اپنی لاجواب سروس کا غم

اسلامی جمہوریہ پاکستان کی بین الاقوامی شہرت یافتہ‘ دنیا کے 58 ممالک میں اڑانیں بھرنے اور گزشتہ کئی دہائیوں سے ’’ہم باکمال لوگوں کی لاجواب سروس‘‘ جسے ہم پی آئی اے کہتے ہیں‘ عالمی فضائی کمپنیوں میں کامیابی کے 77 برس مکمل کرنے کے بعد فروخت کے آخری مراحل سے گزر رہی تھی کہ اگلے روز ایک اور نئے ’’سیاپے‘‘ سے دوچار ہوگئی۔ تلاش معاش کیلئے دنیا کے مختلف ممالک میں مقیم اور بالخصوص یورپی اور برطانوی پاکستاینوں سے یہ بات قطعی ڈھکی چھپی نہیں کہ پی آئی اے پر گزشتہ چار برس سے برطانیہ اور یورپی ممالک کیلئے اڑانیں بھرنے پر پابندی عائد کی تھی جبکہ اوورسیز پاکستانی اپنی اس ڈائریکٹ فلائٹ کی غیرمعمولی سہولت کے عارضی خاتمے پر محض اس لئے مطمئن تھے کہ انکی اس لاجواب سروس سے پابندی اٹھا لی جائیگی۔ پاکستان سول ایوی ایشن کے ’’بڑے بڑے صاب‘‘ بھی یہ توقع لگائے ہوئے تھے کہ اس مرتبہ پی آئی اے کی فلائٹس بحال ہو جائیں گی مگر افسوس! یورپی یونین کے گزشتہ ہفتہ منعقدہ اجلاس میں وہی کچھ ہوا جس کا مجھ سمیت برطانوی پاکستانیوں کی ایک کثیر تعداد کو ڈر تھا۔ 
یورپی سی اے اے نے یونین اجلاس میں بغیر لگی لپٹی کے یہ فیصلہ دے دیا کہ پی آئی اے اپنے معیار اور بالخصوص عالمی فضائی  سیفٹی کے اس سٹینڈرڈ پر پورا نہیں اتر سکی جس سے ائرلائن کی پروازوں کو بحال کیا جا سکے۔ پابندی میں توسیع ناگزیر ہے۔ اجلاس میں یہ بھی کہا گیا کہ پاکستان سی اے اے کی رپورٹ اس لئے بھی غیرتسلی بخش ہے کہ پروازوں اور ایئرلائن کے طے شدہ بین الاقوامی سیفٹی اور حفاظتی اقدام پر مبینہ طور پر سنجیدگی سے کام نہیں کیا گیا جبکہ سیفٹی سٹینڈرڈ کو ’’فٹافٹ‘‘ کے اصول پر ’’کام چلائو‘‘ کے تحت انتہائی مختصر وقت میں مکمل کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ میرے ذرائع کے مطابق پاکستان سول ایوی ایشن اتھارٹی کے متعلقہ ’’صاحبوں‘‘ نے وہ سیفٹی سٹینڈرڈز پورے نہیں کئے جن سے پابندی اٹھانے میں مدد مل سکتی تھی۔ پی آئی اے کے سیفٹی معیار کے حوالے سے مبینہ طور پر یہ بھی کہا گیا کہ پی آئی اے پر چار برس قبل جو اعتراضات اٹھائے گئے تھے‘ انہیں ایمانداری سے دور نہیں کیا گیا جس میں ریگولیٹری ڈیپارٹمنٹ کا غیرسنجیدہ عمل بھی نمایاں ہے۔ 
یورپی یونین سیفٹی کمیشن کے مذکورہ بالا فیصلے سے برطانوی پاکستانیوں کو بلاشبہ دکھ پہنچا ہے مگر کیا کیا جائے‘ اصل حقائق چھپانا بھی قومی بدنیتی ہے۔ یاد رہے کہ یورپی کمیٹی نے یہ بھی کہا تھا کہ پائلٹوں کے لائسنس کیلئے رہنماء اصول اور طریقہ کار میں ترمیم کی جائے۔ اسی طرح کیبن کریو‘ انجینئرز اور ایئرکیریئرز کے بارے میں بھی معلومات فراہم کرنے کا مطالبہ شامل تھا جبکہ پی آئی اے کے ایئر سیفٹی میعار کو بھی سنجیدہ بنیادوں پر استوار کرنا ازحد ضروری قرار دیا گیا تھا مگر افسوس! یورپی یونین سیفٹی کمیشن کے بیشتر مطالبات پورے نہیں کئے گئے۔ 
