خواب دیکھنے پر تو کوئی ٹیکس نہیں
دو دوست ترنگ کے عالم میں باتیں کررہے تھے۔ایک نے کہا’’یار، کل رات میں نے خواب میں دیکھا کہ میں چھٹّیوں پر ہوں۔میں اکیلا ہوں اور ایک خوبصورت نہر کے کنارے بیٹھا مچھلیوں کا شکار کررہا ہوں۔‘‘ ’’کیا زبردست خواب ہے!‘‘ دوسرے نے تبصرہ کیا’’کل رات میں نے بھی ایک بڑا رومانٹک خواب دیکھا۔‘‘ ’’تم نے کیا دیکھا؟‘‘ پہلے نے بے قرار ہوکر پوچھا۔دوسرے نے بتایا’’میں نے دیکھا کہ ایک بہت پر فضا مقام پر ہوں اور بیک وقت دو خوبصورت گائڈز مجھے اُس جگہ کی سیر کرارہی ہیں ۔‘‘ ’’بیک وقت دو خوبصوت دو گائڈز؟‘‘ پہلا اپنا اضطراب نہ چھپا سکا،شکوہ کر بیٹھا’’ اور تم نے مجھے کال نہیں دی؟‘‘دوسرے نے جواب دیا’’یار، میں نے تمہیں کال دی تھی مگر تمہاری بیوی نے بتایاکہ تم مچھلی کے شکار پرگئے ہوئے ہو۔‘‘ہماری ایک سینیر شاعرہ(ڈاکٹر فاطمہ حسن) کا بڑا برمحل شعر ہے ؎
خوابوں پہ اختیار نہ یادوں پہ زور ہے
کب زندگی گزاری ہے اپنے حساب میں
پاکستان کی سیاست کے ایک دلچسپ کردار لاہور کے رہائشی ڈاکٹر امبر شہزادہ نے ایک ،دو، تین، چار نہیں، اکتالیسویں بار یہ خواب دیکھا کہ وہ انتخابات میں کامیاب ہوگئے ہیں اور ان کے چاہنے والے انھیں گدھے پر بٹھا کر وزیراعظم ہائوس لے جارہے ہیں۔ان میں بلدیا تی انتخابات سے لے کر سینیٹ تک کے انتخابات شامل ہیں۔ ان کا خواب تو اب تک شرمندۂ تعبیر نہیں ہوا لیکن وہ ایک ہی خواب بار بار دیکھنے سے باز نہیں آتے جس سے ڈاکٹر فاطمہ حسن کے اس نظریے کی نفی ہوتی ہے کہ انسان خوابوں کے معاملے میں بے اختیار ہے۔اگر ایسا ہوتا توڈاکٹر صاحب اپنی مرضی کے مطابق ہربار انتخابی موسم میں قصداً ایک جیسا خواب کیسے دیکھتے؟ڈاکٹر صاحب ہماری سیاسی تاریخ کے منفردلوٹے ہیں۔لوٹے اس طرح کہ ہر نئے انتخابات کے موقع پر وہ بھی پارٹی بدل لیتے ہیںاور منفرد اس طرح کہ وہ ہرمرتبہ اپنی پرانی پارٹی چھوڑ کر اپنی ہی بنائی ہوئی نئی پارٹی میں شامل ہوجاتے ہیں۔پچھلی بار ان کی پارٹی کا نام ’’ انجمن ضمیر فرو شانِ پاکستان ‘‘ تھا۔اس سے پہلے وہ ’’انجمن خوشامد پسندانِ پاکستان‘‘ کے صدر تھے اور اس بار ان کی پارٹی کا نام ہے’’آپ جناب سرکار پارٹی۔‘‘اس مناسبت سے ان کا انتخابی نشان چمچہ ہے جسے وہ اپنی ٹوپی پر لگائے بلکہ سجائے پھرتے ہیں ۔ان کی شناختی علامات تین ہیں ایک ٹھاکرانہ موچھیں ، دوسری گول ٹوپی اور تیسری ڈھول توند۔