قلبِ سلیم سے خلیل اللہ تک کا سفر! 

مروہ خان میرانی 
marwahkhan@hotmail.com
ایک دن حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حضرت حجر علیہ السلام کو اپنے بچے اسماعیل علیہ السلام کے ساتھ سامان باندھنے کو کہا۔ کئی دنوں کے سفر کے بعد حجاز نامی مقام پر پہنچے۔ یہ ایک بنجر علاقہ تھا اور اس کے آس پاس کچھ بھی نہیں تھا، نہ پانی، نہ ہریالی اور نہ ہی زندگی کے اثار۔ ابراہیم علیہ السلام نے انہیں وہاں پر تنہا چھوڑ کر چلے گئے۔ حجر علیہ السلام نے حیران ہو کر پوچھا۔ آپ ہمیں یہاں اکیلا چھوڑ کر کہاں جا رہے ہیں؟ 
انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا اور خاموش رہے۔ پھر انہوں نے سوچا کہ یقیناً یہ ابراہیم علیہ السلام کا منصوبہ نہیں بلکہ اللہ سبحان اللہ کا منصوبہ ہے کہ ہمیں ویران چھوڑ دیا جائے۔ پھر پوچھا 
کیا اللہ سبحان اللہ نے آپ کو ایسا کرنے کو کہا؟ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جواب دیا "ہاں". 
حضرت ہاجر علیہ السلام نے کہا "پھر ہم بھٹکنے والے نہیں ہیں کیونکہ اللہ سبحان اللہ تعالی نے حکم دیا ہے تو پھر وہ ہم دونوں کا خیال بھی خودی رکھے گا"۔
 واپس جاتے وقت ابراہیم علیہ السلام بہت غمگین ہوئے اور اللہ سبحانہ و تعالی سے دعا کی کہ وہ ان کے لیے کچھ اچھے لوگ اور کھانے کو بھیجے۔حضرت حاجر علیہ السلام کا کھانا 2 دن کے بعد ختم ہوا جو ابراہیم علیہ السلام نے انہیں جانے سے پہلے دیا تھا۔ حضرت اسماعیل علیہ السلام بھوک کی شدت سے رونے لگے۔ حاجر علیہ السلام کسی کو ڈھونڈنے کے لیے صفا کے پہاڑ کی طرف بھاگیں لیکن وہاں کوئی نہ ملا، پھر وہ مروہ کی طرف بھاگیں اور وہاں بھی کسی کو نہ پایا۔ وہ اپنے بچے کو روتا ہوا نہ دیکھ سکیں اس لیے صفا سے مروہ کی طرف دوڑتی رہیں یہاں تک کہ ساتویں مرتبہ مروہ پر آواز سنی اور دیکھا کہ آسمان سے ایک فرشتہ اترا ہے جو زمین کھودنے لگا۔ یقینی طور پر پانی بڑے پیمانے پر پھٹ گیا۔ حضرت حاجر علیہ السلام پانی کی طرف بھاگیں اور پانی کو بہنے سے روکنے کے لیے کچھ پتھر ارد گرد لگائے۔ وہ پانی کی کثرت دیکھ کر چونک گئیں اور بے تابی سے "زمزم" پکارا جس کا مطلب ہے "بہنا بند کر دو"۔ اسی لیے اس پانی کا نام "زمزم" کہا جاتا ہے۔ جو دنیا کا سب سے بابرکت اور پاکیزہ پانی ہے۔ اللہ سبحان و تعالیٰ نے حاجر علیہ السلام کو صفا اور مروہ کے درمیان دوڑنا اس قدر پسند آیا کہ اسے حج و عمرہ کا حصہ بنا دیا جسے "سعی" کہا جاتا ہے۔ ایک دن کچھ لوگ اس علاقے سے گزرے اور انہوں نے کچھ پرندے ہوا میں اڑتے ہوئے دیکھے تو انہیں معلوم ہوا کہ آس پاس کچھ ضرور ہے۔ وہ اوپر گئے اور دیکھا ایک ماں اور بچہ زمزم کے کنویں کے قریب بیٹھیں ہیں۔ انہوں نے اس سے پانی پینے کی اجازت مانگی اور اجازت دے دی گئی۔ ان لوگوں نے اس جگہ تناو¿ قائم کرنا شروع کر دیا اور وہیں آباد ہو گئے۔ آہستہ آہستہ لیکن یقیناً لوگ آنے لگے اور شہر بڑھنے لگا۔ حضرت ہاجر علیہ السلام اور اسماعیل علیہ السلام کا لوگ بہت احترام کرتے تھے۔ 
لوگوں کو کھانا کھلانے کی ابراہیم کی ایک مخصوص عادت تھی اور وہ ہمیشہ بہترین مہمان نوازی کرتے تھے۔ اللہ سبحانہ و تعالی نے ان کو "خلیل اللہ", اللہ کا دوست کا خطاب دیا۔ 
 ا"للہ سبحان اللہ نے ابراہیم کو قریبی دوست کے طور پر منتخب کیا",۔ (4:125)
اللہ سبحان اللہ نے ان کے دل کو قلبِ سلیم کے لفظ سے پکارا جس کا مطلب ہے خالص 'کامل دل" ,سبحان اللہ۔ 
ابراہیم علیہ السلام اکثر حجر اور اپنے بیٹے حضرت اسماعیل کے بارے میں سوچتے تھے۔
اللہ تعالیٰ کے حکم سے ان سے ملنے کے لیے واپس اسی جگہ جانے کا فیصلہ کیا۔