اس سلسلہ میں حال ہی میں ابوظہبی سے سیالکوٹ انٹرنیشنل ایئرپورٹ اترنے والی پی کے 178 فلائٹ کا ذاتی مشاہدہ چند ہفتے قبل پیش کر چکا ہوں جس کے ٹائلٹ سنک کا دورانِ پرواز پانی مکمل بند رہا۔ مسافروں کو ہاتھ صاف کرنے کیلئے سنک پر چار ملی لٹر کی ایک بوتل رکھ دی گئی تھی جبکہ میری غیرمحفوظ Armrest سیٹ کو کالے رنگ کی ’’سلوٹیپ‘‘ سے Cover کیا گیا تھا۔ ’’ہم باکمال لوگوں کی یہ لاجواب سروس‘‘ اس افسوسناک صورتحال تک کیسے پہنچی یا پہنچائی گئی‘ اس پر کئی مزید کالم درکار ہیں۔ مگر آج آپ سے صرف پی آئی اے کے فروخت ہونے کے پس پردہ عوامل پر بات کرنی ہے۔ 2023ء کے پہلے ماہ کی مالی رپورٹ کا ہی اگر ذکر کیا جائے تو مبینہ طور پر 6071 ارب سے زائد نقصان کی نشاندہی سامنے آئی جبکہ 90 ارب روپے کا خسارہ ریکارڈ کیا گیا۔ اس نقصان اور خسارے کی سب سے بڑی وجہ گورننس کا فقدان بتائی گئی۔ اسی طرح پی آئی اے کو ماضی میں ہونیوالے خسارے کی اگر بات کی جائے تو 2000ء میں قومی ایئرلائن کو 52 ملین ڈالر خسارے سے دوچار ہونا پڑا۔ 2012ء میں اس وقت کی قائمہ کمیٹی کے سامنے جب خسارہ رپورٹ پیش کی گئی تو اسی دوران ایک طیارہ مبینہ طور پر 70 لاکھ میں فروخت ہونے کا انکشاف ہوا۔ اسی طرح 2014ء میں 200 ارب روپے کا خسارہ مگر 2017ء کے مالی سال کے دوران پی آئی اے کو البتہ 670 ملین ڈالر کا منافع ضرور ہوا تاہم بعدازاں یورپی ایوی ایشن سیفٹی اتھارٹی کی جانب سے 2020ء میں لگائی بعض پابندیاں اور پھر بعض ہوا بازوں کے جعلی لائسنس اور جعلی سرٹیفکیٹس کے انکشاف پر قومی ایئرلائن کو دنیا میں جس جنگ ہنسائی سے دوچار ہونا پڑا‘ اس کے اثرات تاہنوز موجود ہیں۔ 
حالیہ اعداد و شمار کے مطابق فروخت کے مراحل سے گزرنے والی ہم باکمال لوگوں کی لاجواب سروس مبینہ طور پر اب بھی 750 ملین کی مقروض ہے۔ میں یہ تو نہیں جانتا کہ پی آئی اے فلیٹ میں شامل چھ جمبو بوئنگ 747-300 سیریز طیارے عمر کے اب کس حصے میں ہیں‘ مجھے یہ بھی معلوم نہیں کہ فلیٹ میں شامل 9 ٹرپل سیون 200 سیریز طیارے اپنی عمر کا کتنا حصہ مکمل کر چکے ہیں۔ میں یہ بھی نہیں جانتا کہ فلیٹ میں پرواز کرنیوالے کل طیاروں کی تعداد اب کتنی ہے۔ یوں بھی اس حساب کتاب کا اب کیا فائدہ۔ جب دنیا کے 58 ممالک میں اڑانیں بھرنے والی ایئرلائن فروخت کے مراحل سے گزر رہی ہے تو ایک شعر یاد آرہا ہے کہ:
آگے ہے گھر رقیب کا بس ساتھ ہو چکا
اب آپ کا خدا ہے نگبان، جائیے۔

ای پیپر دی نیشن