شہزادہ صاحب بہت عملی انسان ہیں۔مکمل عزم،پوری یکسوئی، مثالی خود اعتمادی اور ناقابلِ تسخیر جرأت مندی جیسے عوامل کو برئے کارلاکر وہ1988ئ سے مسلسل الیکشن لڑرہے ہیںاور پوری مستقل مزاجی سے ہارتے آرہے ہیں۔ مجال ہے جوپاے استقلال میں جنبش آئی ہو۔کوئی بھی الیکشن ہو،انتخابی اکھاڑے میں کودپڑتے ہیںیہ بھی نہیں پوچھتے کہ مجھے دھکا کس نے دیاتھا؟شاید یہ سوچتے ہیں کہ کبھی تو مصطفی زیدی کا یہ کہا پورا ہوگا ؎
کچے گھڑے نے جیت لی ندی چڑھی ہوئی
مضبوط کشتیوں کو کنارا نہیں ملا
جمشید دستی کے بعد امبر شہزادہ وہ دوسرے امیدوار ہیں جو اپنی انتخابی مہم گدھے پر چڑھ کر چلاتے ہیں۔عرب شہزادے آج بھی گھوڑوں کی سواری کرتے ہیں۔پاکستان ایک غریب ملک ہے اس لیے ہمارے یہاں گدھے زندگی کے ہر شعبے میں نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ کرتے نظر آتے ہیں۔سیاسی گدھے تو عربی گھوڑوں سے زیادہ فعّال ہیں۔ڈاکٹر امبر شہزادہ کی اعلیٰ ظرفی دیکھیے کہ وہ اس بات کو کبھی خاطر میں نہیںلائے کہ انہیںکتنے ووٹ پڑے؟1988ئ میں جب انھوں نے پہلی بارلاہور کے مشہور حلقہ این اے120سے الیکشن لڑا تھا تو ایک سوووٹ حاصل کیے تھے۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ماشاء اﷲ جُوںجُوں ان کے انتخابی تجربے میں اضافہ ہوتا رہاتُوںتُوں ان کے ووٹ بنک میں کمی واقع ہوتی رہی جو 2013ئ کے انتخابات میں گھٹ کرصرف سات رہ گیا۔ان کا اپنا خاندان چھے افراد پر مشتمل ہے لہٰذا اُس وقت یہ مسئلہ پیدا ہوگیا تھا کہ ساتو اں ووٹ کس نے ڈالا؟کچھ عرصے انھوں نے اس مسئلے پر تحقیق کی،پھریہ کہہ کر بے فکر ہوگئے کہ __مٹی پائو۔آفرین ہے ڈاکٹر صاحب کو، ایک طرف وہ نئے حوصلے سے بڑے بڑے ’’ہیوی وٹیس‘‘ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال رہے ہیں اور دوسری طرف اُن کا گدھا ڈھینچھوں ڈھینچھوں کر کے مخالفین کو للکار رہا ہے۔ان کا دعویٰ ہے کہ وہ خود کو متبادل وزیراعظم کے طور پر پیش کرتے ہیں۔لوگ آج انھیں سیریس نہیں لے رہے تو کیا ہوا؟ دنیا کے ہر بڑے آدمی کو شروع میں ایسے حالات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔محمود غزنوی اگر چیونٹی کو پانی سے باہر نکلنے کی کوشش میں حوض کی دیوار سے سولہ مرتبہ گرتے اور سترہویں مرتبہ نکلتے ہوئے نہ دیکھتا تو وہ ہندوستان پر آخری بھرپور حملہ کیسے کرتا؟