خالد یزدانی
بیسویں صدی کی اردو ادب کی تاریخ میں سید امتیاز علی تاج اور ان کی اہلیہ حجاب امتیاز علی کا نام سرفہرست ہو گا۔ سید امتیاز علی تاج 1900 ءمیں لاہور میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد سید ممتاز علی بھی بلند پایہ عالم تھے جنہوں نے فروغ اردو کیلئے بڑا کام کیا۔ 1898ءمیں خواتین کے رسالہ ”تہذیب نسواں“ کا بھی اجراءانہوں نے کیا اور پھر ان کے بیٹے سید امتیاز علی تاج نے بچوں کے رسالہ ”پھول“ کا اجراءکیا تھا ۔ اس وقت یہ دونوں رسالے خواتین اور بچوں میں بہت مقبول تھے جن میں اس وقت کے معروف لکھنے والوں کی تحریریں شائع ہوتی تھیں۔ سید امتیاز علی تاج کے والد نے دارالاشاعت کے نام سے ایک اشاعتی ادارہ بھی قائم کیا تھا اور ان کی والدہ محمدی بیگم بھی اپنے عہد کی مشہور ادیبہ تھیں۔ اس سارے ماحول سے سید امتیاز علی بھی متاثر تھے اور ان کو علمی و ادبی ذوق ورثے میں ملا تھا۔ ابتداءہی سے انہیں گھر پر ادبی ماحول میسر آیا اور دوران تعلیم ہی ان کو اپنے عہد کے نامور ادیبوں کا قرب بھی حاصل رہا۔ مولانا ظفر علی خان، عبدالمجید سالک، چراغ حسن حسرت اور آغا حشر کاشمیری کو سننے اور ملنے کا شرف بھی حاصل رہا۔ اسی کا اثر تھا کہ صرف بائیس سال کی عمر میں سید امتیاز علی تاج نے اپنا پہلا شاہکار ڈرامہ ”انار کلی“ تحریر کیا اور بعد میں انہوں نے انگریزی کے کئی ڈراموں کو بھی اردو کے قالب میں ڈھالا۔ قیام پاکستان کے بعد بھی سید امتیاز علی تاج نے اپنی علمی و ادبی سرگرمیوں کو جاری رکھا۔ پہلے ریڈیو پاکستان سے وابستہ ہوئے پھر مجلس ترقی ادب لاہور کے ڈائریکٹر مقرر ہوئے۔ حکومت پاکستان نے ان کی علمی و ادبی خدمات کے صلے میں ان کو ”ستارہ امتیاز“ سے بھی نوازا تھا۔
حجاب امتےاز علی کو بھی لکھنے کا شوق بچپن ہی سے تھا لہٰذا ان کی تحریریں ”تہذیب نسواں“ میں شائع ہوتی تھیں، جو امتیاز علی تاج کی والدہ کے زیر ادارت شائع ہوتا تھا۔ سید امتیاز علی تاج اور حجاب رشتہ ازدواج میں منسلک ہو گئے کیونکہ دونوں میں یہ قدر مشترک تھی کہ ان کی پہلی تخلیق نے ہی ان کو مشہور کر دیا تھا۔ حجاب اپنے دور کی نہایت ترقی یافتہ اور روشن خیال خاتون تھیں۔ ان کی ترقی پسندی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ انہیں ہندوستان کی پہلی مسلمان خاتون ہوا باز ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہوا۔ رسالہ ”تہذیب نسواں“ میں حجاب کے اس کارنامے کا کوئی چرچا ہوا۔ اس موقع پر اس وقت کے اےک شاعر ادیب مالیگانوی نے ایک نظم لکھی تھی۔
کیا حجاب کی جرات نے بے حجاب یہ راز
کہ ہے قفس کے اسیروں میں طاقت پرواز
توہمات نے گھیرا ہو جس کو صدیوں سے
یہ واقعہ بھی ہے اس قوم کے لیے اعجاز
تھی کار گاہ عمل جس کی چار دیواری
وہ اب ”سکون فضا“ میں بھی ہے خلل انداز
شگون نیک نہ ہو کیوں تری ہوا بازی
کہ باب ہائے ترقی ہوئے ہیں اس سے باز
یقیں اہل قدامت کو آ نہیں سکتا
کنیز خانہ کہاں اور کہاں ہوائی جہاز
ہزار فخر کے قابل ہے کامرانی شوق
مٹا کے رکھ دئیے اندیشہ ہائے دور دراز
یہ نظم رسالہ تہذیب نسواں میں 1936ءمیں شائع ہوئی تھی۔ ”اردو ادب کی خواتین ناول نگار“ کے ایک باب میں کتاب کی مصنفہ نعیمہ فرزانہ رقم طراز ہیں کہ حجاب نے کافی کم عمری میں لکھنا شروع کر دیا تھا۔ ان کا پہلا ناولٹ ”میری ناتمام محبت“ ہے۔ یہ ناولٹ رسالہ نیرنگ خیال میں 1932ءمیں شائع ہوا۔ اس کو بعدازاں ناولٹ کی شکل میں شائع کیا گیا، جس کے پیش لفظ میں حجاب امتےاز نے لکھا تھا ۔
