بوڑھے ہوتے دیر نہیں لگتی تاہم بزرگ ہونے کیلئے ایک حیات نہیں حیات جاوداں درکار ہے…
الٰہی پھر مزہ کیا ہے یہاں دنیا میں رہنے کا
حیات جاوداں میری نہ مرگِ ناگہاں میری
قارئین! آپ زیادہ نہ سوچیں مجھے معلوم ہے کہ مولانا فضل الرحمن، پروفیسر ساجد میر اور چودھری شجاعت حسین بھی ’’بزرگ سیاستدان‘‘ ہیں۔ جی! بزرگوں کی کمی نہیں سیاست میں، ایک ڈھونڈو تو ایک ہزار ملتے ہیں لیکن جمہوریت میں بہرحال بزرگی کی کمی ہے!
شیشۂ دیں کے عوض جام و سبو لیتا ہے
یہی نہیں بلکہ
میرا سرجن رگِ ملت سے لہو لیتا ہے
یہ میرا ہی تجربہ و مشاہدہ نہیں تقریباً سبھی نے دیکھا ہے کہ کسی محکمہ یا دفتر کا سربراہ رشوت خوری سے اجتناب کرتا ہو یا صوم و صلوٰۃ کا پابند ہو تو نیچے تک اثر محسوس ہوتا ہے۔ خالی چوکیدار کی پابندیٔ نماز یا دیانتداری کا جلوہ اوپر تک نہیں جاتا۔ چلیں ہم تھوڑی دیر کیلئے پانامہ لیکس کو بھول جاتے ہیں، کچھ دیر کیلئے حمود الرحمن کمشن سے میمو گیٹ سکینڈل تک کو فراموش کر دیتے ہیں، چلو نظرانداز کر دیتے ہیں، سانحہ اوجڑی کیمپ، اصغر خان کیس، سانحہ ایبٹ آباد اسامہ بن لادن کمشن رپورٹ اور لو چھوڑ دیا ماڈل ٹائون ’’کمشن‘‘ بھی مگر کیا اب مستقبل بھی چھوڑ دیں؟ نظریہ پاکستان بھی بھول جائیں کیا اور کیا آئین بھی چھوڑ دیں؟ کیا یہ سوچنا بھی چھوڑ دیں کہ اعتزاز احسن صاحب نے جو کل سابق چیف جسٹس افتخار چودھری کیلئے کھیلا تھا وہ ٹھیک تھا یا جو آج کھیل رہے ہیں یہ ٹھیک ہے؟ آج کے ماہر قانون زاہد حامد نے جب مشرف صاحب کے اشارے پر قانون قانون کھیلا تھا وہ سچ تھا یا جو آج میاں صاحب کے اشارے پر کھیل رہے ہیں وہ درست ہے؟ ساری زندگی آمروں کی وکٹ پر آمروں کیلئے کھیلنے والے شریف الدین پیرزادہ سے کیا پوچھیں، اللہ تعالیٰ ہی اب پوچھ رہے ہونگے یا قیامت کے روز پوچھیں گے۔ بعد میں حفیظ الدین پیرزادہ بھی ’’دونوں طرف‘‘ سے کھیلنے والوں میں اٹھائے گئے! اے اہل سیاست! میرا اتنا تو حق بنتا ہے کہ میں پوچھوں کہ کل تو ایوب خان، ایوب خان کرتا تھا پھر اسے عیوب خان کہہ کر آگے چلتا کیا اور آج اسے آمر آمر کہتا ہے۔ اے جمہوریت پسند! جب تو طفل مکتب تھا تجھے اور تیرے جیسے کتنوں کو سہارا دیا تھا مجلس شوریٰ میں جس نے، پھر الیکشن 1985ء میں تجھے سرخرو کیا جس نے، تُو بھول گیا اس مرد مومن مرد حق کو، آج تُو جنرل ضیاء الحق کو own بھی نہیں کرتا، نہ کر اپنے آپ کو تو own کر!
