علامہ اقبال کی روح پرور نظم ”دُعا“ کا میرے دل و دماغ پر ہمیشہ گہرا اثر رہتا ہے خصوصاً جب قاضی حسین احمد اس کو بڑے خوبصورت انداز میں پڑھتے تھے
زندگی ہو میری پروانے کی صورت یا رب ۔۔۔۔ علم کی شمع سے ہو مجھ کو محبت یا رب
خدا ہی بہتر جانتا ہے کہ مجاہد کامران کی سلگتی ہوئی علم کی شمع کب سے روشن ہے مگر ”اعترافِ خدمات“ کی تقریب میں محسوس ہوا کہ خون جگر سے روشن مجاہد کامران کی شمع حیات دونوں سروں سے جل رہی ہے پھر حکیم الامت کا سبق یاد آتا ہے
دور دنیا کا میرے دم سے اندھیرا ہو جائے ۔۔۔ ہر جگہ میرے چمکنے سے اُجالا ہو جائے
اندھیروں میں مقصد اور نظریے کی شمع روشن رکھنا ہی روشن ضمیر انسان کی زندگی کا مقصد ہوتا ہے۔ چینی فلاسفر ایتھل مینن نے کیا خوبصورت اور پُرمغز بات کی ہے ....My life's Candle is Burningon its both Ends,And I know, It should notLast the night, But oh My Friends and Aha my PoesIt gives such a lovely light. قارئین کون نہیں جانتا کہ جب تک شمع حیات جلتی رہتی ہے، شام غم بڑھتی چلی جاتی ہے مگر سچا استاد تو تخلیق کار ہوتا ہے جو علم و ہُنر کو یکجا کر کے انسانی سرمایے کی تشکیل کرتا ہے ایسے ہی تو نہیں کنساس یونیورسٹی کے پروفیسر ٹی بلٹن کا کہنا ہے Dr. Mujahid Kamran is a gold mine of graduate studentsوہی قومیں زندہ رہتی ہیں جو اپنے ہیروز کی خدمات کا اعتراف ان کی زندگی میں کرتی ہیں وگرنہ ہمارے ہاں تو رواج ہے کہ اپنے اعلیٰ آدمی کو مرنے دو اور اس کے بعد بقول منیر نیازی
مارنے کے بعد اسکو دیر تک روتے ہیں وہ ۔۔۔ اپنے کردہ جرم سے ایسے رہا ہوتے ہیں وہ
فخر صحافت آبروئے پاکستان محترم مجید نظامی، قائداعظم کیساتھ مرشد نسیم انور بیگ مرحوم، چیئرمین شوکت خانم ہسپتال عمران خان، قاضی حسین احمد نامور دانشور ارشاد احمد حقانی مرحوم کیلئے محفلیں سجاتے ہوئے دل و دماغ نے گواہی دی کہ ڈاکٹر مجاہد کامران بھی ہمارا رول ماڈل اور ہیرو ہے کیونکہ وہ بھی مجید نظامی سے عقیدت رکھتا ہے اور میرے تو وہ نظریاتی رہنما ہیں لہٰذا رشتے کے ناطے ہم آپس میں ”پیر بھائی“ ہیں تو پھر جب بات چلی تو کتنے ہی نظریاتی قائد ڈاکٹر مجید نظامی کے چاہنے والے میرے ہم خیال اور ہم نشیں محفل کو عزت بخشنے کیلئے اعتراف خدمات کی تقریب میں پہنچ گئے۔ وائس چانسلر سرگودہا یونیورسٹی، ڈاکٹر اکرم ایگزیکٹو ڈائریکٹر ایچ ای سی ڈاکٹر مختار احمد، پروفیسر شازیہ مجاہد، راجہ محمد انور چیئرمین پنجاب ایجوکیشن فا¶نڈیشن، پروفیسر ثمینہ بخاری، جنرل شاہد عزیز، فرید پراچہ نامور صحافی اور کالم نگار محترم اصغر شاد، عائشہ مسعود اور پروفیسر نعیم مسعود پوری آب و تاب سے سٹیج پر موجود دکھائی دئیے۔ یونیورسٹیوں کے طلبہ و طالبات نامور صحافیوں، دانشوروں اور اہل علم سمیت سینکڑوں مرد و خواتین نے ایک صاحب علم استاد کی پذیرائی بھرپور انداز میں کی ”محترم اصغر شاد اور عائشہ مسعود صاحبہ نے سٹیج پر میرا بھرپور ساتھ دے کر محفل کی خوبصورتی میں بہت اضافہ کیا۔ اس موقع پر اصغر شاد صاحب نے اپنی کتاب ”دوستی کا سفر“ ڈاکٹر مجاہد کامران کو پیش کی۔ خدائے باری تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر راولپنڈی کے اہل علم، صحافیوں اور معززین شہر نے ڈاکٹر مجاہد کامران کی علمی، سائنسی اور قومی خدمات کے اعتراف کو ایک مستحسن قدم قرارداد دیتے ہوئے میری بھرپور حوصلہ افزائی کی اور سبھی حاضرین جو سیاسی مداریوں سے اکتائے ہوئے تھے اس بات پر متفق نظر آئے کہ حقیقی استاد جو ڈاکٹر مجاہد کامران، ڈاکٹر مختار احمد اور ڈاکٹر اکرم جیسا ہوتا ہے وہی نوجوان نسل کا ہیرو اور رول ماڈل ہوتا ہے۔ اعلیٰ انتظامی عہدوں کے باوجود یہ تینوں شخصیات استاد ہونے میں فخر محسوس کرتی ہیں وگرنہ قائداعظم یونیورسٹی ہو یا اسلامی انٹرنیشنل یونیورسٹی اِن کے وائس چانسلرز مجھے بڑے دکھ سے کہنا پڑتا ہے وائسرائے چانسلر دکھائی دیتے ہیں۔ لاکھوں روپوں کی تنخواہیں اور مراعات حاصل کرنے کے عوض یہ طالب علموں سے ملنا اور انکے مسائل حل کرنا تو دور کی بات ہر وقت اپنے عہدوں کو بچانے کیلئے سازشوں اور ریشہ دوانیوں میں مصروف رہتے ہیں۔ آصف علی زرداری کے سفارشی عہدیداروں نے جہاں فیڈرل کے دوسرے ادارے تباہ و برباد کئے ہیں وہیں میرٹ کے بغیر اسلامی یونیورسٹی میں ریکٹرز اور صدر کے تعین نے اس یونیورسٹی کو تباہ و برباد کر کے رکھ دیا ہے اسکے برعکس پنجاب یونیورسٹی اور سرگودہا یونیورسٹی میں ہر طالب علم کو وائس چانسلر تک براہ راست رسائی ہے اور کوئی بھی شخص انکے ساتھ فون پر بات کر سکتا ہے یہی ایک صاحب علم اور اعلیٰ استاد کا منصب ہے کہ وہ نہ تو بیورو کریٹ ہوتا ہے اور نہ ہی ارسٹیو کریٹ بلکہ وہ ایک اتالیق ہوتا ہے جو انہی شخصیت اور کردار کی مضبوطی سے نوجوان نسل کو انسپائر کرتا ہے یہی وجہ ہے کہ جب ایسے منفی ذہنیت رکھنے والے نام نہاد ماہرین تعلیم ریٹائرڈ ہوتے ہیں تو انکے شاگرد ان کو منہ تک نہیں لگاتے ہیں مگر مثتنیات ہر جگہ موجود ہے۔ راجہ انور بتانے لگے کہ ڈاکٹر مجاہد کامران نے رُتبہ بلند اِس لئے ملا کہ اللہ نے عاجزی اور انکساری اُن کے اندر کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ وہ نرم دم گفتگو اور گرم دم جستجو کے ساتھ ایک باوقار بہادر انسان ہیں
ہو حلقہ یاراں تو بریشم کی طرح نرم ۔۔۔ رزم حق و باطل ہے تو فولاد ہے مومن
