شوارما گوشت میں نعشیں محفوظ رکھنے والے کیمیکل کا استعمال

الجزائر کی مغربی ریاست وھران میں اس ہفتے "شوارما" کی شکل میں تقسیم کیے جانے والے گوشت کی تیاری اور اس کی پیکنگ کے لیے قائم کردہ ایک خفیہ ورکشاپ پر چھاپے نے پولیس کو بھی حیران اور پریشان کر دیا، جب اسے پتا چلا کہ گوشت محفوظ کرنے اور اسے بڑے پیمانے پر ڈسٹری بیوٹ کرنے والی دکان پر موجود دکان میں خراب گوشت بیجا جا رہا ہے اور اس کی بدبو چھپانے کے لیے انسانی لاشوں کو محفوظ رکھنے والا مواد استعمال کیا جاتا ہے۔تفصیلات کے مطابق یہ واقعہ ریاست وھران میں گوشت کے ایک ایسے تاجر کا ہے جسے ریاست میں سب سے اہم گوشت ڈسٹری بیوٹروں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔ اس کی دکان سے 467 کلو گرام سفید چکن کا ضبط کیا گیا، جو کہ استعمال کے لیے مکمل طور پر غیر موزوں تھالیکن سب سے زیادہ چونکا دینے والی بات یہ تھی کہ سڑے ہوئے گوشت کی بدبو کو چھپانے کے لیے استعمال کیے جانے والے اس جعلی طریقے میں لاشوں کو محفوظ کرنے والے مادے سے اسپرے کیا جاتا تھا۔ پولیس کو وہاں سے چھ لیٹر "لاول" کیمیکل پانی سے بھری تین بالٹیاں ملیں۔ یہ کیمیکل انسانی لاشوں کو گلنے سڑنے سے اور بدبو کو روکنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔پولیس کے معائنے کے مطابق ملزم خطے کے سب سے بڑے چکن سلاٹر ہاؤس کے ساتھ کام کر رہا تھا۔ وہ خالی ڈلیوری رسیدیں فراہم کرنے والے کا قریبی عزیز ہے۔ اس سے تاجر گاہکوں اور مانیٹرنگ حکام کو دھوکہ دینے کا امکان پیدا ہوتا ہے۔ وہ اسی غیر قانونی ورکشاپ کے اندر گوشت کاٹ رہا ہے، اسے ریستورانوں اور فاسٹ فوڈ کی دکانوں میں تقسیم کرنے کے لیے فروخت کرتا ہے۔

شہریوں میں خوف اور غم وغصے کی لہر
اس خبر نے خاص طور پر مغربی الجزائر میں خوف و ہراس کے ساتھ غم وغسے کی لہر دوڑا دی۔ آبادی کی کثافت کے لحاظ سے یہ ریاست الجزائر کی سب سے بڑی ریاستوں میں سے ایک ہے۔ اسے الجزائر کا دوسرا دارالحکومت سمجھا جاتا ہے۔اس واقعے پر سوشل میڈیا پر سخت رد عمل دیکھا جا رہا ہے۔ صارفین اسے دھوکہ باز عناصر کی طرف سے شہریوں بالخصوص بچوں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈالنے کی دانستہ کوشش قرار دیتے ہیں۔ایک صارف نے اس واقعے پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ " یہ قتل سے بھی زیادہ گھناؤنا جرم ہے۔ اس میں ملوث افراد بشمول ورکشاپ کے عملےکو زیادہ سے زیادہ سزائیں دی جانی چاہئیں‘‘۔ کچھ نے ان تاجروں کے خلاف جرمانے کو دوگنا کرنے کا مطالبہ کیا۔ایک اور صارف نے کہا کہ "یہ بڑی شرم کی بات ہے کہ وہ شخص ریاست میں ایک بڑا گوشت ڈسٹری بیوٹر ہے۔اس کا مطلب ہے کہ ریاست کے آدھے تاجر اس کا گوشت استعمال کرتے ہیں"۔کچھ صارفین نے ریستورانوں کی نگرانی کرنے والی ایجنسیوں کی جانب سے ان کے گوشت کے بارے میں آگاہی نہ ہونے پر انہیں بھی تنقید کا نشانہ بنایا۔یہ بات ناقابل فہم ہے کہ کسی کو بھی ان سڑے ہوئے گوشت کے بارے میں حقیقت کا پتہ نہیں چل سکا۔ ریستورانوں کی نگرانی کرنے والے ایجنٹ بھی اس سے لا علم ہیں

ای پیپر دی نیشن