”یہ میرا سب سے پہلا ا فسانہ ہے، جب میں نے اسے لکھا اس وقت میں انتہائی کم عمر تھی“۔ حجاب کا دوسرا ناولٹ ”ظالم محبت“ 1940ءمیں شائع ہوا۔ حجاب امتیاز علی سے تقریباً پچیس تیس سال قبل خواتین کی ایک بڑی تعداد ناول نگاری کے میدان میں قدم رکھ چکی تھی۔ اس دور کا عام رجحان ادب کو معاشرے کی اصطلاح کے لیے بطور آلہ کار استعمال کرنا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ خواتین ناول نگاروں نے بھی اپنے فکشن کو طبقہ نسواں کی اصلاح کے لیے استعمال کیا۔ ان کی اصل مخاطب خواتین تھیں اور جتنے ناول لکھے گئے، بنیادی طور پر خواتین کے لیے لکھے گئے۔
”مصنفہ کے افسانے محض عورتوں اور لڑکیوں کے لیے نہیں ہوتے وہ سب کے لیے ہیں، حسن و عشق ان کا موضوع ہے۔“ حجاب امتیاز علی بنیادی طور پر ایک رومانی فنکارہ ہیں اور اپنے اس رجحان میں و ہ سجاد حیدر یلدرم سے متاثر نظر آئیں۔ سجاد حیدر یلدرم نثری رومانی ادب کے معماروں میں اہم مقام رکھتے تھے ، ان کی تحریریں جو ”خیالستان اور حکایات و احساسات“ میں شامل ہیں، اپنے دور میں بڑی مقبول رہیں۔
حجاب امتیاز علی نے ابتدائی دور میں زیادہ تر افسانے لکھے، ان میں چند طویل تخلیقات ایسی بھی تھیں جو اپنے کینوس اور کرداروں کے دائرہ عمل کے اعتبار سے ناول یا ناولٹ کے ذیل میں آتی تھیں۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ حجاب امتیاز علی کی تحریروں میں بھی وسعت آتی چلی گئی اور انہوں نے شخصی خاکوں پر ”تصویر بتاں“ ایٹمی جنگ کے حوالے سے ناول” پاگل خانہ“ بھی لکھا اور لیل و نہار کے عنوان سے روزنامچہ بھی ان کے انداز تحریر کا ایک انداز ہے۔ سید امتیاز علی تاج اور حجاب امتیاز علی نے اگرچہ زندگی کے کئی نشیب و فراز کودیکھا اور ان کی زندگی میں ایک اہم لمحہ 1950ءمیں آیا، جب حجاب شدید بیمار ہو گئیں اور کافی عرصہ زیر علاج رہیں۔ 70ءکی بات ہے، 19 اپریل کی رات کسی نامعلوم شخص نے سید امتیاز علی تاج پر حملہ کر دیا جس کے نتیجہ میں جانبر نہ ہو سکے اور ملک ایک عظیم ادیب سے محروم ہو گیا اور ایک عظیم ادیبہ جواس واقعہ میں زخمی ہو گئی تھیں نے کافی عرصہ گوشہ نشینی اختیار کر لی اور آخرکار پھر ہمت کی اور لکھنے میں مشغول ہو گئیں اور اس سلسلے میں انہوں نے ”من و سلویٰ“ کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا جس میں شاعر ادیب اپنی بیگمات کے ساتھ شریک ہوتے۔ ان محفلوں میں ملکہ ترنم نور جہاں، انتظار حسین ، حمید اختربھی شامل ہوتے۔ ساری زندگی لکھنے میں گزارنے والی یہ عظیم ادیبہ 18 مارچ 1999ءکو اس جہانِ فانی سے عالم جاودانی کو کوچ کر گئیں اور اپنی یادیں ان تحریروں کی شکل میں چھوڑ گئیں جو آنے والے ہر دور میں زندہ رہیں گی۔
حجاب امتیاز علی کی بیٹی یاسمین اور ان کے شوہر نعیم طاہر کا نام ادبی حلقوں کے ساتھ الیکٹرانک میڈیا میں بھی تعارف کا محتاج نہیں۔ یاسمین طاہر کی آواز سالہا سال سے ریڈیو پاکستان سے سنائی دیتی ہے اور نعیم طاہر کم کم ڈراموں میں منفرد انداز کی اداکاری کے جوہر دکھا کر ناظرین و ناقدین سے داد و تحسین حاصل کرتے ہےں۔ آج امتیاز علی تاج اور حجاب امتیاز علی اس دنیا میں نہیں لیکن ان کا نام ان کی بیٹی یاسمین، ان کے داماد نعیم طاہر کے بعد ان کے نواسے بھی زندہ رکھے ہوئے ہےں اور کیوں نہ رکھیں کہ امتیاز علی تاج کے والد سید ممتاز علی اور امتیاز علی تاج کی والدہ ماجدہ محمدی بیگم نے بھی تو ساری زندگی فن کی خدمت میں گزاری اور آج نئی نسل ان کے ورثے کوساتھ لے کر چل رہے ہےں ۔ جب تک یہ دنیا ہے سید امتیاز علی تاج اور حجاب امتیاز علی کی اردو ادب کی خدمات کو کوئی مورخ بھی فراموش نہیں کر سکے گا۔ یہی تاریخ کا فیصلہ ہے کہ اچھا اور سچا قلم کار کبھی نہیں مرتا۔ اس کی تحریریں اسے زندہ رکھتی ہیں۔