فرید پراچہ کہنے لگے ڈاکٹر صاحب مجاہد بھی ہیں اور کامران بھی کیونکہ وہ پاکستان، اسلام اور نوجوان سے محبت رکھتے ہیں یہ اُنہی کی جرا¿ت ہے کہ سرکاری یونیورسٹی کے وائس چانسلر ہونے کے باوجود کھلا کھلم امریکی عزائم اور سازشوں کا پردہ چاک کرتے ہیں ان کی معرکة الآرا کتاب The Grand Deception ایسی شہرت یافتہ تصنیف ہے جو انہوں نے بہادر افغان عوام کے نام منسوب کی ہے۔ اس تقریب میں ڈاکٹر اکرم وائس چانسلر سرگودہا یونیورسٹی نے خصوصی شرکت کی اور اپنے ہم عصر ماہر تعلیم کو دل کھول کر خراج تحسین پیش کیا۔ ڈاکٹر اکرم کے دل میں جہاں تصوف پریم ساگر کا مہا سمندر ٹھاٹھیں مارتا ہے وہیں وہ سرگودہا یونیورسٹی میں یتیم بچوں اور حفاظ قرآن کو بغیر فیس کے اعلیٰ تعلیم فراہم کرتے ہیں اور تعلیم کو ہُنر اور تربیت کے ساتھ ملاتے ہوئے کبھی خوش آب پانی کو کم قیمت پر مارکیٹ میں متعارف کرواتے ہیں تو کبھی مان کے زرعی ماہرین گنے کی پیداوار کو بڑھانے کیلئے کامیاب تجربات کرتے ہیں اور اسکے ساتھ ساتھ قرآن اور عربی کی تعلیم کو آسان طریقے سے نوجوان کے دل و دماغ میں راسخ کرنے میں ہمہ تن مشغول رہتے ہیں وہ ہر مسئلے کا حل قرآنی تعلیمات کی روشنی میں پیش کرتے ہیں۔ ڈاکٹر مختار احمد جو میرے لئے ایک آئی کون کا درجہ رکھتے ہیں کہہ رہے تھے کہ وہ باہر کی پُرکشش ملازمتیں چھوڑ کر پاکستان اس لئے واپس آئے کہ انہیں ڈاکٹر مجاہد کامران نے اس کیلئے آمادہ کیا۔ ڈاکٹر مجاہد کامران ڈاکٹر اکرم چودھری اور ڈاکٹر مختار احمد جیسے نوجوان نسل سے محبت کرنیوالے اساتذہ کی موجودگی میں مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ پاکستان کا مستقبل روشن ہو جائیگا۔ اگر جینوین اساتذہ طالب علموں کو اپنے بچوں کی طرح تعلیم اور تربیت کے مراحل سے گزاریں تاکہ سمسٹر میں منفی ہتھکنڈوں سے طلبہ و طالبات کو ذاتی مفادات کا اسیر بنا کر بلیک میلنگ کریں۔ آج ہر شخص جانتا ہے کہ یونیورسٹی آف پنجاب اور یونیورسٹی آف سرگودہا میں صاحب بصیرت اساتذہ کے وائس چانسلرز بننے سے وہاں کرپشن کا نام و نش ان مٹ گیا ہے۔ جنرل شاہد عزیز بھی قرآن کو مشعل راہ بنانے کو ہی تعلیم و تربیت خیال کرتے ہیں اور انہوں نے کہا کہ اگر ہم نوجوانوں کو تعلیم و تربیت قرآنی احکامات کی روشنی میں کریں گے تو ہمیں دنیا اور آخرت دونوں جگہ کامیابی اور کامرانی حاصل ہو گی۔ ڈاکٹر مجاہد کامران تالیوں کی بھرپور گونج میں خطاب کرتے ہوئے کہنے لگے ”استاد کی عزت نہ کرنے والی قومیں تباہ ہو جاتی ہیں۔ آج ہر طرف لوٹ مار مچی ہوئی ہے جعلی ڈگری رکھنے والوں کو جیل بھجوانے پر عدالتوں کو سلام پیش کرتا ہوں۔“۔ انہوں نے بتایا کہ انکے ایک کالم نگار دوست انکے پاس آئے۔ کہنے لگے میری ہر خواہش پوری ہوئی ہے لیکن وقت گزرنے پر جب وہ خواہش دم توڑ گئی تو میں نے انہیں بتایا کہ میرے ساتھ ایسا کوئی مسئلہ نہیں کیونکہ میرے دل میں کوئی خواہش کبھی پیدا ہی نہیں ہوئی لہٰذا مجھے اللہ نے مطمئن زندگی عطا کی ہوئی ہے بہرحال مجاہد کامران دلوں پر سوچ و فکر کو گہری یادیں چھوڑ کر واپس لاہور روانہ ہو گئے، میں سوچنے لگا
یاد اس کی اتنی خوب نہیں میر باز آ ۔۔۔نادان پھر وہ جی سے بُھلایا نہ جائے گا
علی امین گنڈا پور کی ’’سیاسی پہچان‘‘ اور اٹھتے سوالات
Apr 25, 2024