نہ کوئی پیغمبر رہا بس ان کی تعلیمات رہیں۔ لافانی ہے تو محض رب کعبہ کی ذات۔ سب رستم و سہراب گئے، کوئی سکندر رہا نہ کوئی اکبر اعظم۔ نہ اب یہاں کسی ایوب جرنیل یا ضیاء جرنیل کا توتی بول رہا ہے۔ کتنے بے نظیر بھٹو کو چھوڑ گئے تھے، کتنے ذوالفقار علی بھٹو کے زوال کے ساتھ ہی اسے الوداع کہہ گئے۔ میاں نواز شریف جب پابند سلاسل ہوئے اور کل ہی کی بات ہے نا جب دیار غیر کی صعوبتیں برداشت کر رہے تھے اچانک کہاں چلے گئے تھے سب مسلم لیگی؟ یہ طلال و دانیال، وہ زاہد و حامد، وہ لالیکا و مانیکا، وہ رانا نذیر و میاں منیر، یہ اختر رسول و دیگر بے اصول… اور کچھ وہ جو مشکل گھڑیوں میں جاوید ہاشمی اور ذوالفقار کھوسہ مضبوط بن کر کھڑے رہے انہیں آپ نے بھلا دیا جب مضبوطی نے آپ کی دہلیز پر دستک دی۔ سدا کون ساتھ رہا ہے؟ سدا تو اپنی جان بھی ساتھ نہیں۔ دعا دیں زرداری صاحب کو انہوں نے 2008ء میں الیکشن میں بائیکاٹ سے روکا اور پنجاب میں آپ کی حکومت بنوائی، پھر 18ویں ترمیم سے تیسری دفعہ وزیراعظم بننے کا راستہ بھی کھولا! ادھر روئیں یا پیٹیں جگر کو، پی پی کے شہر وفا کو اپنی تنگ دامنی اور تنگ نظری سے نیست و نابود کر کے وہ راجہ ریاض اب تحریک انصاف کو چونا لگانے چلے گئے۔ پی پی پی، شہباز شریف کابینہ 2008ء میں پی پی پی کے 7 وزراء تھے۔ راجہ سمیت فاروق گھرکی اور اشرف سوہنا پارٹی ہی سے نہیں، سمجھیں سیاسی کیریئر سے بھی گئے۔ حاجی اسحاق (گوجرہ۔ ٹوبہ ٹیک سنگھ) اور رانا تنویر الاسلام کا معاملہ بھی ایسے ہی ہے ’’جئے چوراں کھڑے تئے کلے بنے‘‘۔ رانا تنویر الاسلام کی دبئی کی سفارش تھی گویا نہ زندہ سیاستدانوں میں نہ مردہ میں۔ نیلم جبار چودھری کے اخلاص کو خود پی پی پی نے فراموش کر رکھا ہے۔ رہ گئے تنویر اشرف کائرہ وہ پی پی پی سے مخلص ہیں لیکن سیاسی عقل ان سے مخلص نہیں، ہنوز کمسن اور نادان ہیں۔ یہ وہ وزراء پیکیج ہے پی پی پی جو پنجاب سے بہادر شاہ ظفر ثابت ہوا۔ بہرحال نیلم جبار چودھری اور تنویر اشرف کائرہ کے دامن کرپشن سے پاک تھے، یہ گواہی ان کے سیاسی مخالفین بھی دیتے ہیں۔ جناب زرداری! سیاست میں بڑے بڑے راجہ گدھ بیٹھے ہیں اور ہر پارٹی میں موجود ہیں، کیا بلاول بھٹو زرداری چڑھتے سورج کے پجاریوں اور جمہوریت کی جان لیوا بیماریوں سے کچھ سیکھیں گے؟ زرداری صاحب کہاں ہے دختر مشرق اور چاروں صوبوں کی زنجیر… بے نظیر؟
نغمۂ یاس کی دھیمی سی صدا اٹھتی ہے
اشک کے قافلے کو بانگِ درا اٹھتی ہے