جب وہ حجاز پہنچے تو لوگوں نے بتایا کہ ان کی بیوی کا انتقال ہو گیا ہے لیکن اس کا بیٹا زندہ ہے۔ انہیں اپنی بیوی کے بارے میں جان کر دکھ ہوا لیکن اپنے بیٹے اسماعیل علیہ السلام کو دیکھ کر خوشی ہوئی۔ حضرت اسماعیل علیہ السلام کی پرورش ان کی والدہ نے بہت اچھے مومن اور متقی انسان کے طور پر کی تھی۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ایک خواب بار بار دیکھا کہ وہ اپنے بیٹے کو اللہ سبحان اللہ کے نام پر قربان کر رہے ہیں۔ ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بیٹے کو خواب کے بارے میں بتایا۔ اسماعیل علیہ السلام نے کہا ',اے ابا جان! اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل کریں اور وہی کریں جو آپ نے خواب میں دیکھا ہے۔ دراصل اللہ تعالی ان کے ایمان اور ان کی رب سے محبت کا امتحان لینا چاہتا تھا۔ اپنے والد سے وفاداری اور ماں کی طرف سے ایک بہترین پرورش تھی کہ حضرت اسماعیل علیہ السلام، اللہ سبحان اللہ پر پختہ یقین رکھتے تھے۔کہ اپنی قربانی پر راضی ہو گئی۔ جب ابراہیم علیہ السلام مینا کے مقام پر اپنے بیٹے کی گردن پر چھری پھیرنے ہی والے تھے کہ اچانک آسمان سے ایک بھیڑ اتری اور ان کی جگہ قربان ہو گئی۔ تب سے ہم عید الاضحی مناتے ہیں اور ابراہیم اور اسماعیل علی سلام کی یاد میں اللہ کو خوش کرنے کے لیے جانوروں کی قربانی کرتے ہیں۔ 
حضرت ابرہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام خدا کی وحدانیت کا پیغام پھیلاتے رہے۔ پھر انہوں نے محسوس کیا ان کے پاس اللہ تعالی کی عبادت کرنے کی کوئی جگہ نہیں ہے جیسا کہ اس وقت لوگوں کے مندر تھے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ وسلم کو اللہ کا گھر بنانے کا حکم دیا۔ اپنے بیٹے کی مدد سے انہوں نے اس کی تعمیر شروع کی، ابراہیم علیہ السلام اپنے کھڑے ہونے اور نگرانی کے لیے ایک بڑا پتھر لائے۔ وہ جگہ جہاں وہ پتھر پر کھڑا ہوا کرتے تھے ",مقام ابراہیم" کہلاتی ہے۔ اس پر ابراہیم علیہ السلام کے پاو¿ں کے نشانات ابھی تک موجود ہیں۔ یہ اللہ کا گھر "خانہ کعبہ" کہلاتا ہے اور مقدس شہر مکہ بن گیا۔ ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بیٹے کو حکم دیا کہ ایک پتھر اس گھر کے ایک کونے میں رکھنے کے لیے لے آئیں جب حضرت اسماعیل علیہ السلام اس کام کو انجام دینے گئے، پیچھے سے جبرائیل علیہ السلام نیچے تشریف لائے اور آسمان سے ایک بڑا سفید پتھر لا کر دیوار کے اندر نصب کر دیا ، یہ پتھر "حجرہ اسود" کے نام سے مشہور ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ آہستہ آہستہ یہ پتھر سیاہ ہوتا گیا۔ ابراہیم علیہ السلام نے اللہ سبحان اللہ تعالٰی سے دعا کی کہ اس جگہ کو ہمیشہ کے لیے پرامن بنادے۔ 
کعبہ کے بارے میں حیران کن حقیقت یہ ہے کہ اسکو پہلے ابراہیم علیہ السلام نے مستطیل (rectangular) شکل میں بنایا تھا لیکن کئی سال بعد اسے مربع (square) شکل میں تبدیل کر دیا گیا۔ ابراہیم علیہ السلام نے اللہ سبحانہ و تعالیٰ سے فرمائی کہ ان کے بعد جتنے بھی انبیاءکرام اس دنیا میں تشریف لائیں گے وہ ان کی اولاد میں سے ہوں گے۔ ان کی دعا قبول ہوئی اور آخری رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم تک تمام انبیاءعلیہم السلام ، حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولاد سے ہیں۔ سبحان اللہ!
اللہ سبحانہ و تعالی ہمیشہ ہماری دعائیں قبول فرماتے ہیں اگرچہ ہمیں کبھی جلدی نہیں کرنی چاہیے اور شکایت نہیں کرنی چاہیے کہ ہماری دعائیں کبھی قبول نہیں ہوتیں۔ دعا کی قبولیت میں تاخیر ہمیشہ خیر کا باعث بنتی ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت مشابہ تھے۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ابراہیم علیہ السلام وہ واحد نبی ہیں جن کے نام ہمارے روزمرہ عبادت میں آتے ہیں۔ نماز کے وقت درود ابراہیمی ادا کرتے ہوئے۔

ای پیپر دی نیشن