پس، شہزادہ صاحب ناکامیوں سے دل برداشتہ نہیں بلکہ انھیں اپنی سب سے بڑی قوت قرار دیتے ہیں۔موصوف کا منشور بھی بہت حقیقت پسندانہ ہے۔وہ معمولی’’کرپشن‘‘ کو جاری رکھنے کے حق میں ہیں تاکہ بڑے بڑے کیسوں پرتوجہ مرکوز رہے۔ان کے منشور میں رشوت کو قانونی شکل دینے اور اُس پر ٹیکس عائد کرنے کی بات کی گئی ہے۔ اس طرح سرکاری خزانے کو خاصا سہارا ملے گا۔ خوشامد کو تو وہ انفرادی اور قومی سطح پر اتنی اہمیت دیتے ہیں کہ اپنا انتخابی نشان ہی چمچہ رکھا ہے۔شہزادہ صاحب دل کے بھی شہزادے ہیں۔وہ اس بات کے قائل ہیں کہ ؎
تمہاری سینہ فگاری کوئی تو دیکھے گا
نہ دیکھے اب تو نہ دیکھے کبھی تو دیکھے گا
ایک قومی لیڈر نے بیان دیا ہے کہ وہ یہ الیکشن جیتنے کے لیے لڑ رہے ہیں۔دوسرے الفاظ میں وہ الیکشن میں کامیابی کے لیے ہر حربہ استعمال کریں گے،ہر حد تک جائیں گے۔وسیع النظر ڈاکٹر امبر شہزادہ اس کے برعکس بڑے عجزوانکسا ر سے تسلیم کرتے ہیں کہ انھیں اس بار بھی ناکامی کا منہ دیکھنا پڑے گا۔ان کا یہ استدل بھی حقیقت پر مبنی ہے کہ روایتی سیاست داں یہ دعوے کیوں کرتے ہیں کہ انھوں نے اتنے ڈیم،اتنے اسپتال،اتنے تعلیمی ادارے بنائے۔کوئی ان لوگوں سے پوچھے کیا تم نے یہ اپنے ذاتی بٹوے سے بنوائے ہیں؟پیسہ توٹیکسوں کی شکل میں عوام ہی کا تھا۔ پھر یہ کس بات کا کریڈٹ لے رہے ہیں؟شہزادہ صاحب کی فراخ دلی کا اندازہ اس سے لگائیے کہ انھوں نے ان لوگوں کوجو مشہور اور مقبول پارٹی ٹکٹ حاصل کرنے میں ناکام ہوگئے ہیںپیشکش کی ہے کہ’’ آپ جناب سرکار پارٹی‘‘ کے ٹکٹ ہروقت حاضر ہیںبلکہ وہ یہ ٹکٹ گدھے پر چڑھ کر برات کی شکل میں آکر مایوس امیدواروںکو ازخودپیش کرنے کے لیے تیار ہیں۔اب بھی اگر لوگ اس سے فائدہ نہ اٹھائیں تو قصور کس کا؟ڈاکٹر امبر شہزادہ ان بہت سے سیاست دانوں سے بالکل مختلف ہیں جن کے لیے مجید لاہوری نے کہا تھا ؎
سو پشت سے ہے پیشہ آبا’’گداگری‘‘
کچھ’’ لیڈری‘‘ ذریعۂ عزت نہیں مجھے
کالم ختم کرنے سے پہلے سید محمد جعفری(مرحوم) کی الیکشن کے بارے میں ایک طویل نظم کے دو اشعار کا حوالہ بے جانہ ہوگا۔دوسرے شعر کے دوسرے مصرِع میں اگر آپ کو آج کے حالات کی جھلک نظر آئے تو ہمارے بجائے شاعر کو داد دیجیے جس نے نصف صدی قبل یہ پیشگوئی کی تھی ؎
سودا ہے لیڈری کا جو دل کو ستائے ہے
’’دل پھر طوافِ کوئے ملامت کو جائے ہے‘‘
زندہ ہے وہ کہ جس کا رجسٹر میں نام ہے
اور زندگی شریفوں کے اوپر حرام ہے