کہتے ہیں کہ بات کرنی ہو تو بہت سی باتیں کرنے کو ہو تی ہیں اور اگر نہ کرنا چاہیں تو کچھ بھی کہنے کو نہیں ملتا۔ لیکن کچھ باتیں زبان زدِ عام پہ آجائیں، کچھ خیالات دنیا کے سامنے اظہر من الشمس ہوں تو اْن کو کہنے سے نہ کوئی روک سکتا ہے اور نہ اْنہیں سوچنے کی پابندی لگا سکتا ہے۔ اگر دیکھا جائے تو معاملاتِ زمانہ بہت سے ہوتے ہیں لیکن ملک اور اْسکی حْرمت چیلنج بن جائے تو ملک کے ہر طبقے کے افراد فکر مند اور زود رنج نظر آتے ہیں۔ ہر طرف چہ میگوئیاں ہوتی ہیں اور جو بھی معاملہ درپیش ہوتا ہے اْسکے پسِ منظر کو ہائی لائٹ کرنے سے لیکر ایسا کیوں؟ کب؟ اور کیسے؟ ہوا کے سوالات تک لے جایا جاتا ہے۔ سوچا جائے تو بہرحال معاملہ تو ہوتا ہے۔ پہاڑ بھی تو رائی ہوتی ہے تو بنتا ہے اسی طرح سے جیسے کہ گرما گرم بحث چل نکلی تھی کہ امریکہ نے بھارت کو گود لے لیا ہے تو اْس میں واضح سچائی نظرآرہی تھی اور یہاں مقولہ اْلٹا پڑ گیا کہ رائی کا پہاڑ نہیں بنا مگر اب اس پہاڑ کو پاکستان رائی بنانے پہ تْلا نظر آتاتھا۔ وفاداریاں بہت نبھا لیں اب وفادار رہنے کا وقت نہیں تھا۔ امریکہ کی پالیسی پاکستان کی پالیسی سے اس لیے نہیں مل سکتی کیونکہ ہمارے اور اْسکے درمیان کلمہ پاک لا الہ اللہ ومحمد رسول اللہ کی مضبوط دیوار کوئی نہیں گرا سکتا ہاں اگر وہ چاہے تو اس دیوار میں مدغم ہو سکتا ہے پھر ہم اپنی وفاداریاں اْسکو ببانگِ دہل دینگے۔ امریکہ نے جب چاہا جس کو چاہا بیوقوف بنا کر کام نکال لیا۔ برما سے یہ کہانی شروع ہو کر افغانستان تک آگئی جہاں جہاں پاکستان نے اْسکی مدد کی امریکہ فائدہ اْٹھا کر پاکستان کو نظر انداز کرتا رہا۔ جب نائن الیون کا معاملہ ہوا تو امریکہ کی آنکھ میں پاکستان وہ پہلا ملک تھا جو کھٹکنے لگا۔امریکہ نے جتنے بھی پاکستانی سیاستدانوں کو عروج دیا جب اْنہوں نے امریکہ کی اصلیت جان لی اور اْس کیخلاف کوئی بھار ی قدم اْٹھایا یا اْسکی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر جواب دیا تو امریکہ نے اْسے ازحد نقصان پہنچانے کی کوشش کی۔ پھر ہمارے اثاثے اور ایٹمی تنصیبات اْس کیلئے ریڑھ کی ہڈی کا درد بن گئے وہ اْنکی طرف میلی آنکھ اْٹھا کر دیکھتا رہا مگر اپنے کسی بھی منصوبے میں کامیاب نہ ہو سکا۔ پھر اْس نے ایک اور چال چلی ڈرون حملے شروع کر دیے اور خود کو ان حملوں کیلئے حق بجانب منوانے لگا مگر پاکستان نے اس پر کاری ضرب لگائی۔ NATO حملہ کے بعد پاکستان کے واویلے پر اْنہیں معافی مانگنی پڑی۔ توپھر امریکہ کے پیٹ میں جو مروڑ اْٹھنے لگے تو اْس نے ایک نیا کھیل ڈرون حملے کا رچایا اور اْسامہ بن لادن کو ہمارے حساس علاقے کے قریب مارنے کا دعویٰ کیاتھا۔ ہماری سا لمیت اور امن و امان کو نشانہ بنانے کیلئے بہت سی تحریکیں مصروفِ عمل ہیں۔ کشمیر کا تنازعہ ابھی تک آسمان سے گر کے کھجور میں اٹکا پڑا ہے۔ دنیا بھر کے مسلمان ممالک میں مسلمانوں کو بے دردی سے اذیت ناک مظالم روا رکھتے ہوئے قتل کیا جاتا ہے۔ ان تمام مظالم پہ کانفرنسز،سیمیناراور بہت سی سفارشات منظر عام پہ آتی رہتی ہیں مگر دشمن اسلام کا مطمعِ نظر ہے کہ بس ایسی کاروائیاں کرتے رہو معافی مانگتے رہو حق جتاتے رہو مگر کسی بھی فیصلے اور احکامات پر عملدرآمد نہ ہونے دو تا کہ مسلمان مرتا رہے لیکن مسلمان نہ کبھی کمزور رہا نہ ہو گا۔افغانستان کی اصل جنگ تو امریکہ کیساتھ ہونی چاہیے مگر افغانستان میں امریکہ جو بھی کاروائی کرتا ہے افغانستان اْسکے جواب میں پاکستان پر الزام عائد کر دیتا ہے حتیٰ کہ کوئی نہ کوئی بہیمانہ کاروائی بھی کرتا رہتا ہے جیسا کہ سانحہ پشاور، سانحہ لاہور کے درد ناک واقعات۔ یہ سب کچھ غلط فہمیوں اور تعلقات میں ایک خلیج حائل ہونے کی بنا پر ہوتا ہے۔ پھر ہماری ضربِ عضب نے بھی دشمنوں کے دانت کھٹے کئے رکھے جس کی وجہ سے وہ خوفزدہ تھا اور بد حواسی میں اِدھر اْدھر کاروائیاں کرتا پھرتا تھا۔ ہمارے اتنے قابل ،ہنرمند اور فقیہہ الذہن مسلمان بھائی اس حادثے کی دہشت کا شکار ہوئے۔ لاتعداد گھرانے بے آسرا ہوئے ،کتنے یتیم اور مائیں تڑپنے کیلئے رہ گئیں،کتنے جنازے اْٹھاتے اْٹھاتے عوام بلکتی رہی، گورکن آخر کتنی قبریں کھودے گا۔ کسی کی موت یا شہادت کوئی معمولی بات نہیں ہوتی مگر اس طرح اجتماعی شہادتوں کے بعد جو اثرات بعد میں قوم اور اہلیان شہید میں ظاہر ہوتے ہیں اْنکا اندازہ لگانا مشکل ہے۔ نجانے یہ دہشتگردی کی لہر کب نیست و نابود کے مرحلے میں داخل ہو گی۔ اب بھی ہر جمعتہ المبارک کے دن دل وسوسوں کا شکار رہتا ہے کہ نجانے کس مسجد میں بلاسٹ ہو جائے کسی بھی تہوار کے آنے پر دل ہر وقت خیریت کی دْعا مانگتا رہتا ہے لیکن آفرین ہے اس قوم پر اس مرتبہ دشمن کی طرف سے اتنی کاری ضرب کے باوجود اوراتنی اذیت ناک شہادتیں ہونے کے باوجود قوم نے بڑے امن کیساتھ احتجاج کیا اورامت مسلمہ کے علاوہ پوری دنیا کو بتا دیا کہ شہیدوں کاخون کبھی رائیگاں نہیں جاتا۔جب پوری قوم اس سانحے پہ انتہائی افسردہ اور شدید تکلیف کاشکارہے اورپوری امید کرتی ہے کہ حکومت اسکے پیچھے ماسٹر مائنڈ اور انکے ساتھیوں کوپکڑکرکڑی سے کڑی سزا دیگی۔ بے شک دل آزردہ اور آنکھیں پْرنم ہیںاور بچھڑنے والوں کیساتھ ہونیوالی بربریت پر چراغِ دل بھی جل رہا ہے۔
ایرانی صدر کا دورہ، واشنگٹن کے لیے دو ٹوک پیغام؟
Apr 24, 2024