امریکہ طالبان مذاکرات میںمثبت پیشرفت
دوحہ (قطر) میں امریکہ اور طالبان کے درمیان ہونے والے حالیہ مذاکرات بغیر کسی معاہدے کے ختم ہو گئے تاہم امریکی نمائندے زلمے خلیل زاد نے ان مذاکرات کو تعمیری قرار دیا ہے۔ طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے انہیں طویل اور مفید قرار دیا۔ اب تک فریقین کے درمیان مذاکرات کے آٹھ ادوار ہو چکے ہیں۔ دوسری طرف افغان طالبان نے عیدالاضحی کے موقعہ پر خیرسگالی کے اظہار کے طور پر مختلف جیلوں سے 76 قیدی رہا کر دئیے۔
حالیہ مذاکرات سے بڑی اُمیدیں وابستہ کی جا رہی تھیں کہ فریقین کسی معاہدے پر دستخط کر کے ہی مذاکرات کی میز پر سے اُٹھیں گے لیکن کسی وجہ سے ایسا نہ ہو سکا۔ بہرحال مایوسی کی کوئی وجہ نہیں۔ فریقین کے نمائندوں کی طرف سے اس حوالے سے جو بیانات آئے ہیں وہ خاصے اُمید افزا ہیں۔ اس لیے طالبان نے نہ صرف ان مذاکرات کو مفید قرار دیا بلکہ فضا کو مزید سازگار بنانے اور اعتماد سازی کے اقدامات کے طور پر اپنی مختلف جیلوں سے 76 قیدیوں کو رہا کردیا۔ کوئی بعید نہیں کہ اگلا دور کسی معاہدے یا سمجھوتے کی نوید لے کر آئے۔ پاکستان کی ہمیشہ سے خواہش رہی ہے کہ افغانستان میں امن و امان رہے۔ تاکہ افغان بھائی بھی ترقی و خوشحالی کی منازل طے کر سکیں اور امن کی برکات سے مستفید ہو سکیں۔ افغانستان میں امن کب کا قائم ہو چکا ہوتا۔ اگر امریکہ نے بھارت کی عینک اُتار کر اپنی آنکھوں سے صورتِ حال کو دیکھنے کی کوشش کی ہوتی۔ امریکہ نے ڈومور، طالبان کے ٹھکانوں اور حکمت یار نیٹ ورک کی رٹ لگانا ترک کی ہوتی۔ دوحہ مذاکرات جو کامیابی کے دائرے میں داخل ہو چکے ہیں، پاکستان کی کوششوں سے ہی کامیاب ہو رہے ہیں۔ فریقین کو معاہدے پر دستخط کرتے وقت صدق دلی سے کام لینا چاہئے اور سمجھوتے کو کسی اگلے معرکہ کے لیے مہلت تصور نہیں کرنا ہو گا۔ ورنہ پھر بڑی خونریزی ہو گی۔ جب ایک بار اعتماد کی دیوار گر جائے تو پھر اسے دوبارہ کھڑی کرنے میں بڑا وقت لگتا ہے!