ اصل تعلیم کیا ہوتی ہے؟ ارسطوکے مطابق تعلیم کا مقصد محض سیکھنا نہیں بلکہ سیکھے گئے علم کے ذریعے لوگوں کی تربیت کرنا اور انہیں معاشرے کا ایک ذمہ دار شہری بنانا ہے ۔ اس نے ایک بہت زبردست سوال کو جنم دیا کہ اگر آپ عوام کو جان بوجھ کر تعلیم اور جاننے کے عمل سے محروم رکھیں گے تو کیا آپ ایک رہنماء کے طور پر اچھے شہری ہوسکتے ہیں؟
ہمارے ملک میں سماجی صورتحال تیزی سے تبدل ہو رہی ہے جہاں پرانی روایات تیزی سے دم توڑتی نظر آرہی ہیں۔ یہاں رہنما نہیں بلکہ انکے پیروی کرنے والے اہمیت کے حامل ہیں۔ وہ رہنماجنہیں دولت ،عزت اور جائیدادیں وراثت میں ملیں انہیں خوف ہے کہ انکی بنائی دنیا انکے سامنے زمین بوس نہ ہو جائے ۔ پاکستان میں پروان چڑھتی ایک نئی دنیا میں جو بھی قیادت اپنے اور اپنے خاندانوں کے لئے دستیاب فوائد کو ساتھ رکھے گی وہ ناکام ہوگی۔ جیل کی سلاخوں کے پیچھے بڑھتی ہوئی سیاسی رہنمائوں کی تعداد سماجی تبدیلی کی ایک زندہ مثال ہے ۔ ایک مطالعہ کے مطابق، اس ملک میں 25 ملین بچے اسکول سے باہر ہیں اور 3.5 ملین بچے مدارس میں زیرِ تعلیم ہیں۔ مدارس ٹھیک لیکن اس ملک میں مذہبی عقائد اصل مسئلہ نہیں ۔موجودہ مشکلات کے پیشِ نظر عوامی حمایت حاصل کرنا موجودہ حکومت کی ضرورت ہے اور یہ سیاسی عقیدہ بھی ہے۔ اگر یہ ملک اپنی تقدیر بدلنا چاہتا ہے، تو اسے از سرِ نو اصلاحات اور نظام کی تبدیلی کی طرف جانا ہوگا۔ وسائل کوطاقتور طبقے سے نچلے اور درمیانی طبقے تک منتقل کرنا سب سے مشکل مرحلہ ہے۔ حیران کن طور پر وسائل پر قابض وہی طاقتور طبقہ لوگوں کو ہر اس حکومت کے خلاف اکساتا ہے جو یہ اصلاحات کرنا چاہتی ہے۔
ارسطو کا کہنا ہے کہ: کسی بھی بات کو سمجھنے کے لئے اس بات کی وجہ کو جاننا بہت ضروری ہے۔ ـ لوگ نہ تو کچھ جان سکتے اور نہ ہی سمجھ سکتے ہیں اگر انکو تعلیم سے محروم رکھا جائے اسی بات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے حکومت کو اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ پاکستان کا ہر بچہ سکول جاسکے۔ ماضی قریب میں شائد ہمیں اسکا فائدہ نہ ہو لیکن دیرپا اور مؤثر حل کے لئے تعلیم کے سوا موجودہ بحرانوں سے نکلنے کااور کوئی حل موجود نہیں۔
یورپ نے منطق اور دلیل کے ساتھ بحث اور تقابلی جائزہ لینے کے ہنر کو سیکھا اور اس پر عمل پیرا ہوئے جبکہ ہم اب بھی اپنے 'بند دماغوں' کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں 'جھنڈے لہرانا'، 'ٹائر جلانا'، 'سرکاری املاک کو نقصان پہنچانا' اور 'پھولوں کی پتیاں پھینکنا' لیکن کبھی نہیں سوچتے کہ 'ہم یہ کیوں کر رہے ہیں؟' یہ سب کچھ تبدیل ہو سکتا ہے اور بدل سکتا ہے اگر اس ملک کے عوام اصلاحات کے ساتھ ساتھ پیش آنے والی وقتی درد اور مشکلات کو برداشت کرنے کے لئے تیار ہوں ۔
یہاں ایک اور بات غور طلب ہے کہ یورپ نے عیسائت یعنی مذہبی معاملات کو کیسے دیکھا؟ اصلاحات کے دوران، یورپ نے سچ کی تلاش کے لیے صرف مذہبی جذبات اورمذہبی رہنماوں پر اکتفا نہیں کیا بلکہ منطق،دلیل اور تحقیق کے طریقوں کو استعمال کرنا شروع کیا۔ دلیل اور تحقیق یہ ارسطو کے دو ایسے طریقے تھے جسے یورپ نے انصاف اور سچائی کی کھوج کے لیے اپنایا۔
بالکل اسی طرح مدارس کی اصلاحات کے بغیر پاکستان کے روشن مستقبل کا خواب بھی اپنی اصل تعبیر کو نہیں پہنچ سکتا۔. اگر عمران خان نے مولانا فاضل رحمان کے دباؤ کی حکمت عملی کے تحت مدارس کی اصلاحات کا کام بند کردیا تو یہ ملک بہتر اصلاحات کی جانب نہیں بڑھ سکتا۔. میرے نزدیک مولانا اس حکومت کے اصلاحاتی ایجنڈا کا حقیقی امتحان ہوگا ۔
جی ہاں ! ہمیں سیاسی اور مذہبی آزادی کی زیادہ ضرورت ہے. ہم قدامت کی صورتحال سے باہر نکلنا چاہتے ہیں جس میں ہم ابھی تک پھنسے ہوئے ہیں۔ محترم وزیر اعظم ہمیں اس خراب معاشرتی صورتِ حال سے نمٹنے کیلئے کچھ مشکل اور سخت فیصلے بہرحال ہر صورت کرنا ہوں گے۔
طارق بشیر چیمہ اور زرتاج گل کے مابین سخت جملوں کا تبادلہ
May 17, 2024