یونیفکیشن بلاک کا تنازعہ‘ ”کس قانون کے تحت مجھے نوٹس بھیجا“ سپیکر پنجاب اسمبلی کا چیف الیکشن کمشنر کو چیلنج
لاہور (رپورٹ: سلمان غنی) پنجاب اسمبلی میں یونیفکیشن بلاک کے اراکین کی اہلیت کا تنازعہ اب خود چیف الیکشن کمشنر اور پنجاب اسمبلی کے سپیکر کے درمیان آئینی تنازعہ کی شکل اختیار کر گیا ہے اور چیف الیکشن کمشنر کی جانب سے 9 مارچ کیلئے سپیکر سمیت 9 اراکین کو آنے والے نوٹس کے جواب میں سپیکر نے چیف الیکشن کمشنر کی حیثیت اور ان کی جانب سے اختیار کئے جانے والے عمل کو چیلنج کرتے ہوئے کہا ہے کہ انہوں نے کس قانون اور آئین کی کس شق کے تحت انہیں طلب کیا ہے جبکہ آئین کے آرٹیکل 63 اے کے تحت ڈیفیکشن کے حامل اراکین کے خلاف ریفرنس کا جائزہ لینا خود سپیکر کی ذمہ داری ہے اور وہ ان ریفرنسز کا جائزہ لینے کے بعد ہی یہ ریفرنس چیف الیکشن کمشنر کو بھجواتے ہیں لیکن پنجاب اسملی میں چودھری ظہیر الدین کی جانب سے بھجوائے جانے والے ریفرنسز پر کسی باضابطہ جواب سے قبل ہی چیف الیکشن کمشنر کی جانب سے آنے والے نوٹس سراسر غیر آئینی اور غیر قانونی ہیں لہٰذا اس میں خود چیف الیکشن کمشنر کو اپنی پوزیشن واضح کرنا پڑے گی کہ انہوں نے یہ نوٹس کن اختیارات کے تحت اور کس آئینی طریقہ کار کے مطابق بھجوائے۔ دوسری جانب پنجاب اسمبلی سیکرٹریٹ کا کہنا ہے کہ ماضی میں خود مسلم لیگ ق کے سپیکر چودھری افضل ساہی کو وابستگیاں تبدیل کرنے کے حامل ن اور پیپلز پارٹی کے اراکین کے خلاف ریفرنس محض اس بناءپر چیف الیکشن کمشنر کو نہیں بھجوائے گیے کہ پہلے پیپلز پارٹی کے پارلیمانی لیڈر قاسم ضیاءاور مسلم لیگ ن کے پارلیمانی لیڈر رانا ثناءاللہ خود کو پارلیمانی لیڈر ثابت کر سکیں لہٰذا یونیفکیشن بلاک کے اراکین کو نوٹس بھجوانے والے چودھری ظہیر الدین کو پہلے یہ ثابت کرنا پڑے گا کہ وہ کیسے پارلیمانی لیڈر ہیں۔ قانون اور آئین کے مطابق اصل چیز پارلیمانی پارٹی ہے اور ق لیگ کی پارلیمانی پارٹی کی اکثریت ”یونیفکیشن بلاک“ کی صورت میں ایوان میں موجود ہے۔ اسمبلی سیکرٹریٹ کے مطابق فی الحال تو الیکشن کمشن کا وجود ہی نہیں تو پھر چیف الیکشن کمشنر کس بنیاد پر ایک ایسے عمل کا حصہ بن رہے ہیں جو آئینی نہیں سیاسی ہے۔ اسمبلی سیکرٹریٹ کا کہنا ہے کہ چیف الیکشن کمشنر کی جانب سے آنے والے نوٹس پر سپیکر 19 مارچ کو چیف الیکشن کمشنر کے سامنے پیش نہیں ہونگے البتہ اس سے قبل ان کے اس عمل کو چیلنج کرنے پر مبنی جواب چیف الیکشن کمشنر کو بھجوا دیا جائے گا۔ ادھر ق لیگ کے ذمہ دار ذرائع کا کہنا ہے کہ چیف الیکشن کمشنر ایک آئینی ادارہ ہے اور آئینی ادارے کے ایک آئینی عمل پر سپیکر کے طرزعمل کا خود عدلیہ کو نوٹس لینا چاہئے اور اگر ایسا نہ ہوا تو ہم اس عمل پر عدلیہ سے رجوع کریں گے۔ ادھر قانونی اور آئینی حلقے مصر ہیں کہ آئین کے تحت پارلیمانی لیڈر کی کوئی تعریف موجود نہیں۔ آئین میں پارلیمانی پارٹی کی حیثیت اور اہمیت ہے۔ اگر اکثریتی پارلیمانی پارٹی ایک طرف ہے تو وہی پارلیمانی گروپ پارٹی کا نمائندہ گروپ کہلائے گا۔ مذکورہ حلقوں کے مطابق پنجاب اسمبلی میں یونیفکیشن بلاک کے قیام کا عمل اور پارلیمانی لیڈر کا بعض اہم نکات میں جن پر فیصلہ ہونا چاہئے بعد ازاں وابستگیوں کی تبدیلی کے عمل پر کارروائی ممکن ہو سکے گی۔ دوسری جانب سیاسی حلقے پنجاب میں یونیفکیشن بلاک کے عمل کو ملک میں جاری جمہوری سسٹم کے آگے سوالیہ نشان قرار دیتے ہوئے یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ یونیفکیشن بلاک کے قیام کا پنجاب حکومت کو کیا فائدہ ہوا۔ اس حوالے سے دو آراءتو ہو سکتی ہیں لیکن اس عمل سے خود مسلم لیگ ن کی قیادت کے اس اصولی موقف کو جھٹکا ضرور گیا ہے جس کا وہ ماضی میں اظہار کرتی رہی ہے اور چارٹر آف ڈیموکریسی کے آرٹیکل 23 میں لوٹاکریسی کے قلع قمع کا عزم بھی ظاہر کیا گیا تھا۔
سپیکر/ چیلنج
سپیکر/ چیلنج