صدر مملکت کا مشترکہ اجلاس سے خطاب ، ہمارے مسائل کی سب سے بڑی وجہ گروہی مفادات اور کرپشن ہے:صدر عارف علوی
صدر مملکت عارف علوی کے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کے دوران پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی کے علاوہ دیگر اپوزیشن جماعتوں نے عام انتخابات کے دوران مبینہ دھاندلی اور پارلیمانی کمیشن نہ بننے کے خلاف احتجاج کیا ۔ مسلم لیگ (ن) ، اے این پی ، پختونخوا ملی عوامی پارٹی، نیشنل پارٹی نے احتجاجاً مشترکہ اجلاس کابائیکاٹ کیا جب کہ پیپلز پارٹی اور امیر جماعت اسلامی سراج الحق احتجاج کا حصہ نہ بنے اور ایوان میں موجود رہے ،ایم ایم اے کے سینیٹر عطاءالرحمان نے صدر کے خطاب کے دوران خلائی صدر نامنظور نامنظور کے نعرے بھی لگائے ، وزیر اعظم عمران خان نے اپوزیشن کومناکر ایوان واپس لانے کی مخالفت کی جب کہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی 2 دفع اپوزیشن کو منا کر ایوان میں واپس لانے میں ناکام رہے اور اپوزیشن کے صدر مملکت کے خطاب کے بعد بات کرنے کے مطالبے کو مسترد کر دیا ۔ پیرکو پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس اسپیکر اسد قیصر اور چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کی زیر صدارت ہوا ۔ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کا باقاعدہ آغاز تلاوت قرآن پاک سے ہوا جس کے بعد نعت رسول مقبول پیش کی گئی اور پھر بیگم کلثوم نواز کے ایثال ثواب کے لیے فاتحہ خوانی کی گئی۔وفاقی مذہبی امور نور الحق قادری نے دعا کروائی ۔ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں وزیراعظم آزاد کشمیر، چاروں صوبوں کے وزرائے اعلی، تینوں مسلح افواج کے سربراہان، چیئرمین جوائنٹ چیفس آف آرمی اسٹاف اور غیر ملکی سفرا سمیت دیگر شخصیات نے شرکت کی۔سپیکر قو می اسمبلی نے صدر مملکت کو خطاب کی دعوت دی تو مسلم لیگ (ن)کے ارکان نے خطاب سے قبل بات کرنے کی اجازت مانگی تو سپیکر قومی اسمبلی نے مسلم لیگ (ن) کے ارکان کو بات کرنے کی اجازت نہ دی اور کہا کہ پارلیمان کی روایات میں صدر کے خطاب سے قبل اپوزیشن کو بات کی اجازت نہیں دی جاتی ، قومی اسمبلی کا کل اجلاس ہے اپوزیشن اپنی بات قومی اسمبلی کے اجلاس میں کرے ۔ جس پر مسلم لیگ(ن)،ایم ایم اے ،پختونخوا ملی عوامی پارٹی ،اے این پی نے احتجاجاً واک آﺅٹ کیا جبکہ پیپلز پارٹی اور امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے واک آﺅٹ نہ کیا اور ایوان میں بیٹھے رہے۔ پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے سینیٹر اعظم خان موسیٰ خیل نے صدر کے خطاب کے دوران خلائی صدر نامنظور نامنظور کے نعرے بھی لگائے ۔اس موقع پر اسپیکر اسد قیصر نے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو پیغام بھجوایا کہ وہ اپوزیشن کو منا کر واپس لائیں جس پر وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اپنے ساتھ بیٹھے وزیر اعظم عمران خان سے اجازت مانگی جس پر عمران خان نے نفی میں سر ہلا دیا ۔بعد ازاں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اپوزیشن کو منانے گئے مگر ناکام لوٹے ۔ اس موقع پر اپوزیشن نے مطالبہ کیا کہ اگر صدر مملکت کے خطاب کے بعد بات کرنے کی اجازت دی جائے گی تو اپوزیشن اپنا واک آﺅٹ ختم کرکے ایوان میں آنے کو تیار ہے ۔ شاہ محمود قریشی نے وزیر اعظم عمران خان اور وزیر دفاع پرویز خٹک سے مشورے کے بعد اپوزیشن کا مطالبہ مسترد کر دیا۔ جس پر اپوزیشن نے اپنا احتجاج جاری رکھا اور صدارتی خطاب کا بائیکاٹ کیا ۔پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے واک آﺅٹ کے بعد پارلیمنٹ ہاﺅس کے باہر مسلم لیگ (ن)کے سینئررہنماﺅں خواجہ محمد آصف،سینیٹر پرویز رشید ، ایاز صادق، خرم دستگیر،رانا تنویر و دیگر نے میڈیا سے گفتگو کی ۔ اس موقع پر خواجہ محمد آصف نے کہا ہے کہ آج ہم نے صدارتی خطاب سے پہلے سپیکر سے فلور مانگا ہمیں فلور اس لیے نہیں دیا گیا کہ قواعد اجازت نہیں دیتے لیکن ہم بتانا چاہتے تھے کہ ایسی مثال موجود ہے۔ شاہ محمود قریشی کو صدارتی خطاب سے پہلے سردار ایاز صادق نے بات کرنے کی اجازت دی تھی۔ انہوں نے کہا کہ ہماری بات کو نہیں سنا گیا اورمجبوراً ہمیں واک آﺅٹ کرنا پڑا۔ ہم مختصر بات کرنا چاہتے تھے کہ وزیر اعظم کے انتخاب کے دن قائد ایوان نے یقین دلایا تھا کہ الیکشن میں دھاندلی کے مسئلے پر پارلیمانی کمیشن تشکیل کیا جائے گا لیکن آج مہینہ ہوگیا ہے اور پارلیمانی کمیشن تشکیل نہیں دیا گیا۔ ہم انہیں وعدہ یاد دلانا چاہتے تھے اس کے علاوہ کوئی بات نہیں کرنا چاہتے تھے۔ خواجہ آصف نے کہا کہ سرکاری پارٹی کے کچھ حضرات ہمارے پاس آئے اور کہا کہ صدر کے خطاب کے بعد آپ کو بات کرنے کا موقع دے دیتے ہیں لیکن پھر کہا گیا ہے کہ اس کی بھی اجازت نہیں دے سکتے آپ کل صبح بات کرلیں۔ آج کی بدمزگی کی ذمہ داری سرکاری جماعت پر آتی ہے۔ چالیس سیکنڈ بات کرنے کی اجازت دے دیتے ہم نے صرف انہیں وعدہ یاد دلانا تھا۔ خواجہ آصف نے کہا کہ شروعات غلط ہورہی ہیں حکومت رونگ فٹ پر شروعات کررہی ہے ہمیں حق سے محروم کیا گیا ہے۔سابق وزیر خارجہ کا کہنا تھاکہ ہم چاہتے تھے اپنا موقف عوام تک پہنچاتے، چاہیں گے دھاندلی پر پارلیمانی کمیشن جلد تشکیل ہوکر کام شروع کردے، (آج)منگل کو ہم پھر قومی اسمبلی کے اجلاس میں اس مسئلے کو اٹھائیں گے۔(آج) ہم پھر اس مسئلے کو قومی اسمبلی میں اٹھائیں گے،ہم چاہیں گے کہ دھاندلی پر پارلیمانی کمیشن جلد تشکیل ہو۔