کپتان صاحب! کب قسمت کی دیوی آپ پر مہربان نہیں رہی؟ کب آپ کی مقبولیت کو توانائی میسر نہیں رہی؟ کس چیز کی کمی تھی؟ لگتا ہے بس لوٹوں کی کمی تھی۔ مخلصین کو کھڈے لائن لگا کر لوٹوں کو صف بندی کی اجازت بخش دی۔ چشم فلک گواہ ہے شیرپائو حکومت گئی مڑ آ نہ سکی۔ ایم ایم اے کو اسٹیبلشمنٹ نے کھلا موقع دیا لیکن لوٹ نہ پائے پھر۔ ن لیگ اور اے این پی بھی کے پی کے تخت و تاج دیکھ ہی رہے ہیں۔ بڑا کڑا امتحان لیتا ہے کے پی کے یاد ہے آپ سے آپ ہی کی سیٹ ضمنی میں، ایک ماہ بعد ہی چھین لی… پھر؟ یہ قریشی و ترین و علیم پی پی پی و ق لیگ کے رہے تھے جو آپ کے رہیں گے؟
بزرگو! ستم تو یہ ہے کہ ظالم سخن شناس نہیں، پانامہ لیکس نے کس کس کو دھوکر نہیں رکھ دیا۔ کیا سب ڈھیٹ ڈھیٹ کھیل نہیں کھیل رہے؟ کون ہے جس نے مے نہیں چکھی؟؟؟ کون جھوٹی قسم اٹھاتا ہے؟؟؟ کیا سیاست کے آج کل کے میوزیکل شو میں ’’چور مچائے شور‘‘ کا راگ نہیں الاپا جارہا ہے؟
رب کا واسطہ ہے اے سیاستدانو اور سیاسی اکھاڑوں کے قانونی پہلوانو! کیا آپ کو سپریم کورٹ کی یہ بات عام سی لگی ہے کہ ’’ جائو قانون سازی کر لو‘‘۔
سنا ہے آپ لوگوں کا جنرل نالج بہت زیادہ ہے تو بتایئے یہ کل پرسوں برازیل کے صدر کے قومی اعداد و شمار کے غلط بتانے پر وہاں کے قانون دانوں نے اُسے سیدھا گھر کا راستہ بتایا یا کوئی کالا قانون سکھایا؟ نیوزی لینڈ کے وزیراعظم کو قانون سازوں نے کردار سازی کا درس دیا، یا حرص و ہوس کی پٹی پڑھائی؟ حزب اختلاف اور حزب اقتدار والو! خدا کے لئے سڑک ساز، رنگ ساز،ملمع ساز اور طبلہ نواز بننے کے بجائے قانون ساز بنیں۔ دفعہ 6، دفعہ 62 اور 63 اور ہو سکے تو قرارداد مقاصد کے سنگ سنگ 7 تا 28 تمام دفعات کو چشم بینا سے دیکھیں…
بتوں سے تجھ کو اُمیدیں خدا سے نواُمیدی
مجھے بتا تو سہی اور کافری کیا ہے
کتنے گھروندے اور بستیاں پاناما لیکس سے بچ نکلے؟ انسانی معاشرے میں ٹھوس صرف دلیل ہوتی ہے لاٹھی نہیں۔ کون سی پارٹی بچی؟ اللہ کی پناہ کوئی نہ مانگے تو کیا کرے۔ اس سے قبل کہ قوم (غیر جذباتی عوام) پھر کسی جرنیل کی راہ میں آنکھوں کو فرش راہ کرنے پر مجبور ہو جائے، 25 دسمبر 1949ء 5 اکتوبر 1952 ء اور 26 جولائی 1955 ء کو جنم لینے والے بزرگ میاں صاحب، خان صاحب اور زرداری صاحب قرآن و سنت سے لو کیوں نہیں لگا لیتے؟ اپنی اپنی پارٹی کو انسٹی ٹیوشن بنائیں اور حرص و ہوس کے پتلوں اور لوٹوں کے علاوہ اقربا پروری و خاندان پروری جیسے بگاڑ کی جگہ بنائو کا راستہ ہموار کریں، اسی میں دنیا و آخرت کی کامیابی و کامرانی ہے۔ پارٹیاں اگر انسٹی ٹیوشنز بن جائیں تو پیرا سائٹس (طفیلئے) نہیں لیڈر جنم لیتے ہیں اور مفاد پرست نہیں ریاست پروان چڑھتی ہے اور یوں بنائو بمقابلہ بنائو ہوتا ہے فی الحال بگاڑ بمقابلہ بگاڑ ہے۔ بزرگی ہمیشہ سے آفتابی و ماہتابی کا نام ہے کسی خرابی کا نہیں!
اب عدالتی اصلاح کے بعد ٹویٹر بازی اور میڈیا کانفرنسیں چھوڑ کر سارے قانون ساز سر جوڑیں اور ہاتھ بھی!!!
ایرانی صدر کا دورہ، واشنگٹن کے لیے دو ٹوک پیغام؟
Apr 24, 2024